تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     16-11-2014

واقعہ

ایک صدی ہوتی ہے‘ لاطینی امریکہ کے ایک ملک کے بارے میں ایک سیاح نے لکھا: "A beggar sitting on the golden bench" سونے کے بنچ پر بیٹھا ہوا بھکاری۔ ہمارا حال بھی وہی ہے‘ بخدا وہی۔ 
اس قدر عجیب واقعہ پیش آیا کہ یقین ہی نہیں آتا۔ گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں جیسے اچانک روشنی پھیل جائے ؎ 
جیسے صحرائوں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم 
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے 
لکھنا تو پاک افغان تعلقات پر چاہیے۔ اس خطے کی بدلتی ہوئی صورت حال پر۔ کل شب ایوانِ صدر کے استقبالیے میں ناچیز شریک تھا‘ صدر پاکستان نے جو افغان صدر اشرف غنی کے اعزاز میں برپا کیا تھا۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف سے بھی مختصر سی گفتگو ہوئی‘ افغانستان کا جنہوں نے حال ہی میں دورہ کیا ہے اور امریکہ روانہ ہونے والے ہیں۔ اس کا ذکر جلد ہی۔ مختصراً یہ کہ افغانستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں غیر معمولی بہتری آئی ہے۔ چین‘ پاکستان اور افغانستان میں ایک تزویراتی تعاون کے امکانات ابھر رہے ہیں۔ اگر متشکل ہو سکے تو اس اذیت ناک خونیں دور کا خاتمہ ممکن ہے‘ 1980ء سے ہم‘ جس سے دوچار چلے آتے ہیں۔ آج مگر ایک چونکا دینے والے تجربے کی روداد‘ اللہ کی رحمت سے جو طلوع ہوا اور برسوں کا ادبار تمام۔ 
چند دن ہوتے ہیں‘ صبح سویرے ایک دوست نے حال پوچھا تو دل گرفتگی کے ساتھ عرض کیا: صحت کی عمارت ڈھے گئی ہے اور استوار ہوتی نظر نہیں آتی۔ ایک تازہ ترین مطالعے (Study) کا انہوں نے حوالہ دیا اور ایک تجربہ کرنے کا مشورہ۔ 
دو ماہ قبل پتے کا آپریشن ہوا۔ مسیحا نفس کرنل کامران نے اس مہارت کے ساتھ رفوگری کی کہ تیسرے دن ہی ہسپتال میں‘ واک کرنے لگا۔ دوائیں اگرچہ پابندی سے کھاتا رہا‘ پرہیز پر بھی ڈٹا رہا۔ غلطی مگر یہ سرزد ہوئی کہ پوری طرح آرام نہ کر سکا۔ ریل سے رحیم یار خاں‘ پھر ملتان‘ اس کے بعد دو بار لاہور کا سفر درپیش ہوا۔ سرکارؐ کا ارشاد یہ ہے ''سفر عذاب کا ایک ٹکڑا ہے‘ جس قدر جلد ممکن ہو‘ گھر لوٹ آیا کرو‘‘۔ اسی کو ملحوظ نہ رکھ سکا کہ پیمان تھے اور انہیں پورا کرنا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ صحت بگڑتی گئی۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ پورے دن میں کالم نمٹانے کے سوا‘ کچھ بھی کر نہ پاتا۔ مایوسی اور ناامیدی نے گھیر لیا اور گھیرے رکھا۔ 
اس ملگجی سویر‘ اس عزیز دوست نے مغرب میں ہونے والے ایک تجربے کا حوالہ دیا‘ معمر افراد کے تین گروپوں پر جو کیا گیا۔ ان میں سے دو کو بہترین خوراک دی گئی‘ ٹانک اور وٹامن کھلائے گئے اور آرام کا پورا خیال رکھا گیا۔ تیسرے گروپ کو 45 منٹ کی تیز واک کا مشورہ دیا گیا اور اس پر عمل کرایا گیا۔ تو اس رفیق نے یہ کہا: صحت کی خرابی نہیں‘ تم بے دلی کا شکار ہو۔ وہ جو تیسرا گروپ تھا‘ اس کے شرکاء بے پناہ سرعت سے صحت یاب ہوئے۔ کہا کہ دو بنیادی نکات ہیں۔ رات کو جلد اگر سویا جائے تو ایک خاص کیمیائی مادہ 
بدن میں پھوٹتا ہے اور اس طرح صفائی کا عمل انجام دیتا ہے کہ جس طرح صابن سے کپڑا دھو ڈالا جائے۔ انسانی دماغ میں بھی‘ سیکھنے اور یاد رکھنے کی صلاحیت بڑھا دیتا ہے۔ اس نے وعدہ لیا کہ آج ہی سے میں اس کا آغاز کر دوں گا۔ نیند آئے یا نہ آئے‘ شب گیارہ بجے بتی بجھا کر بستر پر لیٹ جائوں گا۔ رات گئے یا صبح سویرے‘ پوری قوت اور رفتار سے 45 منٹ پیدل چلتا رہوں گا۔ 
شب گیارہ بجے گوجر خان سے لوٹ کر آیا تو میڈیا ٹائون کی گلیوں میں ٹھنڈی ہوا بہہ رہی تھی۔ نواب زادہ نصراللہ خان یاد آئے‘ سرما کی شاموں میں گاہے جو ایک شعر پڑھا کرتے ؎ 
شام کو ٹھنڈی ہوا ان کے لیے چلتی ہے 
جن کے محبوب بہت دور کہیں رہتے ہیں 
جسم نے انکار کرنا چاہا۔ پیمان مگر کھینچ کر لے گیا۔ سوچا: زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ تکان سے نڈھال ہو جائوں گا۔ یہ کون سی ایسی بڑی بات ہے۔ ہزار دن زندگی میں ایسے گزرے ہیں۔ ساری قوت مجتمع کر کے میں تقریباً بھاگ کھڑا ہوا۔ سرما کا احساس جاتا رہا اور ٹھنڈ سے بے قرار بدن کو قرار آنے لگا۔ بشاشت کی ایک لہر اٹھی اور بڑھتی گئی۔ آدھا سفر طے کر چکا تھا کہ سرکارؐ کا ایک فرمان یاد آیا۔ اصحابؓ کے ایک گروپ نے گزارش کی کہ کاہلی سوار ہو جاتی ہے۔ فرمایا: تم پر لازم ہے کہ کچھ دیر تیز تیز چلا کرو (مفہوم)۔ اس خیال نے ایک عجیب رونق خطاکار کی طبیعت میں پیدا کر دی۔ گھر پہنچا تو گرم پانی کی ٹونٹی کھولی اور دیر تک اس کے نیچے کھڑا رہا۔ یاللعجب۔ صحت مندی اور اس کے نتیجے میں امید کی ایک ایسی کیفیت پیدا ہوئی کہ ششدر رہ گیا۔ لاہور کے باغ جناح اور ریس کورس گارڈن میں‘ مہینوں پابندی کے ساتھ واک کرنے کا تجربہ کیا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہ ہوا تھا۔ شاید اس لیے کہ کبھی رفتار کچھ زیادہ تیز نہ رہی۔ سوچا: خوش گمان نہ ہونا چاہیے۔ ایک وقتی کیفیت بھی ہو سکتی ہے۔ پھر ایک اور تجربہ یاد آیا۔ 
ستمبر 1995ء میں پہلی بار حجاز مقدس جانے کا موقعہ ملا اور دس سال تک مسلسل جاتا رہا۔ قُربِ قیامت کی نشانیوں کے باب میں دیکھا۔ کتابوں میں یہ پڑھا تھا کہ قیامت سے قبل عرب سرسبز ہو جائے گا۔ مکہ کے پہاڑ اکھاڑ دیئے جائیں گے اور ننگے پائوں والے عالیشان عمارتیں بنائیں گے۔ پہلی دو نشانیوں کو بچشمِ سر پورا ہوتے دیکھا۔ چھوٹے سے شہر میں گھوم پھر کے دیکھا۔ 1995ء میں مکہ مکرمہ میں منی پلانٹ کی صرف ایک بیل نظر آئی تھی۔ 2008ء میں منیٰ کی بلندیوں سے نیچے اترا تو یوں لگا کہ لاہور کے گلبرگ میں چلا آیا ہوں۔ ایک دن شاہراہ خالد بن ولید سے گزرتے ہوئے‘ مزدوروں کو دیکھا کہ ایک بہت ہی گہرے اور چوڑے گڑھے میں پہاڑی کی باقیات ڈھونڈ رہے ہیں‘ دہرا تہہ خانہ تعمیر کرنے کے لیے۔ پھر ایک جمعہ کی دوپہر‘ ایک جاننے والے نے بتایا: صحرا سے میرا مالک مکان کرایہ وصول کرنے آیا تو اس کے پائوں ننگے تھے۔ سچ کہا‘ بخدا اللہ کے آخری رسولؐ ہی نے ہمیشہ سچ کہا۔ کتنے پیمبر ہو گزرے اور ان سب پر سلام ہو مگر سرکارؐ کی بات ہی دوسری ہے۔ حیات کا کوئی گوشہ نہیں‘ جو اپنی تعلیمات سے جگمگا نہ دیا ہو۔ حیف کہ ہم خرافات میں کھو گئے۔ سائنسی اور علمی نقطۂ نظر سے گریز۔ توہمات اور تقلید کی آبیاری۔ 
جس مرض کا علاج کسی معالج کے پاس نہ تھا‘ سرکارؐ کے ایک ارشاد سے ہوا۔ شکر واجب ہے اور پیہم واجب۔ الحمدللہ اضمحلال اور ماندگی کا دور دور تک کوئی گزر نہیں۔ دیر تک آخر شب کی خنک ہوا میں پیدل چلتا رہتا ہوں اور افتخار عارف کو یاد کرتا ہوں‘ جو ایک لہک اور للک کے ساتھ یہ مصرعہ اکثر پڑھا کرتے ع 
آن خنک سیرے کہ اینجا دلبر است 
صحت مندی لوٹ آئی ہے اور ایسی کہ عشروں میں نہ تھی۔ اس خیال نے البتہ ملال میں مبتلا کیے رکھا کہ علم کا فروغ اب کسی اور دیار سے ہے‘ ایمان والوں نے ظلمت اور ہیجان کو شعار کیا۔ 
ایک صدی ہوتی ہے‘ لاطینی امریکہ کے ایک ملک کے بارے میں ایک سیاح نے لکھا: "A beggar sitting on the golden bench" سونے کے بنچ پر بیٹھا ہوا بھکاری۔ ہمارا حال بھی وہی ہے‘ بخدا وہی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved