جب جسٹس افتخار محمد چودھری پورے جوبن پر تھے، یعنی ان کے اختیار کا سورج نصف النہار پر تھا، یعنی کہ ان کے بارہ بج رہے تھے تو عزیزم بیرسٹر راحیل کامران شیخ نے کہا تھا کہ وہ عدلیہ کے ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ مجھے ان کی یہ تشبیہ (یاپھبتی) اس قدر پسند آئی کہ اپنے ٹیلی ویژن پروگرام میں اس کی داد دے ڈالی۔کامران کے دوستوں اور دشمنوں، دونوں نے اس سے خوب فائدہ اٹھایا۔ان کی پیٹھ بھی ٹھونکی گئی اور انہیںمتنبہ بھی کیا گیا کہ بھٹو صاحب اس طرح کی بے تکلفی پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان کے جانشینوں کے شائع کردہ بھاری بھرکم قرطاسِ ابیض تلاش نہیں کر سکتے یا ان کے ہزاروں صفحات کا بوجھ نہیں اٹھا سکتے تو ایئر مارشل اصغر خان یا شیرباز مزاری کی کتاب ہی پڑھ لو، چودہ نہیں تو گیارہ ، بارہ ،تیرہ طبق تو بہرحال روشن ہو جائیں گے۔ اگر ''فقہ افتخاریہ‘‘ پر تالیاں نہیں بجا سکتے تو خاموش رہو، اپنے موکلین کی طرف توجہ رکھو، ان کے مستقبل سے نہ کھیلو۔ کامران شیخ نے اس نصیحت پر کان دھرے یا نہیں دھرے، افتخار چودھری کا بھٹو بہرحال دوبارہ نہیں بنایا۔
اس میں کیا شک ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو ایک بہت بڑے سیاسی رہنما تھے۔تاریخ میں ان کا ایک اپنا کردار ہے، اسے انہوں نے بنایا زیادہ ہو یا بگاڑا، متاثر بہرحال کیا ہے۔ تاریخ تو کیا پاکستان کے جغرافیے، معیشت اور سیاست پر بھی ان کے گہرے اثرات مرتب ہوئے اور ان میں سے کوئی بھی ابھی تک ان سے نکل نہیں پایا اور کماحقہ تو شاید کبھی نکل نہ پائے۔بھٹو صاحب کی خوبیوں اور خامیوں، کامرانیوں اور ناکامیوں کی تفصیل بیان کرنے بیٹھیں تو کاغذات کے انبار لگائے جا سکتے ہیں۔ انہیں میر تقی میر کا دیوان بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس میں ہر طرح کا شعر بآسانی ڈھونڈا جا سکتا تھا۔آسمان کو چھوتا ہوا بھی اور زمین میں منہ چھپانے کی کوشش کرتا ہوا بھی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے آغاز کا سہرا ان کے سر ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان انہی کی بدولت پاکستان آئے اور (بالآخر) کمال دکھا پائے۔ 1973ء کا دستور اتفاق رائے سے بنا اور پاکستان کی اجتماعی زندگی کو مضبوط بنیاد فراہم کر دی گئی، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ 1971ء میں دستور نہیں بننے دیا گیا اور 1973ء کے بعد پاکستان کی معیشت اور صاحبانِ اختلاف کے ساتھ وہ کچھ ہوا، جس کی تفصیل آج بھی رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے۔
افتخار چودھری بھی ذوالفقار علی بھٹو ہی کی طرح ایسے شخص تھے(بلکہ ہیں) جو روز روز پیدا نہیں ہوتے۔ برسوں زمین انتظار کرتی اور تب ان (جیسوں)کی قدم بوسی کا شرف حاصل کرتی ہے۔ وہ دنیا کی تاریخ کے (شاید) واحد چیف جسٹس تھے، جنہیں مگر مچھ کے جبڑوں سے بخیروخوبی برآمد کرایا گیا۔ عوام کی طاقت کے سامنے جرنیلی سطوت ماند پر گئی اور وہ اعلیٰ عدلیہ کا افتخار بن کر بحال ہوئے۔ انہیں عوامی چیف جسٹس سمجھا جانے لگا اور جبر کی ماری ہوئی قوم، ان کی طرف نئی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ دیکھنے لگی۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے اعلیٰ عدلیہ کا رعب بحال کیا، اس کا تحکم قائم کیا،بڑے بڑوں کے چھکے چھڑا دیئے۔ایوان صدارت سے لے کر وزیراعظم ہائوس تک لرزنے لگے۔ خفیہ ایجنسیوں کی نیندیں اُڑ گئیں اور تلوار کے مقابلے میں قلم کی طاقت واشگاف ہونے لگی، لیکن ایسا بھی ہوا کہ انصاف پر گھر کی لونڈی کا شبہ ہونے لگا:
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
انتظامیہ اور مقننہ دبکتے گئے۔ان کو اہل سیاست کی اپنی اپنی سیاست نے الجھا رکھا تھا۔ حزب اختلاف، حزب اقتدار کو زچ کرنے میں مصروف تھی۔وہ سسٹم کو بچانا بھی چاہتی تھی کہ اس سے اس کا اپنا مستقبل وابستہ تھا، لیکن اسے سینہ تان کر کھڑا ہونے کی اجازت بھی نہیں دے رہی تھی کہ اس طرح آئندہ اس کی جیت یقینی نہ رہ پاتی۔یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ سسٹم پر قابض افراد کو اپنے مستقبل سے زیادہ حال سے دلچسپی تھی، بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست... جو حاصل ہو گیا تھا ، اس سے خوب کھیلا بلکہ کھل کھیلا جائے۔ حال کو سنوارنے سے گریز پر کوئی تیار نہیں تھا۔ نونقد نہ تیرہ ادھار... سو ''عدل‘‘ کے پوں بارہ تھے، تکلف کیا جناب جسٹس افتخار چودھری ہی کا نام ''عدل‘‘ تھا، وہ جس کو چاہتے ،جس طرح چاہتے ''انصاف‘‘کے سپرد کر دیتے۔نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہ کئی برس گزار کر رخصت ہوئے ہیں تو بھی امیدیں سوکھی ہوئی ہیں۔
یہ سب کچھ سپریم کورٹ کے ایک تازہ فیصلے نے یاد دلایا ہے، جس میں انتظامیہ کو اس کا یہ اختیار واپس دے دیا گیا ہے کہ وہ مختلف سرکاری اداروں کے سربراہ مقرر کر سکتی ہے۔ جسٹس افتخار چودھری کے عہد میں وزیراعظم کو یہ حق حاصل نہیں رہا تھا۔ نتیجہ یہ کہ مختلف اداروں اور کارپوریشنوں میں چوٹی کی آسامیاں خالی پڑی تھیں، ایک مقدمے میں اس نکتے پر بحث ہوئی تو سپریم کورٹ کے ایک فل بنچ نے پرانے فیصلے کو ساقط کر ڈالا۔ اس کی تفصیل پھر بیان ہو گی، فی الحال وزیراعظم کو اختیارات کی واپسی مبارک۔ لیکن وہ یاد رکھیں، تازہ فیصلے نے ان کو آزاد بالکل نہیں چھوڑا، ''میرٹ‘‘ کی پابندی برقرار رہے گی۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)