تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-11-2014

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

ملک تیزی سے روشنیوں کی 
طرف بڑھ رہا ہے... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ملک تیزی سے روشنیوں کی طرف بڑھ رہا ہے‘‘ اور حکمران ہی روشنیوں کے وہ مینار ہیں اور ملک انہی کی طرف بڑھ رہا ہے‘ اس لیے روشنی یعنی بجلی وغیرہ کے بارے کسی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اگر ایک ہی گھر سے اتنی روشنی نکل رہی ہے تو پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نے معیشت کی سمت درست کردی‘‘ البتہ ملک کی سمت درست کرنے میں ابھی کافی وقت لگے گا کیونکہ روزِ اول کی بگڑی ہوئی چیز دنوں میں درست یا تبدیل نہیں کی جا سکتی۔ انہوں نے کہا کہ ''مشکل فیصلوں کے مثبت نتائج سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں‘‘ جبکہ سب سے مشکل فیصلہ دہشت گردوں کے خلاف آپریشن شروع کرنے کا تھا لیکن وہ بھی فوج نے وقت سے کچھ پہلے ہی شروع کردیا ورنہ ہم تو مذاکرات کو ابھی مزید جاری رکھ کر مثبت نتائج نکالنا چاہتے تھے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز لندن میں برطانوی وزیر خارجہ سے ملاقات کر رہے تھے۔ 
خیبر پختونخوا حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گئی ہے... بلاول بھٹو زرداری 
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ ''خیبر پختونخوا کی حکومت شہریوں کو تحفظ دینے میں ناکام ہو گئی ہے‘‘ جبکہ سندھ حکومت کے ماتحت شہری دن رات امن و امان سے لطف اندوز ہونے میں مصروف ہیں‘ البتہ ہر روز جو دس بیس لاشیں گرتی ہیں اس کا ایک فائدہ یہ ہے کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر کنٹرول کی ایک صورت پیدا ہو رہی ہے اور اگر ٹارگٹ کلرز اتنا تردد نہ کرتے تو کراچی میں اب تک آبادی بم پھٹ چکا ہوتا‘ اور یہ جو خیرپور اور دیگر شہروں میں لوگ شام کے بعد گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے تو اس لیے کہ انہیں اپنے بیوی بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی نے اپنے دور میں سوات میں آپریشن کر کے دہشت گردوں کو بھگا دیا تھا‘‘ اگرچہ جملہ عمائدین دوسرے کام میں اس قدر مصروف تھے کہ ایسی چھچھوری چیزوں کے لیے وقت نکالنا ان کے لیے ممکن ہی نہ تھا کہ عوام کی خدمت ہی اس قدر زور و شور سے کی جا رہی تھی کہ وزیراعظم سمیت کسی کو سر کھجانے کی فرصت ہی نہیں تھی۔ آپ اگلے روز حسبِ معمول ٹویٹر پر اپنا پیغام نشر کر رہے تھے۔ 
اگلے دو سال تک ملک میں انتخابات
نہیں ہوں گے... یوسف رضا گیلانی 
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ ''اگلے دو سال تک ملک میں الیکشن نہیں ہوں گے‘‘ اور ہونا بھی نہیں چاہئیں کیونکہ جب تک میری نااہلی برقرار ہے‘ اس وقت تک الیکشن کرانا ویسے بھی نامناسب ہے کیونکہ جو کام میں نے کرنا تھے‘ میرے علاوہ بھرپور طریقے سے اور کوئی کر ہی نہیں سکتا اور لوگ میری کمی کو بُری طرح محسوس کریں گے‘ لہٰذا عوامی اور ملکی مفاد میں ہے کہ میری نااہلی ختم ہونے تک الیکشن نہ کروائے جائیں اور اس طرح عوام کی امنگوں پر پانی نہ پھیرا جائے جبکہ یہ پانی کا بھی نہایت غلط استعمال ہوگا بلکہ یہی پانی تھرپارکر میں پیاس سے مرنے والوں کے کام آنا چاہیے کیونکہ بھوک‘ پیاس سے لوگوں کی زندگیاں بچانا بھی