تحریر : رسول بخش رئیس تاریخ اشاعت     19-11-2014

پاک افغان تعاون کی ضرورت

دنیا کے کوئی سے دوممالک بھی ایک دوسرے سے اتنی مماثلت رکھتے ہوئے ایک دوسرے سے سکیورٹی اور عسکری میدانوں میں اتنی مختلف بلکہ متحارب پالیسیوں پر گامزن نہیں ہوں گے جتنے پاکستان اور افغانستان گامزن ہیں۔ بعض اوقات دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے ناگزیر اور بعض اوقات دشمنی پر آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ جب آپ ان کے جغرافیائی معروضات، تاریخ، ثقافت، نسلی ہم آہنگی اور ملکی مفاد کو دیکھتے ہیںتو احساس ہوتا ہے کہ یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے گہرے رشتے میں جڑے ہوئے ہیں، لیکن جب ان کی عسکری اور سیاسی حکمتِ عملی پر نظر جاتی ہے تو لگتا ہے کہ یہ دودشمن ریاستیں ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ایک زبان، ثقافت، مذہب اور قومی خواص رکھنے والے ممالک باہم کشمکش میں الجھ سکتے ہیں یا ایک دوسرے کے لیے دشمنی پال سکتے ہیں۔ ایسا کیوںہوتا ہے؟ کون سی چیز ریاستوں کو ایک دوسرے سے تصادم کی راہ پر گامزن کرتی ہے؟ غالباً ان کا مفاد۔
دوسری طرف ایسی ریاستیں، جو ثقافت، زبان، مذہب اور نظریات کے حوالے سے ایک دوسرے سے مختلف ہوں، سٹریٹجک معاملات میں ایک دوسرے کی شراکت دار ہوسکتی ہیں۔ چونکہ ریاستیںثقافتی معروضات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے مفادات کا تحفظ چاہتی ہیں، اس لیے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ماضی کے مسائل اور مستقبل کے امکانات کو ریاستی مفادات کے اسی آئینے میں دیکھا جانا چاہیے۔ 
دو ریاستوں کو قریب لانے والی اہم ترین چیز تاریخ کا دھارا ہے۔۔۔ اس تعلق میں افغانستان اور پاکستان ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں۔ اس میں جو چیز پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، وہ افغانستان کے لیے بھی نقصان دہ ہے، بلکہ یہ اس خطے اور اس کے آس پاس کے تمام خطوںپر اثر انداز ہوگی۔ نوآبادیاتی نظام سے بھی پہلے کا ایک طویل تاریخی پہلو اب تک اپنی تواناموجودگی رکھتا ہے۔ افغانستان میں جنگ‘ داخلی تنازعات اور غیر ملکی مداخلت بھی تاریخی دھارے میں شامل ہوتے ہوئے اس خطے کو متاثر کرتی رہی ہے۔ یہ تصور بھی محال ہے کہ اگر افغانستان میں غیر ملکی فوج کشی ہو تو پاکستان اور دیگر علاقے اس سے متاثر نہیںہوںگے۔ ان کا مکان ٹوٹے گا تو اس کا ملبہ ہمارے صحن میں بھی گرے گا۔ یہ سادہ سی حقیقت ہے‘ کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ اس کے باوجود بہت سے دانشور یہ کہتے نہیں تھکتے کہ ہمیں افغان سرزمین پر ہونے والی پیش رفت سے کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہم کسی کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے لیکن ہم ان سے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے اور دشمنی تو ہرگز افورڈ نہیں کر سکتے۔ 
دراصل افغانستان ایک ایسا ملک ہے جہاں غیر ملکی مداخلت طویل تاریخ رکھتی ہے۔پہلی اینگلو افغان جنگ (1839-1842ء) سے لے کر تیسری افغان جنگ (2002-2014ء) کا درمیانی عرصہ بھی پرامن نہیں گزرا ہے۔ ہمارے لیے گزرتے وقت کے یہ ماہ و سال کوئی خوش گوار یادیں چھوڑ کر نہیں گئے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا مستقبل اس سے قدرے مختلف ہوسکتا ہے؟اس مرحلے پرایک لمحے کے لیے توقف کرتے ہوئے ہم سوچیں تو لگتا ہے کہ تاریک ماضی کے باوجود رجائیت کاپہلو روشن تر ہے۔ 
پاک افغان تعلقات میں بہتری کے لیے پرامید رہنے کی بہت سی وجوہ ہیں۔ پہلی یہ کہ کوئی سے بھی دوممالک ،جن کے مسائل ایک جیسے ہوں، کا ایک دوسرے سے تصادم کی راہ پر چلنا ضروری نہیں ہے۔ دنیا کے دیگر خطوںسے سامنے آنی والی مثالیں بتاتی ہیں کہ ایسے دو ممالک جن کے مفادات میں ہم آہنگی نہیں پائی جاتی وہ بھی ایک دوسرے کے دوست بن کر خوشگوار تعلقا ت رکھ سکتے ہیں۔ ان مثالوں پر نظر دوڑاتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ جس چیز نے اُن ممالک کو تصادم کی راہ سے باز رکھتے ہوئے ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی، وہ ان کی نئے مستقبل کے لیے روشن ہونے والی امید کی کرن ، حوصلہ اوروہاں کی سیاسی قیادت کا مثبت کردار تھا۔ درحقیقت کسی ملک کے حکمران ہی تاریخ کا دھارا تبدیل کرتے ہیں۔ معاشرے کے دیگر عوامل اور سول سوسائٹی نئے تصورات کی آبیاری کرتے ہوئے حکمرانوں کو تبدیلی پر مجبور کرسکتی ہے۔ دراصل ہونے والی کسی بھی مثبت تبدیلی کا آخری فائدہ انہی کو پہنچنا ہوتا ہے۔ دوسری طرف تصادم اور محاذآرائی کا نقصان بھی انہی کو ہوتاہے۔ 
افغانستان کا بے حد پیچیدہ سکیورٹی کا ماحول، ریاستی اور غیر ریاستی عناصرکے مفادات کا ٹکرائو اور غیر ملکی مداخلت اسے پاکستان کے قریب لارہی ہے۔ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ دونوں ممالک انتہا پسندی، مسلح گروہوں کی کارروائیوں اور نسلی، مسلکی اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والی خونریزی میں ملوث جہادیوں سے نمٹنے کی کوشش کررہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ان کے پالیسی سازوں کو احساس ہوچکا ہے کہ دونوں ممالک میں فعال انتہا پسندوں کے ایک دوسرے سے روابط ہیں اور وہ دونوں کے لیے خطرے کا باعث ہیں، اس لیے یہ دونوں ممالک ان سے فرداً فرداً نہیں نمٹ سکتے۔ اگر انتہا پسند باہم اشتراک سے کارروائیاں کرتے ہیں تو اُنہیں روکنے کے لیے ان متاثر ہ ممالک (پاکستان اور افغانستان) کوبھی ایک دوسرے سے تعاون کرنا ہوگا۔ جتنی جلدی یہ سوچ ان کی عملی جہت میں فعال ہوجائے، اتنا ہی بہتر ہوگا۔ 
حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک کے دہشت گرد گروہ عشروںسے جاری جنگوں کی پیداوار ہیں۔ سرحد کے دونوں طرف ان کی پناہ گاہیں موجود ہیں۔ دونوں طرف فعال جہادی ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کرتے ہیں۔ سب سے پریشان کن بات یہ ہے کہ ان جہادی دستوں کو دنیا کی کچھ ریاستوں یا بیرونی دنیا کے غیر ریاستی عناصر کی کھلی یا پوشیدہ حمایت حاصل رہتی ہے۔ بہت دیر سے یہ دونوں ممالک غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے مصائب کا عذاب جھیل رہے ہیں ۔ اب خواہش ہے کہ اس کا خاتمہ ہوجائے۔ اس خواہش کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کو امن، سکیورٹی اور استحکام کی راہ اپنانا ہوگی اور اپنے ذاتی مفادات کو پس ِ پشت رکھنا ہوگا۔ یہی اس خطے میں آنے والی سب سے بڑی تبدیلی ہوگی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved