تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     16-11-2014

روٹی تو کسی طور

ایک بڑے خلیجی ملک میں انیس لاکھ پاکستانی کام کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثریت مزدوروں کی ہے۔ یہ لوگ اپنی فیملی سے دور گلف میں محنت مزدور ی کرتے ہیں۔ صرف ہنر مند اور اچھی تنخواہ لینے والوں کو وہاں بیوی بچے لے جانے کی اجازت ہے۔ ہزار کماتے ہیں تو آٹھ سو پاکستان اپنی فیملی کو بھیج دیتے ہیں۔انہی محنت کشوں کی وجہ سے ایسے ممالک سے ہر سال اربوں ڈالر پاکستان پہنچ کر ہماری معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔ یہ پاکستان کے خاموش ہیرو ہیں۔انہی کی وجہ سے گلف جانے والی پی آئی اے کی پروازیں منافع دیتی ہیں۔ 13ستمبر کو میں بذریعہ پی آئی اے اسلام آباد سے کانفرنس میں شرکت کے لیے ایک خلیجی ملک میں گیا۔ بزنس کلاس کی نشستیں بہت کشادہ تھیں ۔ ایئر ہوسٹس کے چہرے پر معمول سے زیادہ مسکراہٹ تھی۔ سارا عملہ مستعد تھا۔ بزنس کلاس کی آدھی نشستیں خالی تھیں۔ہاتھ منہ صاف کرنے کے لیے ایئر ہوسٹس نے گرم تولیہ پیش کیا اور کہنے لگی‘ آپ کے ساتھ کی سیٹ خالی ہے۔ اکانومی کلاس کے مسافر زیادہ ہو گئے ہیں‘ ہمیں اکانومی کلاس کے ایک مسافر کو آپ کے برابر والی سیٹ پر بٹھانا ہو گا۔ چنانچہ شلوار قمیص میں ملبوس ایک شخص میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ بڑھی ہوئی شیو اور قدرے میلے کپڑے۔ یہ لوگ پاکستانی لباس بڑے فخر سے پہنتے ہیں۔یہ یزمان منڈی کا محمد اختر تھا۔ چوتھی کلاس سے آگے نہیں پڑھا‘ پھر والد کے ساتھ کاشتکاری کرنے لگا۔ زمین پوری فیملی کے پاس ایک ایکڑ ہے لہٰذا مزدوری کے لیے باہر چلا گیا۔ کوئی خاص ہنر بھی نہیں ہے اس کے پاس۔ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں ہیلپر کا کام کرتا ہے۔
بزنس کلاس کی کشادہ سیٹ پر اختر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا۔ کہنے لگا: یزمان منڈی سے بذریعہ بس ملتان آیا۔ وہاں سے پی آئی اے کی فلائٹ سے اسلام آباد آیا اور ساری رات ٹرانزٹ لائونج کی کرسی پر گزاری۔ ویسے یہ کرسی بڑی آرام دہ ہے اور میں کل سے حالت سفر میں ہوں‘ اسی لیے میں چوکڑی مار کربیٹھ گیا‘ آپ برا نہ منائیں۔ جیسے ہی جہاز اڑے گا میں سو جائوں گا۔ تھوڑی دیر میں محمد اختر خراٹے لے رہا تھا ۔
ایئر ہوسٹس لنچ لے کر آئی تو اس نے اختر کو گہری نیند سے اٹھایا۔ میں نے پوچھا کہ ہیلپر کا کیا کام ہوتا ہے‘ پتہ چلا کہ ہیلپر وہ بے ہنر انسان ہوتا ہے جو مختلف اشیاء اٹھا کر انہیں حکم کے مطابق رکھ دیتا ہے۔ اختر دو سال کے بعد ایک ماہ کی چھٹی پر پاکستان آیا تھا۔ ایئر ٹکٹ کمپنی نے دیا تھا۔ میں نے کہا‘ تمہاری تنخواہ کتنی ہے۔ بظاہر تو یہ ذاتی سا سوال ہے لیکن میرے ذہن میں تھا کہ محمد اختر کا ذکر کسی کالم میں ضرور کروں گا کہ ایسے ہزاروں بلکہ لاکھوں پاکستانی گلف میں مزدوری کر رہے ہیں۔ اس نے تنخواہ بتائی تو میں نے پوچھا تو کیا رہائش اور کھانے کا انتظام تمہاری کمپنی کرتی ہے۔ جواب ملا کہ کمپنی نے پانچ پاکستانیوں کو ایک کمرہ دیا ہوا ہے۔ کھانا ہم خود پکاتے ہیں۔ ''تم ہر مہینے اپنی فیملی کو کتنے پیسے پاکستان بھیجتے ہو؟‘‘۔ جواب ملا دو سو ڈالر۔ میں حیران تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کیونکہ اس کی کل تنخواہ تو 235ڈالر بنتی ہے۔ پتہ چلا کہ اختر روزانہ تقریباً تین گھنٹے اوور ٹائم بھی لگاتا ہے۔ ہفتے میں چھ دن کام کرتا ہے اور ٹوٹل ورکنگ آورز ہفتہ میں تقریباً ستر کے قریب بنتے ہیں۔ ایک دن چھٹی ہوتی ہے جب وہ کپڑے دھوتا ہے اور آئندہ دنوں کے لیے دوستوں کے ساتھ مل کر کھانا پکا کے ریفریجریٹر میں رکھ دیتا ہے۔ اندازہ لگائیے کہ کتنے سخت ہیں اختر اور اس کے ساتھی مزدوروں کے اوقات ۔ لیکن وہ پھر بھی صابر ہیں‘ دن رات محنت کرتے ہیں۔ غریب الوطنی برداشت کرتے ہیں ۔ بیوی بچوں کا پیٹ بھی تو پالنا ہے۔
امیگریشن کی کارروائی کے بعد ہم پروٹوکول کے نمائندے کے ساتھ انٹرکانٹیننٹل پہنچے۔ ہوٹل کے بیل بوائے محمد یونس نے گاڑی سے سامان نکالا اور استقبالیہ پر لے گیا۔ روٹین کی کارروائی کے بعد ہم کمرے کی طرف روانہ ہوئے۔ یونس نے ہوٹل کی سمارٹ وردی پہنی ہوئی تھی اور انگریزی زبان سے واقف تھا۔ استفسار کرنے پر پتہ چلا کہ ایف اے پاس ہے اور دس برسوں سے اسی ہوٹل میں بیل بوائے کا کام کر رہا ہے۔ میں نے یونس سے بھی وہی ذاتی والا سوال پوچھ ہی لیا کہ تمہاری تنخواہ کیا ہے‘ جواب ملا ... بارہ سو۔ مجھے بنگلہ زبان کے دوچار جملے آتے ہیں‘ وہ یونس کے ساتھ بولے تو گویا ہماری دوستی ہو گئی۔ یونس کی عمر کوئی 35سال ہو گی یعنی اس کی پیدائش 1971ء کے بعد کی ہے ۔ یونس کی رہائش ہوٹل کے سٹاف کوارٹرز میں ہے جہاں وہ ایک اور بنگلہ دیشی کے ساتھ کمرہ شیئر کر رہا ہے۔ تینوں وقت کا کھانا ہوٹل دیتا ہے۔ تم ہر ماہ بنگلہ دیش کتنے پیسے بھیجتے ہو‘ میں نے پوچھا ۔ سر کوشش کرتا ہوں کہ کم از کم تین سو ڈالر بھیج دوں۔ میرے لیے یہ بات حیران کن تھی کیونکہ یونس کی ٹوٹل تنخواہ ہی تین سو ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ تو تم اپنے خرچ کے لیے ایک ڈالر بھی نہیں رکھتے؟ میں نے پوچھا۔ سر مجھے اچھی خاصی ٹپ مل جاتی ہے۔ الحمدللہ میرا گزارہ ہو جاتا ہے ۔
کانفرنس ختم ہوئی تو ایئر پورٹ روانہ ہوئے‘ کار کا ڈرائیور بسام نوجوان ہے اور بی اے پاس ہے۔ وہ رینٹ اے کار کمپنی کا ملازم ہے۔ انگریزی اور عربی روانی سے بولتا ہے۔ ہفتہ میں چھ دن کام کرتا ہے ۔ وہ پانچ سو ڈالر ماہانہ تنخواہ لیتا ہے اور اپنے والدین کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ بسام کا کہنا تھا کہ وہ ایک دو سال اور نوکری کر کے ایم بی اے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ عربوں میں شادی جلد کرنے کا رواج ہے ۔ میں نے بسام سے پوچھا کہ تمہاری شادی ہو چکی ہے۔ جواب ملا کہ رشتے آ رہے ہیں۔میں سوڈان جا کر فائنل فیصلہ خود کروں گا۔
میں محو پرواز تھا تو میرے ذہن میں تینوں کردار گھومنے لگے۔محمد اختر تقریباً ان پڑھ اوربے ہنر ہے۔ اس کی تنخواہ بھی کم ہے اور خود اعتمادی کی بھی کمی ہے۔ محمد یونس کچھ پڑھا لکھا ہے۔ فائیو سٹار ہوٹل میں جاب نے اسے یس سر بار بار کہنا سکھا دیا ہے۔ وہ جتنے سال مزید اس ملک میں رہا بیل بوائے یا اس سے ملتا جلتا کام ہی کرے گا۔ بسام الاحمد تینوں میں سے واحد شخص ہے جو روشن مستقبل کے خواب دیکھ رہا ہے۔اپنے کام اور تنخواہ سے خوش ہے اور یہی خوشدلی اس کی باتوں میں جھلکتی ہے ۔
آپ کو شاید یقین نہ آئے لیکن خلیجی ممالک میں ان کے اپنے لوگ بھی بے روزگار ہیں لہٰذا وہاں کی تمام حکومتوں کی پالیسی ہے کہ اپنے لوگوں کو ترجیحی بنیادوں پر جاب دیے جائیں۔ اب وہاں فارنرز کے پاس یا تو ہیلپر‘ بیل بوائے اور ڈرائیور والے جاب ہیں جو مقامی نوجوان کرنا نہیں چاہتے یا ٹاپ کے پرائیویٹ سیکٹر کے جاب مثلاً سپیشلسٹ ڈاکٹر‘ اعلیٰ انجینئر اورتجربہ کار چارٹرڈ اکائونٹنٹ ۔ اس لیول تک مقامی نوجوان پہنچے تو ہیں مگر کم۔ پچھلے دو تین عشروں میں پاکستانی لیبر کو بنگلہ دیش‘ انڈیا‘ سری لنکا اورفلپائن کے مزدوروں کی جانب سے سخت مقابلے کا سامنا ہے‘ وہ لوگ کم تنخواہ پر کام کر لیتے ہیں اور ہمارے مزدوروں کے مقابلے میں زیادہ تابعدار ہیں اور بہتر ڈسپلن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
1990ء کا واقعہ یاد آ گیا۔ میں ایک عرب ملک میں پاکستانی سفارت خانہ میں تھا۔ ایک روز کسی میٹنگ میں آرامکو میں کام کرنے والے ایک امریکن سے ملاقات ہوئی جو ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کا ہیڈ تھا۔ انہی دنوں آرامکو نے پاکستان سے ریکروٹمنٹ کم کر کے فلپائن سے لوگ منگوانے شروع کر دیئے تھے ۔ میں نے ہیومن ریسورس والے امریکن سے پوچھا کہ آرامکو کی پالیسی تبدیل کیوں ہوئی؟ کہنے لگا‘ فرینک جواب دوں؟ میں نے کہا ضرور۔ پتہ چلا کہ پاکستانی مزدور سوال جواب بہت کرتے ہیں جبکہ فلپائن والے یس سر کرتے ہوئے فوراً کام شروع کر دیتے ہیں ۔ اگر سپروائزر پاکستانی لیبر سے سخت لہجے میں بات کرے تو وہ ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہیں‘ جبکہ فلپائن والے ایسا نہیں کرتے۔
میں نے یہ قصہ سنا کر محمد اختر سے پوچھا کہ کیا اب بھی پاکستانی مزدور اتنے ہی غیرت مند ہیں۔ کہنے لگا سرجی جیسے جیسے پاکستان میں روزگار کے مواقع کم ہو رہے ہیں ہماری غیرت کم ہو رہی ہے۔ اب ہم بھی کفیل کی ہر بات مانتے ہیں۔ اختر کم پڑھا لکھا ضرور ہے مگر کتنے پتے کی بات کی اس نے ۔ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ پیٹ خالی ہو تو غیرت کا فور ہو جاتی ہے۔ بچپن میں پڑھی ہوئی نظم کا گریز کا مصرع یاد آ گیا ع
روٹی تو کسی طور کما کھائے مچھندر

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved