تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     15-11-2014

ٹوٹے

نیا سی ای سی؟ 
نئے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ مزید لٹک گیا ہے۔ اس سے پہلے جسٹس (ر) بھگوان داس نے یہ ذمہ داری اٹھانے سے معذرت کردی اور پھر جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے۔ یہ معذرت بھی عمران خان کے ذمے لگا دی گئی کہ ان کی تنقید کی وجہ سے ایسا ہوا ہے‘ حالانکہ انہوں نے انکار کے وقت یہ شرط رکھی تھی کہ انہیں ویسے ہی اختیارات بھی دیئے جائیں جو پڑوسی ملک بھارت کے چیف الیکشن کمشنر کو حاصل ہیں۔ اصل بات بھی یہی ہے کہ اختیارات کی عدم موجودگی میں چیف الیکشن کمشنر کی حیثیت ایک عضوِ معطل سے زیادہ کی نہیں ہوتی جبکہ اس میں بھی قانون سازوں کی سراسر بدنیتی شامل ہے کہ اس طرح اس عہدے پر ہر طرح کا دبائو ڈال کر حکومت اپنا اُلو سیدھا کر سکتی ہے جیسا کہ حالیہ الیکشن کے موقع پر ہوا ہے؛ چنانچہ اکثر تجزیہ کاروں کی رائے یہ تھی کہ ان حالات میں کوئی شریف آدمی چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ قبول کر کے اپنی پگڑی اچھلوانے کو تیار نہیں ہوگا۔ اب اس کے لیے حکومت نے مزید دو ہفتوں کی مہلت حاصل کر لی ہے۔ 
لیڈروں کے وارنٹ گرفتاری؟ 
متعلقہ جج دہشت گردی نے پولیس کی استدعا پر عمران خان‘ ڈاکٹر
طاہرالقادری اور ان سے متعلقہ کئی دیگر شخصیات کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں۔ یاد رہے کہ سانحہ ماڈل ٹائون اور اسلام آباد کے واقعے پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ کے خلاف قتل کے دو دو مقدمات درج ہیں‘ لیکن نہ تو ان سے عام ملزموں کی سی تفتیش کی گئی اور نہ ہی انہوں نے ضمانت قبل از گرفتاری کروانے کی ضرورت محسوس کی ہے‘ جس سے ایک بار اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ ملکی قوانین حکومتی افراد کے لیے نہیں بلکہ سیاسی مخالفین اور عام لوگوں کے لیے ہیں اور قانون کی حیثیت حکمرانوں کے گھر کی لونڈی سے زیادہ کی نہیں رہ گئی۔ ابھی یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ مذکورہ حضرات اس سلسلے میں کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں لیکن اگر وہ کچھ بھی نہ کریں اور احتجاجاً پولیس کو گرفتاری دے کر حوالات میں پہنچ جائیں تو لوگوں کا جو ردِعمل ہوگا اس سے حکومت کو لگ پتا جائے گا اور وہ ایک نئی مصیبت میں گرفتار ہو جائے گی۔ ع ''دیکھیے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا‘‘۔ یاد رہے کہ حکومت کے اپنے بنائے ہوئے کمیشن نے وزیراعلیٰ کو سانحہ ماڈل ٹائون کا ذمہ دار قرار دیا تھا جس کے بعد بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ اس رپورٹ کو ہی دبا لیا گیا حالانکہ اس کے مندرجات میڈیا پر آ چکے تھے۔ 
دھرنوں سے تبدیلی؟ 
یہ سوال عام طور سے کیا جاتا ہے کہ تین ماہ کے دھرنوں سے کیا تبدیلی آئی ہے اور عمران خان نے اس سے کیا حاصل کیا ہے۔ اول تو اس سے بڑی تبدیلی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس نے حکومت کو ایک مجرمانہ خاموشی اور خوابِ غفلت سے بیدار کر دیا ہے اور ارکان اسمبلی کے ساتھ خاص طور پر اس کا تحکمانہ اور اکڑفوں والا رویہ سراسر تبدیل ہو گیا ہے بلکہ فوری طور پر کچھ ایسے اقدامات بھی کرنا شروع کر دیئے ہیں بظاہر جن کا تعلق عوام سے ہے۔ اس کے علاوہ
چین کی کمپنیوں کے ساتھ کیے گئے معاہدوں کا چرچا کیا جا رہا ہے جن کی شفافیت پر ابھی سے سنجیدہ سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ پھر ان کے قابلِ عمل ہونے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے‘ مثلاً یہ کہ اگر یہ منصوبے لگ بھی گئے تو کوئلے سے چلنے والے پلانٹوں کے لیے کثیر مقدار میں جو کوئلہ درآمد کرنا پڑے گا‘ اس کے لیے اربوں روپے کہاں سے آئیں گے جب کہ حکومت سے ان کی گارنٹی کے طور پر مقامی ضمانتوں کو کافی نہیں سمجھا گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔ 
علاوہ ازیں 
اس کے علاوہ حکومت سمیت عمران خان نے دونوں بڑی پارٹیوں کا جو خلاصہ عوام کے سامنے کھول دیا ہے‘ اس سے پہلے یہ کام اتنی دلیری اور خلوص کے ساتھ کبھی نہیں کیا گیا تھا اور اس کا اثر اس لیے بھی بھرپور طور پر ہوا ہے کہ عوام دونوں پارٹیوں کو بار بار دیکھ اور آزما چکے ہیں جس کے نتیجے میں صرف انہی کے بینک مزید بھرے ہیں یا ان جیسے دوسروں کے‘ جبکہ عوام کی حالت پہلے سے بھی ابتر ہوتی چلی گئی ہے۔ نیز عوام کو حکمرانوں کی یہ بادشاہت بھی کسی طور پر قبول نہیں ہے جس کے مزے سب کی آنکھوں کے سامنے لوٹے جا رہے ہیں اور جس میں اب ڈینٹ بھی پڑنا شروع ہو گئے ہیں اور عدلیہ کا موڈ دیکھتے ہوئے مریم نواز سے استعفیٰ بھی دلوا دیا گیا ہے۔ 
یہی صورت حال سندھ میں پیپلز پارٹی نے پیدا کر رکھی ہے اور ایم کیو ایم نے مطالبہ کیا ہے کہ اس بات پر بھی رپورٹ تیار کی جائے کہ سندھ میں گریڈ 16 کے اوپر کے کتنے افسر وزیراعلیٰ یا دیگر وزراء کے رشتے دار ہیں۔ سو‘ نفرت اور شدید نفرت کی ایک فضا ان دونوں پارٹیوں کے خلاف اس حد تک پیدا ہو چکی ہے کہ جس کا کھلا اظہار عمران خان کے جلسوں میں لوگوں کی والہانہ شرکت سے ہو رہا ہے۔ نیز یہ کہ اس دھرنے کے دوران جتنی کوریج میڈیا نے عمران خان کو دی ہے اس کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتی ہے کہ لوگ عمران خان کی باتیں شوق اور غور سے سنتے اور ان پر یقین بھی کرتے ہیں۔ عمران خان کو مختلف حوالوں سے جو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے‘ اس کا عمران خان کی صحت اور مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑ رہا اور نہ لوگ اس پروپیگنڈے سے متاثر ہو رہے ہیں۔ عمران خان کا حکومت کو یہ چیلنج بھی قابلِ غور ہے کہ حکومت اس کے مقابلے میں جلسہ کر دکھائے۔ حالت یہ ہے کہ یہ حکمران جہاں بھی عوام کا سامنا کرتے ہیں‘ ان کا استقبال گو نواز گو ہی کے نعروں سے ہوتا ہے ع 
تفو بر تو اے چرخِ گرداں تفو 
آج کا مقطع 
جہاں پہ تھا وہ، ظفرؔ، اتفاق سے موجود 
وہاں پہ میں بھی کسی کام سے نکل آیا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved