تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     17-11-2014

تھر کے لوگوں کا مقدمہ

تھر کی سرزمین پر غربت و افلاس کے ڈیرے تو ہمیشہ سے ہی رہے ہیں اور صابر و شاکر‘ تھر کے واسی جدید سہولیات کے اس دور میں بھی‘ اسی غربت‘ افلاس اور مسائل کے ساتھ نبھا کرتے آتے ہیں، مگر اب یہ غربت‘ حکمرانوں اور متعلقہ انتظامیہ کی ناقابل بیان بدانتظامی اور بے حسی کی بدولت ایک خوفناک قحط کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اب یہاں زندگی کو موت اور بیماری نے جکڑ رکھا ہے۔ بھوک کے ہاتھوں سسک سسک کر زندگی دم توڑ رہی ہے۔ بچے ہیں کہ قحط کی تصویریں ہیں‘ جنہیں دیکھ کر ہر اہل دل تڑپ اٹھتا ہے۔ بچوں کو تو پھول اور تتلی سے تشبیہ دی جاتی تھی مگر یہ تھر کے بچے کیسے ہیں! زرد چہرے‘ سوکھے مریل جسم‘ بنجر آنکھیں اوران آنکھوں میں حسرتوں کی داستانیں رقم ہیں۔ بھوک سے سسکتے ‘ بلکتے اور مرتے بچے اس ترقی کے منہ پر ایک طمانچہ ہیں جس کا تذکرہ سرکاری طور پر کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی نوید قوم کو سنائی جا رہی ہے اور دوسری طرف اسی ملک کے ایک حصے میں بدترین قحط نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ایک طرف سندھ کے ورثے کو محفوظ کرنے کے لیے کروڑوں روپے تقریبات پر خرچ ہوتے ہیں تو دوسری طرف تھر کے بدقسمت بھوکے لوگوں تک گندم کی بوریاں بھی بروقت نہیں پہنچائی جاتیں۔ کبھی خبر آتی ہے ،ناقص گندم کی بوریاں پہنچائی گئیں۔ کبھی خبر آتی ہے‘ گندم کی جگہ بوریوں میں مٹی بھری ہوئی تھی ۔کمال ہے! اس ملک میں ہی ایسا ممکن ہے کہ اس دور میں بھی ایسے ایسے سنگین مذاق عوام کے ساتھ روا رکھے جائیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہ
ہو۔سندھ انتظامیہ کے سربراہ سائیں قائم علی شاہ بھی اپنی گوناگوں مصروفیات سے وقت نکال کر قحط کی اس وادی کا دورہ ضرور کرتے ہیں اور وہاںجا کر اعلیٰ پائے کا تجزیہ پیش کر دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں :تھر میں بچے قحط سے نہیں، غربت سے مر رہے ہیں۔ اب اگر سائیں قائم علی شاہ کے پاس‘ ذرا سا وقت اور ہوتا تو وہ اپنے اس شاندار تجزیے پر مزید روشنی ڈالتے مگر ایسا ہو نہ سکا ‘ اور انہیں واپس عوام کی خدمت کے لیے کراچی جانا پڑا۔ ایسی ہی مصروفیات میں جکڑے ہوئے‘ سندھ حکومت کے افسران‘ ضلعی افسران‘ متعلقہ ادارے‘ تھر کے باسیوں تک بروقت گندم پہنچانے میں ناکام رہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ سے لے کر متعلقہ ضلعی افسران تک ‘ سب کے سب احساس ذمہ داری اور انسانیت سے عاری ہو چکے ہیں۔ تھر میں اس وقت جس قحط نے تباہی پھیلا رکھی ہے‘ اس کا آغاز اس برس موسم بہار میں ہی ہو گیا تھا۔ مارچ اپریل کے مہینے میں بھوک سے مرنے والوں کی خبریں میڈیا میں آنا شروع ہو گئی تھیں۔ غذائی قلت سے بیمار پڑنے والوں کو مٹھی کے ہسپتالوں سے دوائیں نہیں ملتی تھیں۔ اس وقت اگر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جاتے اور تھر کے باسیوں کو بھی انسان اور پاکستانی سمجھ کر ان کو غربت کے اس گرداب سے نکالنے کی سعی کی جاتی تو آج آٹھ نو مہینے کے بعد حالات اس قدر خوفناک رُخ اختیار نہ کرتے۔گزشتہ سات سالوں سے سندھ میں پیپلز پارٹی حکمران ہے
مگر تھر کی سنگین صورتحال سے خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے ‘ سرکار فرماتی ہے کہ حکومت کا اس میں کوئی قصور نہیں‘ تھر کا قحط قدرتی آفت ہے مگر یاد رہے کہ تھر میں قحط ‘ زلزلے اور آندھی طوفان کی طرح آنے والی اچانک قدرتی آفت کی طرح نہیں ہوتا بلکہ دھیرے دھیرے تھر کی سرزمین اپنے باسیوں پر تنگ ہونے لگتی ہے اگر ایک برس بارشیں نہ ہوں تو اگلے برس تک تھر میں قحط کی سی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور اگر یہی حالات مستقل رہیں تو تھر کی بنجر زمین سے سبزہ نہیں پھوٹتا۔ چارے کا بندوبست نہ ہو تو ڈھور ڈنگر مرنے لگتے ہیں۔ یہی ڈھور ڈنگر تھریوں کے لیے روزی روٹی کا سامان پید اکرتے ہیں۔ ان کا مرنا ہی اس بات کا اعلان ہے کہ تھر کی زمین‘ اپنے باسیوں پر تنگ ہونے لگی ہے۔ اب اس کے دامن میں بھوک ‘قحط‘اور موت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اس برس مارچ اپریل میں ایسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی تھی مگر سندھ حکومت ،لگتا ہے ،بھنگ پی کر سوتی رہی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ تھر کی پیاسی زمین کے لیے مصنوعی آبپاشی کا منصوبہ شروع ہوتا اورسندھ حکومت اپنے تمام تر وسائل کے ساتھ اس منصوبے پر کام کرتی۔ اگر ایسا ممکن نہیں تھا تو پھر تھر کے لوگوں کو مرنے کے لیے وہاں کیوں چھوڑ دیا گیا! حکومت سندھ خود ان بدحال بے وسیلہ لوگوں کی نقل مکانی کا سامان کرتی۔ اب بھی یہ لوگ خود ہی وہاں سے ہجرت کر رہے ہیں‘بھوکے پیاسے‘ بدحال لوگ ‘ مریل گدھوں پر اپنے گھروں کا سامان ‘ لادے پیدل نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ گدھوں خچروں پر لادا ہوا سامان دیکھ کر تھریوں کی مفلسی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ اس دور میں جب لوگ لائف سٹائل کے نام پر لاکھوں اپنی ضروریات پر خرچ کر دیتے ہیں‘ ایک وقت کے کھانے پر‘ فائیو سٹار ہوٹلوں میں ہزاروں اڑا دیتے ہیں‘ تھر کے یہ باسی‘ روٹی کے چند نوالوں اور پانی کی بوند بوند کو ترستے ہیں ۔ سادہ روٹی ،صاف پانی ان کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی ہے اور یہ خوشی بھی حکمرانوں کی سفاکیت اور بے حسی کی نذر ہو چکی ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے اب تک ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 55ہو چکی ہے۔25ہزار افراد تھر سے نقل مکانی کر چکے ہیں اور حکومت اس حوالے سے ان کی کوئی مدد نہیں کر رہی۔ اس سلسلے میں انہیں حکومت کی طرف سے سواریاں فراہم کی جانی چاہیے تھیں ،بہتر جگہ پر ان کی آباد کاری کے لیے بھی حکومت کو انہیں وسائل اور مدد فراہم کرنی چاہیے تھی۔ بھارت نے صحرا ئے راجستھان کو سیراب کرنے کے لیے دریائے ستلج سے نہر نکالی اور اس کا نام اندرا گاندھی نہر رکھا ۔ صحرا میں بسنے والوں کی زندگیوں کو قائم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ان کے مویشی سلامت رہیں ،انہیں چارہ ملتا رہے۔ بھارت نے فوڈ اینڈ فوڈر کے نام سے ایک پراجیکٹ شروع کیا جو خالصتاً مویشیوں کے چارہ کی فراہمی کو یقینی بناتا ہے۔بھارت کو کرکٹ میں شکست دے کر ہم خود کو فاتح سمجھتے ہیں ،یہ بھی دیکھیں کہ اس نے ہمیں کس کس محاذ پر شکست دے رکھی ہے۔
اہل تھر کی مصیبتوں کا مداوا تبھی ہو سکتا ہے جب حکمران انہیں بھی جیتے جاگتے انسان سمجھیں۔ ایسے تو کوئی اپنے جانوروں کو بھی مرنے نہیں دیتا جیسے‘ انسان تھر میں مر رہے ہیں ۔ تھر میں بھوک سے مرتے ہوئے لوگ ایک ناقابلِ بیان انسانی المیہ ہے مگر میڈیا میں بھی اس کی بازگشت اس شدت سے سنائی نہیں دیتی۔ شاید اس لیے کہ تھر کے سخت جان صابر لوگ ‘ تعلیم ‘ شعور سے بے بہرہ‘ اپنے حقوق سے ناواقف ،ڈھور ڈنگر جیسے ہی بے زبان انسان ہیں۔ بھوک اور قحط کے اس عظیم المیے پر نہ تو وہ احتجاج کرنے اور دھرنا دینے کے ہنر سے واقف ہیں ‘ نہ ہی وہ جانتے ہیں کہ سول سوسائٹی کو اپنے حق میں کیسے متحرک کیا جائے، اور تو اور وہ کسی حکمران‘ کسی حکومت کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہراتے ‘ بس بھوک کے ہاتھوں چپ چاپ مر جاتے ہیں۔ مگر کل روز قیامت تو تھر کے لوگ‘ رب کے حضور‘ اپنی بے بسی اور حکمرانوں کی سفاکیت کا مقدمہ ضرور پیش کریں گے۔ حکمرانوں کو اس''کل‘‘ سے ڈرنا چاہیے!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved