انیس اشفاق کہانی کار تو ہیں ہی‘ لیکن ان کی اصل شناخت ایک جدید نقاد کی ہے (اگر جدید شاعری اور جدید شاعر ہو سکتے ہیں تو جدید نقاد کیوں نہیں)۔ زیر نظر مجموعہ ان کی اسی موضوع پر کتاب کا دوسرا حصہ ہے جس میں انہوں نے غالبؔ کے علامتی نظام پر گفتگو کی تھی۔ اسے اترپردیش اردو اکادمی نے چھاپا ہے اور اس کی قیمت 122 روپے رکھی گئی ہے۔ انتساب شہریار اور افتخار عارف کے نام ہے۔ مقدمہ مصنف نے خود لکھا ہے جبکہ پرانی علامتوں کے نئے مفاہیم کے عنوان سے انہوں نے فیض احمد فیض‘ ناصر کاظمی‘ احمد مشتاق‘ منیر نیازی‘ اس خاکسار‘ شہریار‘ بانی اور زیب غوری کی علامتی صورت حال سے بحث کی ہے۔ کتاب کے بے حد مفید ہونے میں کوئی شک نہیں کہ اس سے مذکورہ شعراء کے کلام کو ایک دوسرے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے اور جس سے مصنف کی ژرف نگاہی اور عرق ریزی صاف عیاں ہے۔
شہر میں لفظ کا علامت بننا ،اس کے اپنے سیاق و سباق پر منحصر ہے اور میرے خیال میں لفظ کو ارادی طور پر یا کسی منصوبہ بندی کے تحت علامت نہیں بنایا جاتا جبکہ شاعر کی طرف سے ایک پورا علامتی نظام وضع کرنا بھی ایک غیر معمولی بات ہے کیونکہ شعر تو ایک خودرو پودا ہے‘ اسے نہ کاشت کرنا پڑتا اورنہ اس کی شاخ تراشی کرنا سود مند ہے کہ اس سے یہ غیرفطری اور بناوٹی ہو جائے گا۔ شعر کے گھوڑے کی تو باگیں کھلی چھوڑ دینا پڑتی ہیں۔ مثلاً میں نے لفظ کو علامت بنانے کا کبھی اہتمام نہیں کیا کیونکہ اگر اسے محض علامت بنا کر رکھ دیا جائے تو اس کی باقی خوبصورتیاں ماند پڑ سکتی ہیں۔
شاعری پر بات کرتے ہوئے نقاد کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا شعر بنا بھی ہے یا نہیں جبکہ یہ تکلف اکثر و بیشتر روا رکھا ہی نہیں جاتا‘ اساتذہ کے وقت میں تو عالم یہ تھا کہ مناسباتِ لفظی ہی کو شاعری قرار دے دیا جاتا تھا کہ ایک مصرعہ میں اگر پائوں کا ذکر آ جائے اور دوسرے میں ہاتھ کا تو شعر پوری داد و تحسین کا مستحق قرار پاتا تھا۔ اب شعر کا فیشن یکسر تبدیل ہو چکا ہے‘ حتیٰ کہ شعر کہنے اور اس کی تحسین کے طریقے سراسر بدل گئے ہیں اور محض کوئی اچھا یا نیا مضمون باندھ دینے سے بھی لازمی طور پر شعر نہیں بنتا‘ بے شک اس میں دیگر محاسن بھی بروئے کار لائے گئے ہوں۔ شعر تو وہ ہوتا ہے جسے پڑھتے یا سنتے ہی دل اور زبان سے واہ نکلے‘ اس میں ایک کرنٹ ہو‘ تازگی ہو اور شعر خوش مزہ بھی ہو۔
جہاں تک اساتذہ کرام کا تعلق ہے تو کسی نے آج تک اس بات پر غور نہیں کیا کہ میرؔ و مصحفیؔ سمیت جملہ استادانِ فن کے کلام کا 90 فیصد کے قریب بھرتی کے اشعار پر مشتمل ہے۔ غالبؔ نے چالاکی سے کام لیا اور جھاڑ جھنکاڑ پہلے ہی نکال باہر کردیا۔ اس کے بعد آنے والوں کی صورتِ حال بھی کچھ ان سے مختلف نہیں ہے اور فراق گورکھ پوری سے لے کر جون ایلیا اور شکیب جلالی تک یہی نقشہ چلا آتا ہے۔ ممکن ہے میرے ہاں بھرتی کے اشعار کا تناسب ان سب سے زیادہ ہو‘ لیکن کوئی شاعر خود اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا۔ شعر کو خشوع و خضوع کے ساتھ نہیں پڑھا جانا چاہیے۔ یہ تو ایک چیلنج کی صورت میں آپ کے سامنے آتا ہے‘ آپ کو مار گراتا ہے یا آپ اسے؛ چنانچہ اپنی اور دوسروں کی شاعری کو بھی دوست اور نیاز مند نہیں بلکہ دشمن کی آنکھ سے دیکھنا چاہیے۔
اس کتاب میں جن چار بھارتی شعراء پر بات کی گئی ہے وہ اپنے ملک میں جتنے بھی معتبر گردانے جاتے ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیں بھارت کی جمہوریت سے بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے تو اردو غزل کے ضمن میں انہیں ہماری غزل کے معاملات پر غور کرنے کی۔ اردو نظم میں وہ بجا طور پر ہم سے آگے ہیں۔ شہریارؔ کا مسئلہ یہ ہے کہ ان سے شعر بنتا ہی نہیں ہے اور کم و بیش ہر بار کوئی آنچ کی کسر رہ جاتی ہے۔ عرفان صدیقی جدید بہت کم اور روایتی بہت زیادہ ہیں۔ اقتدار جاوید کی رائے میں زیبؔ غوری اور بانی ؔ کی شاعری میں سے ظفراقبال کو نکال دیا جائے تو کچھ زیادہ باقی نہیں بچتا‘ واللہ واعلم بالصواب۔
ان میں سے کوئی بھی اپنا لہجہ یالحن بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکا جس سے ان کا شعر دوسروں سے الگ پہچانا جا سکے یا کسی نے ان کی پیروی کرنے کی کوشش کی ہو‘ جبکہ ہمارے ہاں فیضؔ‘ ناصرؔ کاظمی اور منیرؔ نیازی کی صورت حال مختلف ہے اور یہاں بھی ان کے علامتی نظام کی نسبت ان کی شاعری سب سے پہلے آتی ہے۔ اس کی ذمہ داری میں سب سے زیادہ حصہ وہاں کے نقاد حضرات کا بھی ہے جنہوں نے شاعری اور ناشاعری کا فرق سمجھنے کا کبھی تردد کیا، نہ شعراء کی اس سلسلے میں رہنمائی کرنے کی زحمت اٹھائی، حالانکہ ہماری نسبت تنقید بھارت میں زیادہ لکھی گئی ہے اور گوپی چند نارنگ‘ شمس الرحمن فاروقی‘ اسلوب انصاری‘ شمیم حنفی‘ وارث علوی‘ قاضی افضال حسین اور کئی دوسرے حضرات کے نام اس سلسلے میں لیے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں خود اردو زبان کسی شمار و قطار میں نہ ہو۔ نہ صرف اس زمانے میں متعدد اردو رسائل و اخبارات شائع ہوتے ہیں بلکہ اکثر رسائل کو سرکاری گرانٹ بھی دی جاتی ہے جس کا ہمارے ہاں کوئی رواج ہی نہیں ہے۔ اردو شاعروں‘ ادیبوں کو ایوارڈز دیئے جاتے ہیں اور ملک بھر میں بڑے زوروں کے مشاعرے برپا کیے جاتے ہیں اور معیاری کتابوں پر انعام بھی۔ سب سے پُرلطف بات یہ ہے کہ بے شک وہاں اردو کو ہندی کا نام دے دیا گیا ہے اور اس کا رسم الخط بھی زیادہ تر ہندی ہی ہے لیکن اردو فلمیں پورے بھارت میں ذوق و شوق سے دیکھی جاتی ہیں‘ ان علاقوں میں بھی جہاں دوسری زبانیں بولی جاتی ہیں؛ چنانچہ اردو کی ترویج اور اسے قائم رکھنے کا ایک بڑا ذریعہ وہاں کی فلم انڈسٹری بھی ہے جس نے اردو کو زندہ رکھا ہوا ہے۔
میں اپنے آپ کو شاعری پر کوئی اتھارٹی ہرگز نہیں سمجھتا‘ یہ صرف میرے احساسات اور تاثرات ہیں جنہیں میں بیان کرتا رہتا ہوں۔ ادب کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ میں خود آدھا ہندوستانی ہوں کیونکہ میں ہندوستان میں پیدا ہوا تھا جبکہ پاکستان اس کے کئی سال بعد معرض وجود میں آیا تھا بلکہ علامہ اقبال تو پورے ہندوستانی تھے ،کہ پیدا بھی وہیں ہوئے اور انتقال بھی وہیں ہوا۔ اس لیے بھی یہ میری قدرتی خواہش ہے کہ میں بھارت میں لکھی جانے والی غزل سے بھی زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہو سکوں۔ بہرحال ضروری نہیں ہے کہ میرے ان تاثرات سے اتفاق ہی کیا جائے۔ شیکسپیئر نے کہا تھا کہ اگر سبھی آپ سے متفق ہیں اور کوئی بھی اختلاف نہیں کرتا تو آپ ایک بے ایمان آدمی ہیں؛ تاہم میں اپنے آپ کو ایماندار ثابت کرنے کی بھی کوشش نہیں کر رہا، بلکہ جو کچھ میں لکھ گیا ہوں وہ اس کتاب کے بھی دائرہ کار میں شاید نہیں آتا جس کا تذکرہ میں نے شروع کیا تھا‘ اور ان اضافی اور فروعی باتوں کے لیے جناب انیس اشفاق سے باقاعدہ معذرت خواہ بھی ہوں!
آج کا مطلع
جرمِ دل کی سزا نہیں دیتا
کیوں کوئی فیصلہ نہیں دیتا