عین کارِ ثواب ہے جبکہ ثواب کمانے کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اور ایسے لگتا ہے کہ اس سلسلے میں بھی مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا‘ اگرچہ میں اپنے حصے اور ضرورت سے زیادہ ثواب ماشاء اللہ پہلے ہی کما چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''انتخابات وقت پر ہی ہوں گے‘‘ اور جس کے متعلق میں نے پوری وضاحت سے بتا دیا ہے اس لیے اس بارے خواہ مخواہ اندازے لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ اگلے روز کراچی میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
دانشمندی 
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات کا یہ بیان کہ 30 نومبر کو اسلام آباد میں کسی کو تماشا لگانے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ ایک دانشمندی کا اشارہ ہے جس کی توقع حکومت سے کم ہی کی جاتی ہے۔ شیخ رشید احمد کی تقریر انتہائی غیر ذمہ دارانہ تھی اور حکومت ان کے خلاف کارروائی بھی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ایسی باتوں سے عمران خان کی کوئی خدمت نہیں کی جا رہی بلکہ اس کے لیے مشکلات پیدا کرنے کا سامان کیا جا رہا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر حکومت پہلے ہی اس عقلمندی کا مظاہرہ کرتی اور ان احتجاجیوں کو اسلام آباد پہنچنے ہی سے روک دیا جاتا اور یہ نوبت ہی نہ آتی۔ کسی طرح کا دنگا فساد خود عمران خان کے لیے ا نتہائی نقصان رساں ثابت ہو سکتا ہے اور مخالفین کا یہ دعویٰ درست ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ چند لاشیں گرا کر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ البتہ عمران خان جلسوں کے ذریعے اپنی دھوم مچاتے رہیں جس سے وہ اپنے مقصد میں اگر فوری کامیاب نہ بھی ہوں تو ایک دوررس فائدہ ضرور اٹھا سکتے ہیں‘ اس لیے بہتر ہے کہ وہ ایک فسادی کہلانے کی بجائے ایک بالغ سیاستدان بننے کی کوشش کریں۔ 
افغان پالیسی 
پچھلے دنوں جو چند اچھی خبریں آئی ہیں‘ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایک طویل بدمزگی کے بعد افغانستان کے ساتھ معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں۔ کرزئی صاحب یہ الزام برملا لگایا کرتے تھے کہ بعض ادارے افغانستان کے ساتھ تعلقات میں حائل ہیں۔ اگر یہ درست بھی ہو تو یہ ایک قصۂ ماضی ہے اور اب آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خود افغانستان جا کر اور وہاں کے عمائدین سے ملاقات کر کے ایک نہایت مثبت قدم اٹھایا ہے جس سے سابقہ گرد صاف کرنے میں مدد ملے گی جبکہ اس سے پہلے جناب سرتاج عزیز وہاں جا کر سابقہ غلط فہمیاں رفع کرنے کا کام کر چکے ہیں اور اب افغان صدر کے دورۂ پاکستان سے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مزید موقعہ ملے گا جبکہ اس سے خطے میں ایک یگانگت کی فضا پیدا ہوگی اور ایک دوسرے کے معاملات میں بے جا مداخلت کی بجائے ایک ٹھوس ہم آہنگی کے ظہور کے علاوہ خود افغانستان کے اندر بھی دہشت گردوں کی حوصلہ شکنی ہوگی۔ وزیراعظم کی چائنا پالیسی کے بعد یہ ایک اور زبردست پیش رفت ہے جس کی دونوں ملکوں کو اشد ضرورت بھی تھی۔ 
آج کا مطلع 
مل کے بیٹھے نہیں، خوابوں میں شراکت نہیں کی 
اور کیا رشتہ ہو تجھ سے جو محبت نہیں کی 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved