تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     19-11-2014

آئرن برادرز

حکومتی کارندوں اور ترجمانوں نے‘ یہ وضاحتیں جاری کرتے کرتے ‘ کان کھا رکھے تھے کہ '' فوج اور حکومت ایک پیج پر ہیں‘‘۔ جبکہ اہل نظر‘و اقعات کے تسلسل میں دیکھ رہے تھے کہ ایک پیج پر نہ ہونے کے تاثر کو ختم کرنے کے لئے‘ کوئی اقدام نہیں کیا گیا ۔ اس کے برعکس‘ ایسی مثالیں کسی نہ کسی انداز میں ‘سامنے آتی رہیں کہ قومی اور خصوصاً خارجہ پالیسی کے بارے میں‘ دونوں ایک پیج پر نہیں ہیں۔ تازہ مثال پاک امریکہ تعلقات کے انتہائی نازک موڑ پر‘ حکومت اور فوج کے ترجمانوں نے‘ جو کارنامہ کیا ‘وہ چیخ چیخ کے ظاہر کررہا ہے کہ ایک پیچ پر ہونے کا افسانہ عوام اور عالمی برادری کو بتانے کی غرض سے پھیلایا جا رہا ہے۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ یہی وہ بحران ہے‘ جب تک اسے حل نہیں کیا جا تا‘ نہ عالمی برادری کا اعتماد بحال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی بیرونی سرمایہ کاروں کا۔ سٹاک ایکسچینج بے شک ریکارڈ توڑتا رہا‘ وہ ملک کی حقیقی صورت حال کی آئینہ داری نہیں کرتا۔ یہاں دائو بازی اورجوئے جیسا کھیل ہوتا ہے‘ جسے چند اجارہ دار کھیلتے ہیں۔اب میں اصل حقیقت آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔17نومبر کو پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے ایک امریکی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا''پاک فوج بلا امتیاز سب دہشت گردوں کا صفایا کر رہی ہے‘‘۔ اس یقین دہانی کا پس منظر یہ ہے کہ پاکستان کے سابق فوجی سربراہوں نے‘ امریکہ کے ساتھ ہمیشہ ڈبل گیم کھیلی۔ امریکہ سے یہ کہہ کر‘ ڈالر بٹورے کہ'' ہم امریکہ اور افغان حکومت کے دشمن ‘ دہشت گردوں کی سرپرستی نہیں کرتے اور نہ انہیں اپنے ہاں پناہ دیتے ہیں‘‘۔ حقیقت میں عمل‘ اس کے برعکس تھا۔ امریکیوں میں بداعتمادی پیدا ہو گئی اور انہوں نے پاکستان کے ساتھ سرد مہری کا سلوک شروع کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ چار سال تک‘ پاکستان کے کسی فوجی سربراہ کو مذاکرات کے لئے‘ امریکہ آنے کی دعوت نہیں دی گئی۔چار سال میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے چیف آف آرمی سٹاف کو‘ امریکی حکومت نے اعلیٰ ترین سطح پر بطور سرکاری مہمان مذاکرات کی دعوت دی۔ ایسے وقت میں جب افغانستان کے مستقبل کے سوال پر‘ دنیا بھر کی طاقتیں اس ملک کے اندر‘ استحکام قائم کرنے کے لئے‘ تدبیریں کر رہی ہیں‘ پاکستان کی فوج نے شمالی وزیرستان میں‘ بھر پور فوجی کارروائی کا فیصلہ کر کے‘ وقت کے بدلتے تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش کی۔
موجودہ فوجی قیادت نے شفاف اور کھرے انداز میں‘ ہر طرح کے دہشت گردوں کے خلاف‘ بھر پور کارروائی کی اور زمینی حقائق کو دیکھتے ہوئے‘ امریکہ نے اس حقیقت کو تسلیم کر لیا کہ اس بار پاکستان کی فوجی قیادت‘ دروغ گوئی سے کام نہیں لے رہی۔ جو کچھ وہ کر رہی ہے‘ وہی بتا رہی ہے۔اپنے حقیقی ریکارڈ کے مطابق‘ جنرل راحیل شریف کی امریکہ میں آمد کے موقع پر فوجی ترجمان نے مذکورہ بیان جاری کیا۔اگلے ہی دن مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز کا بیان آیا‘ جو فوجی ترجمان کے بیان کی واضح تردید تھا۔انہوں نے کہا ''جو شدت پسندہمارے لئے خطرہ نہیں‘ ہم انہیں نشانہ کیوں بنائیں؟ ‘‘فوج اور حکومت کا تضاد‘ کھل کر سامنے آگیا اور ایسے نازک موقعے پر آیا جبکہ فوجی قیادت امریکہ کو یقین دلا رہی تھی کہ ہم دہشت گردوں کے خلاف‘ بلاامتیاز کارروائی کر رہے ہیں اور پاکستانی حکومت کے ترجمان بتا رہے تھے کہ ''یہ کارروائی بلاامتیاز نہیں بلکہ ہم اپنے ہمدردوں اور دشمنوں میں امتیاز کر رہے ہیں‘‘۔ یہ بیان اس قدر حساس اورخطرناک تھا کہ جی ایچ کیو کو یقینی طور پر‘ تشویش ہوئی ہو گی اور اس نے حکومت کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کے لئے کہا ہو گا۔اسی کے نتیجے میں‘ آج وزارت خارجہ کے ترجمان کو‘ اپنے باس مشیر خارجہ کے بیان کی وضاحت کرنا پڑی جو درحقیقت اس کی واضح تردید ہے۔ ترجمان نے اصل بات چھپانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے کہا'' مشیر خارجہ نے تاریخی پس منظر میں بات کی تھی۔ آپریشن ضرب عضب میں دہشت گردوں کے خلاف ‘بلا امتیاز کارروائی ہو رہی ہے‘‘۔ غالباً یہ دوسرا موقع ہے کہ حکومت اور جی ایچ کیو کے موقف میں کھلا تضاد واضح طور پر‘ دنیااور قوم کے سامنے آیا۔ ایک مرتبہ جب حکومت کی طرف سے یہ کہا گیا کہ ملک میں جاری بحران کے دوران چیف آف آرمی سٹاف نے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لئے کہا ہے ‘ فوراً ہی جواب میں فوجی ترجمان کی طرف سے وضاحت آ گئی کہ یہ خبر غلط ہے ۔ حکومت نے چیف آف آرمی سٹاف کو سہولت کاری کے لئے کہا تھا۔اگر حکومت اور جی ایچ کیو کی پالیسیوں میں فرق کے ثبوت دیکھنا ہوں تو پاک بھارت تعلقات میں چندحالیہ مناظر پر نگاہ ڈال لینا چاہئے۔بھارتی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں‘ شرکت کے لئے وزیراعظم نوازشریف دہلی تشریف لے گئے۔ نہ انہوں نے جانے سے پہلے‘ وزارت خارجہ اور دفاع کو اعتمادمیں لیا اور نہ واپس آنے کے بعد۔ دو حریف ملکوں میں طویل کشیدگی کے موقع پر‘وزارتی سطح کے رابطے کے لئے‘ جو تیاری ہونا چاہئے تھی‘ وہ نہیں کی گئی۔یقینی طور پر‘ میزبان وزیراعظم نے محسوس کیا ہوگا کہ مہمان وزیراعظم ‘مجھے کسی سنجیدہ بات چیت کے لائق ہی نہیں سمجھ رہے۔صرف آموں اور ساڑھیوں کا تحفہ دے کر‘ ٹرخا دیا۔بھارتی وزیراعظم نے علیحدہ ملاقات کا موقع بھی رکھا تھا۔ ایسا انہوں نے شدید مصروفیت کے دوران کیا لیکن ہمارے عوام اور اداروں کو ابھی تک علم نہیں کہ دونوں وزرائے اعظم کے درمیان ‘تنہائی میں کیا بات ہوئی؟
نو منتخب افغان صدر پاکستان کے دورے پر آئے۔انہوں نے پہلے بیرونی دورے کے لئے‘ چین کا انتخاب کیا اور اس کے بعد پاکستان کا‘ جس کا سفارتی مفہوم یہی لیا جا سکتا ہے کہ دورے کا فیصلہ کرتے وقت‘ انہوں نے حکومت میں‘ اپنے بعد اہم ترین پوزیشن رکھنے والے‘ عبداللہ عبداللہ سے یا تو مشاورت ہی نہیں کی اور اگر کی تو انہیں منوایا ہو گا کہ بھارت سے پہلے پاکستان جانا ضروری ہے۔ یہ کرزئی حکومت سے انتہائی مختلف عمل تھا۔جب وہ پاکستان تشریف لائے تو ہمارے وزیراعظم ملک کے اندر موجود نہیں تھے۔ اس حیرت انگیز''واقعے‘‘ کو ہر گز اتفاقیہ نہیں کہا جا سکتا۔ افغانستان جیسے اہم پڑوسی کے نئے منتخب صدر کا دورہ پاکستان پر آنا۔ جس کے استقبال کو سب سے پہلے‘ چین نے ترجیح دی۔ ہمارے لئے انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کے مستقبل سے تعلق رکھنے والے انتہائی اہم دورے کا پروگرام ‘وزیراعظم کی منظوری کے بغیر‘ طے کیا جاتا۔عین ان کی آمد کے موقع پر‘ میزبان ملک کے وزیراعظم کی عدم موجودگی‘ محض غیر معمولی نہیں‘ حیرت انگیز طو رپر غیر معمولی ہے۔افغان صدر نے کسی بھی قسم کی رسومات اور پروٹوکول کی پروا‘ نہ کرتے ہوئے پاکستان آکر‘ براہ راست فوجی قیادت سے مذاکرات کئے اور واپس چلے گئے۔اخباری خبروں کے مطابق‘ مہمان صدر کے سارے باضابطہ مذاکراتی دور‘ فوجی قیادت کے ساتھ ہوئے۔البتہ وزیراعظم نے میزبانی کے تقاضے پورے کرتے ہوئے‘ انہیں کرکٹ میچ دیکھنے کی دعوت ضرور دی لیکن پروٹوکول سٹاف نے ہدایت کر دی کہ سٹیڈیم میں سرکاری اہلکاروں کے سوا‘ کسی کو اندرآنے کی اجازت نہ دی جائے اور سرکاری افسر بھی اپنی بیگمات اور بچوں کے بغیر آئیں۔ کہا جارہا ہے کہ یہ احتیاط اس لئے کی گئی کہ کوئی شر پسند''گو نواز گو‘‘ کا نعرہ نہ لگا دے۔دوسری طرف امریکیوں نے اعلان کر دیا کہ'' امریکہ کے پاک فوج کی قیادت سے اچھے تعلقا ت ہیں‘‘۔ ایسے مواقع پر ہمیشہ ملک کا نام لیا جاتا ہے‘ جس کا عہدیدار دورے پر آیا ہو۔ امریکہ پاکستانی سیاست کی باریکیو ں کو اچھی طرح سمجھتا ہے‘ جب وہ ایک بات کہنا چاہتا ہے تو جمہوری حکومت کے ساتھ تعلقات کا ذکرکرتا ہے اور ضرورت محسوس کرتا ہے تو پاک فوج کی قیادت سے اچھے تعلقات کا اعلان کرتا ہے۔ اسلام آباد میں ایک سینئر‘ چینی سفارت کار نے تو کمال کی بات کر دی۔ اس نے دوران گفتگو پاکستان کے ذکر میں''آئرن برادرز‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔میں نے یہ اصطلاح پہلی بار پڑھی۔ اس کا مطلب پوری طرح سمجھنے میں نہیں آیا۔ چینی ویسے بھی کوزے میں دریا اور قطرے میں سمندر بند کرنے کے ماہر ہیں۔ مجھ جیسا ادنیٰ صحافی‘ چینیوں کی اصطلاحوں کو پہلی بار پڑھ کر‘ کیسے سمجھ سکتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved