تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     18-11-2014

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

امریکہ میں اکثر تہوار‘ تقریبات‘ سرکاری اور آئینی معاملات حتیٰ کہ بعض مذہبی تقریبات تک‘ تاریخوں کے بجائے طے شدہ ایام کو منائی جاتی ہیں۔ کرسمس اور امریکی یوم آزادی کو چھوڑ کراکثر و بیشتر قومی معاملات کے لیے ایام طے ہیں۔ مثلاً امریکی صدر کا الیکشن ہر چار سال بعد نومبر کی پہلی سوموار کے بعد آنے والے منگل کو ہوگا۔ مارٹن لو تھر کنگ ڈے جنوری کی تیسری سوموار کو ہوگا۔ واشنگٹن کا یوم پیدائش فروری کی تیسری سوموار کو ہوگا۔ آربرڈے اپریل کے آخری جمعے کو ہوگا۔ میموریل ڈے مئی کے آخری سوموار کو ہوگا۔ لیبر ڈے ستمبر کے پہلے سوموار کو ہوگا۔ کولمبس ڈے اکتوبر کے پہلے سوموار کے بعد والے منگل کو ہوگا۔ سینٹ کا اور کانگرس کا الیکشن ہر دو سال بعد نومبر کی پہلی سوموار کے بعد والے منگل کو ہوگا۔ یعنی اس منگل کو ہوگا جس سے پہلے ایک سوموار نومبرمیں ضرور آئی ہو۔ اگر منگل یکم نومبر کو ہے تو اس روز الیکشن نہیں ہوں گے۔ منگل سے قبل والے سوموار کا نومبر میں آنا ضروری ہے۔ تھینکس گیونگ ڈے (Thanksgiving Day) یعنی ''شکر ادا کرنے کا دن‘‘ نومبر کی چوتھی جمعرات کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن سرکاری تعطیل کا دن ہے۔ اس سال یہ دن ستائیس نومبر کو منایا جائے گا۔ 
یومِ تشکر امریکہ کے علاوہ کینیڈا‘ لائبیریا اور جزائر نورفوک میں بھی منایا جاتا ہے مگر وہاں اس کے لیے مختلف دن متعین ہیں۔ کینیڈا میں یہ اکتوبر کی دوسری سوموار کو‘ لائبیریا میں نومبر کی پہلی جمعرات کو جزائر نورفوک میں نومبر کے آخری بدھ کو منایا جاتا ہے۔ امریکہ میں یومِ شکرانہ کے اگلے روز والا جمعہ بلیک فرائیڈے کہلاتا ہے۔ اس روز ایسی کھڑکی توڑ سیل لگتی ہے کہ واقعتاً سیل کا مفہوم سمجھ آ جاتا ہے۔ لوگ اس روز سٹورز کے کھلنے سے گھنٹوں پہلے آ کر قطار بنا لیتے ہیں اور سٹورز کے کھلتے ہی اندر دھاوا بول دیتے ہیں۔ مخصوص چیزوں پر کھڑکی توڑ سیل لگتی ہے۔ چھ سات سو ڈالر والا لیپ ٹاپ‘ الیکٹرانکس کے آئیٹم اور میوزک سسٹم وغیرہ دو اڑھائی سو میں مل جاتا ہے مگر یہ سیل محدود اور مخصوص اشیاء پر لگتی ہے۔ لوگ بڑی شدت سے بلیک فرائیڈے کا انتظار کرتے ہیں۔ اس سے ایک دن پہلے ''روز شکرانہ‘‘ ہے۔ اس روز سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔ ٹرکی کی شامت آجاتی ہے۔ ٹرکی مرغ نما پرندہ ہے اور امریکہ میں شکرانے کے دن کاٹا اور پکایا جاتا ہے۔ روسٹ ٹرکی ایک دوسرے کے گھر تحفے کے طور پر بھجوایا جاتا ہے۔ ٹرکی کو اردو میں پیرو کہا جاتا ہے۔ چھوٹی سی پنکھ نما دم والا یہ پرندہ مرغ سے بڑا ہوتا ہے اور اس کی چونچ کے اوپر کلغی نما گوشت ہوتا ہے جو آگے لٹکا رہتا ہے۔ امریکہ میں روز تشکر آپس میں محبت کو فروغ دینے کی علامت کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس کو تاریخی طور پر امریکی مختلف اقوام میں بھائی چارے‘ محبت‘ ایثار اور خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے حوالے سے مناتے ہیں مگر اس کی حقیقت اس سے بالکل مختلف اور متضاد ہے۔ 
امریکہ میں سب سے پہلے کون لوگ آئے؟ اگر تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہسپانوی اور پرتگالی امریکہ سب سے پہلے آنے والے بتائے جاتے ہیں۔ یہ دونوں اقوام ایک طے شدہ معاہدے کے تحت امریکہ میں نوآبادیاتی نظام کی خالق تھیں مگر بعدازاں یورپ اور برطانیہ سے آنے والے مہم جوئوں نے اس دو فریقی معاہدے کی ایسی تیسی پھیر دی اور لوٹ مار میں نہ صرف شامل ہو گئے بلکہ برطانوی سب سے آگے نکل گئے۔ ستمبر 1620ء میں برطانیہ کی بندرگاہ پلائی مائوتھ سے ایک بحری جہاز جس کا نام مے فلاور تھا ،ایک سو دو مسافروں کو لے کر امریکہ کی جانب روانہ ہوا اور دو ماہ چھ دن بعد دریائے ہڈسن کے کنارے لنگرانداز ہوا۔ وہاں سے یہ جہاز میساچیوسٹس بے پہنچا۔ جہاز کے کپتان کرسٹوفر جونز نے مختلف مقامات پر جہاز لنگر انداز کیا تاکہ کسی مناسب مقام پر جہاز کے ''زائرین‘‘ اپنا مستقل ٹھکانہ کریں۔ اسی دوران طویل سفر اور راستے کی صعوبتوں کے مارے ہوئے مسافروں پر خوراک کی کمی اور سخت سرد موسم نے آفت ڈھا دی اور مختلف جاں لیوا بیماریوں نے وہاں ڈیرہ ڈال لیا۔ آدھے سے زیادہ مسافر اور تقریباً نصف ہی قریب جہاز کا عملہ اپنی جان ہار گیا۔ ان برے حالات میں بھوک کے ستائے ہوئے مسافروں نے جن کی اکثریت عیسائیوں کے فرقے ''پیورٹین‘‘ سے متعلق تھی اور وہ یہاں نئی دنیا کے خزانوں کے ساتھ ساتھ اپنی عاقبت سنوارنے کے حوالے سے تبلیغ کا مقصد لے کر آئے تھے‘ اِدھر اُدھر لوٹ مار شروع کردی۔ چند اونچے مٹی کے ٹیلوں کو کھودا تو ان میں سے کئی وہاں کے مقامیوں کی قبریں تھیں اور کچھ مکئی کو ذخیرہ کرنے والے ڈھیر تھے۔ مقامی لوگ اس بات پر مشتعل ہو گئے اور ان کی لٹیروں سے جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ جہاز وہاں سے رخصت ہو کر تھوڑا آگے کیمپ کوڈ کے علاقے میں ایک جگہ مستقل لنگر انداز ہو گیا۔ اس جگہ کو اپنے مقام روانگی سے موسوم کرتے ہوئے پلائی مائوتھ کالونی کا نام دے دیا گیا۔ تاہم قریب ایک سال تک مسافر اور عملہ زیادہ تر جہاز ہی میں مقیم رہا۔ اسی دوران انہیں ایک ایسا مقامی شخص ملا جو انگریزی جانتا تھا۔ اس کا نام سکوانٹو (Squanto) تھا۔ 
سکوانٹو نے انگریزی کہاں سے سیکھی؟ سکوانٹو مقامی امریکی یعنی امریکہ کا آبائی باشندہ تھا۔ سترہویں صدی کے آغاز میں وہاں آنے والے غیر ملکی گوروں نے مقامی لوگوں کو غلام بنا کر یورپ بھیجنا شروع کیا تو 1614ء میں اسی طرح کے غلاموں میں سے ایک غلام یہی سکوانٹو تھا۔ وہ چار سال تک گوروں کی غلامی میں رہا اور خوش قسمتی سے اسے فرار ہونے کا موقع مل گیا اور وہ واپس اپنے علاقے میں پہنچ گیا۔ غلامی کی مشقت اور ذلت کے باوجود نیک دل سکوانٹو نے بیماری اور بھوک سے بے حال مے فلاور کے باقی ماندہ مسافروں کو مچھلیاں پکڑنے کے گر سکھائے اور انہیں مکئی کاشت کرنے کا طریقہ بتایا۔ اسی دوران اس نے وہاں بسنے والے مقامی قبیلے وامپانواگ (Wampanoag) سے جہاز والے گوروں کو ملوایا اور ان کے درمیان تعاون کا ایک باہمی معاہدہ کروایا۔ اس معاہدے کے تحت وامپانواگ قبیلے کے افراد اور باہر سے آنے والے سفید فاموں کے درمیان یہ طے پایا کہ وہ مل کر کاشتکاری کریں گے اور اسی طرح فصل میں بھی شراکت دار ہوں گے۔ پہلی فصل پک کر تیار ہوئی تو مقامی قبیلے اور سفید فاموں نے مل کر جشن منانے کا پروگرام بنایا۔ رات جشن منایا گیا۔ مقامی قبیلے نے محبت کے اظہار کے طور پر اس جشن میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ وہ اپنے ساتھ بھونے ہوئے چار ہرن اور ٹرکی لائے۔ رات جشن منایا گیا۔ مقامی طور پر تیار شدہ شراب پی گئی۔ مچھلی بھونی گئی۔ ٹرکی کھائے گئے اور ہرن اڑائے گئے۔ پھر یہ ایک روایت بن گئی۔ یعنی ہر فصل کی کٹائی کے موقعہ پر باہمی محبت اور بھائی چارے کے ساتھ شکرانے کے طور پر ایک دوسرے کی دعوت اور جشن کی روایت۔ 
1637ء میں میساچیوسٹس کالونی میں کنیکٹی کٹ کے قریبی علاقے گروٹن میں مقامی قبیلے والے اپنا گرین کارن فیسٹیول ختم کر کے رات سوئے۔ اسی روز میساچیوسٹس کالونی کے گورنر جان ونتھروپ نے مقامی قبائل کے قتل عام کا حکم دیا۔ اس سے قبل پیکوٹ (Pequot) قبیلے کے خلاف سٹانفورڈ میں ہونے والے قتل عام کے بعد مقامی قبائل کی شامت آ چکی تھی۔ گورنر کی اجازت کے بعد رات جشن منا کر سوئے ہوئے تھکے ہارے
مقامی قبیلے پر علی الصبح انگریز اور ڈچ ٹوٹ پڑے۔ محاصرے میں آئے ہوئے سارے مقامی جن میں مرد‘ عورتیں اور بچے شامل تھے ،قتل کر دیے گئے۔ کل مقتولین کی تعداد سات سو کے لگ بھگ تھی۔ اس ''تھینکس گونگ ڈے‘‘ کے بعد روایت بن گئی کہ رات کے جشن بہاراں یعنی فصل کی کٹائی شروع ہونے پر منائے جانے والے جشن کے بعد کی رات مقامی قبائل کی نسل کشی کے لیے مختص ہو گئی۔ اس رات سفید فام جشن کے بعد مقامی لوگوں کا قتل عام کرنے اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنے کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ سولہ سال سے زیادہ عمر کی عورتیں اور بچے غلام بنا لیے جاتے اور اس سے چھوٹے بچوں اور بچیوں کو قتل کر دیا جاتا۔ اس دوران معاہدہ امن والے قبیلے وامپانواگ کو بھی نہ چھوڑا گیا اور 1621ء میں پہلا روز تشکر منانے والے قبیلے کے چیف کا سر کاٹ کر پلائی مائوتھ میں بانس پر لٹکا دیا گیا۔ جو وہاں چوبیس سال تک لٹکا رہا۔ 
پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن نے مختلف تاریخوں پر ہونے والے روز تشکر کے بجائے ایک دن مقرر کیا۔ بعد میں امریکی صدر ابراہیم لنکن نے اسے قومی تعطیل قرار دے دیا۔ سول وار کے دوران عین اس دن جب ابراہیم لنکن نے روز تشکر کو نیشنل ہالیڈے قرار دیا اسی دن اس نے امریکی فوجی دستوں کو امریکی ریاست مینی سوٹا کے مقامی قبیلے ''سیوکس‘‘ کے خلاف فوجی کارروائی کا حکم دیا۔ مقامی قبائل کی محبت‘ بھائی چارے‘ ایثار اور وسیع القلبی کے جواب میں ان کا قتل عام کیاگیا۔ ان کے تحائف کے جواب میں کٹے ہوئے سر اور بھنی ہوئی ٹرکی کے جواب میں چو بیس سال تک بانس پر لٹکا ہوا وامپانواگ چیف کا سر۔ آج امریکی اس دن کو فخر سے مناتے ہیں۔ قومی تعطیل ہوتی ہے۔ محبت کے نغمے گائے جاتے ہیں اور ٹرکی روسٹ کی جاتی ہے ؎ 
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ 
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved