تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     18-11-2014

تصادم

وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید نے گزشتہ روز یہ کہہ کر عوام کو چونکا دیا کہ عمران خان اور شیخ رشید نے 30نومبر کے لیے دہشت گرد گروپوں سے رابطے کرلیے ہیں۔ عمران خان اور شیخ رشید کن دہشت گردوں سے رابطے میں ہیں؟ وہی جن سے حکومت کے ایما پر پچھلے سال کے اواخر اور اس سال کے اوائل میں وفاقی وزیر عرفان صدیقی اور ایک سرکاری افسر فواد حسن فواد نے مذاکرات کیے یا کوئی دوسرا گروپ ؟ان دہشت گردوں سے خود پر حملہ کرایا جائے گا، اپنے جلسوں پر یا دیگر شخصیات اور عمارتوں پر؟ فی الحال کسی حکومتی ترجمان نے بتایا نہیں ۔ بہرحال الزام سنگین مگر دلچسپ ہے۔
ملک میں طویل عرصہ بعد پاکستانی سٹائل سیاست کا آغاز ہوا ہے ،ورنہ لوگ فرینڈلی اپوزیشن اور نورا کشتی سے تنگ آچکے تھے۔ پاکستان کی روایتی سیاست کیاتھی؟ لوٹ مار یا قومی خزانے پر نانا جی کی فاتحہ پڑھنا نہیں کہ اس کا آغاز 1980ء کے عشرے میں ہوا، 1990ء کے عشرے میں یہ کاروبار عروج پر پہنچا،پھر چل سو چل۔ پاکستانی سیاست کا طرۂ امتیازاحتجاجی جلسے جلوس تھے ، مخالفین کی کردار کشی، ایک دوسرے پر الزام تراشی، سچے جھوٹے مقدمات اور گرفتاریاں، ملک میں آخری حقیقی احتجاجی تحریک 1983ء میں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے چلی، اگرچہ 1977ء کی تحریک نظام مصطفیٰ ؐ کی طرح ملک گیر اور خونیں نہ تھی مگر اس نے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کے اقتدار کی چولیں ہلادیں۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
2013ء تک سول اور فوجی حکمرانوں کے دور میں حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں نورا کشتی ہوتی رہی۔ جلسے ،جلوس ، لانگ مارچ اور نظر بندیاں سب کچھ ہوا مگر افہام و تفہیم اور اندر خانے سمجھوتوں کے تحت۔ یہ تماشہ بھی اس ملک میں ہوا کہ 2002ء سے2007ء تک جنرل پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں ایم ایم اے حکومت اور اپوزیشن دونوں کے مزے لوٹتی رہی جبکہ2008ء سے 2013ء تک صدر آصف علی زرداری اور میاں نوازشریف مدمقابل تھے اور ایک دوسرے کے پشتی بان بھی ؎
صنوبر باغ میں آزاد بھی ہے پابہ گل بھی
میاں شہبازشریف صدر زرداری کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کا عزم ظاہر کرتے اور بڑے میاں صاحب وفاقی حکومت کو اپنی مدت پوری کرانے کی یقین دہانی کراتے۔ 2013ء میں ڈاکٹر طاہرالقادری نے دھرنا دیا تو میاں صاحب نے جاتی عمرا میں تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو مدعو کرکے اسی طرح اظہار یکجہتی کیا جس طرح اس سال پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیپلزپارٹی اور دوسری جماعتوں کی طرف سے ہوا۔ دونوں مواقع پر حکومت اور اپوزیشن کا معاملہ یہ رہا ہے ؎
من تو شدم تو من شدی
من جاں شدم تو تن شدی
تاکس نہ گوید بعد ازیں
من دیگرم تو دیگری
تینوں تاپ، چڑھے میں ہونگاں۔ججز بحالی تحریک میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ صحافیوں ، وکلاء اور سیاسی کارکنوں نے مار بھی کھائی مگر تحریک کی کامیابی کے بعد جو منظر دیکھنے کو ملا وہ سب کے لیے مایوس کن تھا۔
پاکستان سٹائل سیاست کیا تھی اور ایوب خان ، بھٹو ، ضیاء الحق ادوار میں سیاسی لیڈروں اور کارکنوں پر کس نوعیت کے مقدمات درج ہوتے تھے ،اس کا علم نوجوان نسل کو نہیں۔ لیڈروں کی موجودہ کھیپ بھی کم کم واقف ہے۔ جاوید ہاشمی، شیخ رشید اور پرویز رشید کو البتہ بخوبی علم ہے کہ محض واقفان حال نہیں بلکہ خود ان اذیتوں سے گزرے ہیں۔ پرویز مشرف دور میں پرویز رشید کے ساتھ اسی نوعیت کا تشدد ہوا جو ایوب ، بھٹو ، ضیاء دور کا خاصہ تھا۔
ایوب خان کے عشرہ ترقی میں ملک غلام مصطفی کھر کے خلاف ایف آئی آر کٹی کہ رکن قومی اسمبلی نے 35من کپاس چوری کی اور سر پر اٹھا کر لے گئے۔ اسی دور میں ذوالفقار علی بھٹو پر پانی چوری کا الزام لگا اور وہ گرفتار ہوئے۔ نواب آف کالا باغ گورنر پنجاب تھے تو عوامی شاعر حبیب جالب کو گرفتار کرلیاگیا۔ الزام لگا کہ حبیب جالب نے ایک غنڈے کو چاقو مار کر زخمی کردیا۔ 1990ء کے عشرے میں وزیراعظم نے سیلاب کی تباہ کاریوں میں گھرے عوام سے خطاب کرتے ہوئے جب یہ کہا کہ میں تمہارے لیے جان دے دوں گا تو حبیب جالب سے رہا نہ گیا اور یہ اشعار کہے ؎
نہ جاں دیدو، نہ دل دیدو
بس اپنی ایک مل دیدو
زیاں جو کرچکے ہو قوم کا
تم اس کا بل دیدو
سیاسی مخالفین کی جیب سے چاقو، پستول اور شراب کی بوتل برآمد کرلینا پولیس کے لیے معمول کی بات تھی اور حکمرانوں کے لیے محض شغل ۔ الطاف گوہر کے تھیلے سے بھی شراب کی بوتل برآمد ہوئی کیونکہ انہوں نے اداریہ لکھا تھا کہ پہاڑ رویا نہیں کرتے۔
عوامی دور حکومت میں سب سے بڑی برآمدگی پنجابی زبان کے درویش شاعر استاد دامن کی کٹیا سے ہوئی ۔یہ ٹینک میں استعمال ہونے والا گولہ تھا۔ پولیس نے استاد دامن کو گرفتار کرکے کشتی میں بٹھایا اور دریائے راوی کی سیر کراتی رہی۔ پولیس کا اصرار تھا کہ شاعر اپنی مشہور نظم ''وچو وچی کھائی جائو، اتوں رولا پائی جائو‘‘(اندر اندر سے کھاتے جائو اور اوپر سے شور مچاتے رہو) واپس لے اور حکومت سے معافی مانگے۔ استاد دامن تیار نہ ہوئے تو انہیں ڈبکیاں دی گئیں۔
یہ نظم آج کے حالات سے گہری مطابقت رکھتی ہے ؎
قوم دے غدارو! تے پکارو‘ تے ککاروہُن 
گئے ہوئے فرنگیاں نوں، مڑ کے ہن بلائی جائو
چاچا دے بھتیجے نوں، بھتیجا دیوے چاچے نوں
آپو وچ ونڈی جائو‘ تے آپو وچ کھائی جائو
مری دیاں چوٹیاں تے چھٹیاں گزار کے 
غریباں نوں کشمیر والی، سڑکو سڑکی پائی جائو
کھائی جائو‘ کھائی جائو بھیت کنے کھولنے ؟
وچو وچی کھائی جائو، اتوں رولا پائی جائو
ضیاء الحق کے دور میں صحافیوں پر کوڑے پڑے، سیاسی کارکنوں نے قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،سردار شیر باز مزاری کا ایک بار چاروں صوبوں میں داخلہ بند کردیاگیا جبکہ ایئرمارشل صاحب اور نوابزادہ صاحب گھروں پر نظر بند رہے۔
پارلیمنٹ ہائوس اور ٹی وی سٹیشن پر حملے کے الزام میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔ ایک مقدمے میں عمران خان اور طاہرالقادری کو اشتہاری بھی قرار دیا جاچکا ہے۔ مگر شاید حکومت کی تشفی نہیں ہوئی کیونکہ تحریک انصاف اور عمران خان نورا کشتی کا کلچر ترک کرکے موجودہ عوام دشمن نظام کی مخالفت پر اتر آئے ہیں اور ہرچہ بادابادکی پالیسی پر گامزن ہیں۔ حکمرانوں اور ان کے چیلوں چانٹوں نے عمران خان اور ان کے ممی ڈیڈی کارکنوں کو برف کے مجسمے سمجھا تھا جو اگست کی ایک دھوپ برداشت نہیں کر پائیں گے۔ میاں نوازشریف کے بارے میں اسی غلط فہمی کا شکار غلام اسحاق خان ہوئے اور شاید عمران خان اور طاہرالقادری بھی ،مگر دونوں اطراف کو بخوبی یہ احساس ہوچکا ہے کہ معاملہ اتنا سادہ اور سہل نہیں ۔حکومت گرانا آسان نہیں تو عمران خان کو بھگا نا بھی مشکل ہے ۔اس بنا پر روایتی پاکستانی سیاست کا احیا ہوا ہے۔ عمران خان مک مکا اور چھپ چھپا پر یقین نہیں رکھتے اور حکمران کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں۔ یوں روز بروز سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہورہا ہے اور بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے کی کردار کشی کی جارہی ہے۔
گزشتہ روز جہلم کے قریب پی ٹی آئی کے کارکنوں پر فائرنگ ہوئی جس کا الزام سابق رکن اسمبلی ندیم خادم پر لگا۔ ندیم خادم کا موقف ہے کہ فائرنگ کا آغاز پی ٹی آئی کارکنوں کی طرف سے ہوا۔ کچھ دوست گوجرانوالہ میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے مابین لڑائی جھگڑے کی توقع کررہے ہیں جہاں عمران خان خطاب کرنے جارہے ہیں۔ حکومت کو خدشہ ہے کہ 30نومبر کو عمران خان کے کارکن قانون کو ہاتھ میں لینے کی کوشش کرسکتے ہیں مگر عمران خان پر دہشت گردوں کے ساتھ رابطوں کا الزام ؟ اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا۔ دہشت گرداور خودکش کسی کے دعوت نامے اور رابطے کا انتظار کرتے ہیں نہ حملہ کرنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ ہدف کوئی حکمران ہے، اپوزیشن لیڈر یا مذہبی و سیاسی اجتماع ؎
دریا کو اپنی موج کی طغیانیوں سے کام
کشتی کسی کی پار ہو یا درمیاں رہے
اگر بالفرض عمران خان کو کوئی دہشت گرد اور خودکش بمبار مل بھی جائے تو اس کا مصرف کیا ہوگا ؟ قوم کو یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے۔ پہلے وارنٹ گرفتاری ، پھر اشتہاری اور اب دہشت گردی وخودکش بمباری۔ کنٹینر سے خودکش جیکٹ برآمد کرنا رہ گیاہے۔ کسی دن شاید یہ بھی ہوجائے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved