تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     19-11-2014

ہیجان اور بیداری

ہیجان کو لوگ بیداری کہتے ہیں۔ اب جنوں کا نام خرد ہے۔جو چاہے،آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے۔
ہیجان کیا ہے؟ نا آسودہ فطری مطالبات یا محرومیوں سے پھوٹا ہوا وہ احساس، جو آدمی کو ہوش و خرد سے بیگانہ اور وقتی اشتعال کے حوالے کر دے۔ بیداری کیا ہے؟ ذہنی ریاضت سے جنم لینے والاوہ جذبہ جو تعمیر کے کسی قابلِ عمل منصوبے میں ڈھل کر ، آدمی کو طویل مسافت کے لیے سبک خیزبنا دے۔ ایک منفی احساس، دوسرا مثبت جذبہ۔ ایک سراسر شر، دوسرا سرتا پا خیر۔ یہ راہِ خدا ہو یا راہِ دنیا، واقعہ یہ ہے کہ صبر اور ریاضت کے بغیر کچھ ہاتھ نہیں آتا۔
تحریکِ انصاف نے سماج کو ہیجان میں مبتلا کیا ہے۔ محرومیوں کا استحصال، یہ دیکھے اور جانے بغیر کہ ان کا کوئی سریع علاج نہیں۔ یہ کام، اس سے پہلے اسلام اور سوشلزم کے نام پر ہو چکا۔ دونوں کا انجام ایک ہی رہا۔ تاریخ ہر دور میِں اس شہادت کو دھراتی رہی ہے کہ سیاست، سماج کی اخلاقی حالت کا پر تو ہے۔ سماجی حقیقتیں، جب تک تبدیل نہ ہوں، سیاسی تبدیلی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی۔ اور پھر تبدیلی بھی کیسی؟ کوئی نئی سوچ؟ کوئی نیا چہرہ؟ کوئی نیا انداز؟ کوئی نئی جماعت؟ پارٹی کے انتخابات دھاندلی کا اشتہار بن گئے۔ جسٹس وجیہ الحسن نے سارے انتخابی عمل کو مشکوک قرار دے دیا۔ عمران خان، ملک کے انتخابات کو کالعدم قرار دینا چاہتے ہیں لیکن پارٹی انتخابات کو نہیں۔ یہ تجویز کسی سیاسی مخالف کی نہیں، خود پارٹی راہنما کی ہے، جنہیں یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے۔پھر جن چہروں کے جھرمٹ میں وہ دکھائی دیتے ہیں، وہ کون ہیں؟کوئی مشرف کا مشیر،کوئی زرداری کاوزیر۔ کوئی ہے جو یہ سوال اُٹھائے؟
میں بارہا عرض کر چکا کہ یہ رومان ہے۔ وہی رومان جس کا ماخذ فطری جذبات ہوں تو نوجوانوں کو ہیجان میں مبتلا کرتے ہیں اور وہ گھروں سے بھاگ جاتے ہیں۔ایسی حرکتوں کے انجام ہمیں معلوم ہیں۔ اگر ایسا رومان سیاسی قیادت کے ساتھ وابستہ ہو جائے جس کی کوئی عقلی اساس نہ ہو تو گھر کی طرح سیاست میں بھی بھونچال آجاتا ہے۔ یہ رومان جب سیاسی اور سماجی حقائق سے ہم کلام ہوتا ہے تو اس کا انجام بھی وہی ہوتا ہے جو گھر سے بھاگے ہوئے نوجوان جوڑے کا ہوتا ہے۔
پاکستان کے چند مسائل ہمارے سامنے ہیں۔ سادہ سوال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کے پاس، ان کاحل کیاہے؟ یہ جماعت بجلی اور گیس کا بحران کیسے ختم کرے گی؟ پاکستان کی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کے بغیر فوری سہارا کیسے ملے گا؟ دہشت گردی کیسے ختم ہو گی؟ سماجی انصاف کیسے ممکن ہے؟ لوگوں کی آمدن میں اچانک اضافہ کیسے ہوگا؟ موجودہ حکومت اِن مسائل کے حل کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے ، ان کے مقابلے میں تحریکِ انصاف کیا متبادل پیش کر رہی ہے؟ عمران خان کے قرب و جوار میں کون سا چہرہ ہے جو آزمودہ نہیں؟ ان کی تمام سیاسی قیادت میں کوئی ایک فرد ایسا ہے جو 'سٹیٹس کو ‘کی کسی نہ کسی قوت کا نمائندہ نہ ہو؟کرپشن بلاشبہ ایک مسئلہ ہے مگر یہ مقامی نہیں، عالمگیر ہے۔کیا چین کی معیشت کرپشن سے پاک ہے؟معاشی خوش حالی کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے۔ جہاں معاشی عمل ہوگا، وہاں ہی مالی دیانت اور کرپشن زیرِ بحث آئے گی۔ہیجان میںکوئی معیشت پنپ نہیںسکتی۔
رومان کا معاملہ یہ ہے کہ وہ زندگی کو ضرورت سے زیادہ سادہ (Oversimplify) بنا کر پیش کرتا ہے۔ گھر سے بھاگنے والا جوڑا سوچتا ہے کہ جب ہم گھروں سے بھاگ جائیں گے تو ہمارے ملن میں کوئی روک ٹوک نہیں ہوگی‘ ہم ایک چھوٹا سا گھر بسائیں گے اور پھرہنسی خوشی رہیں گے۔ یہ رومان جب ہیجان کے زیرِ اثر ہوتا ہے تووہ اس تعبیر کو قبول کر لیتا ہے کیوں کہ یہ اسے قابلِ عمل دکھائی دیتا ہے۔ اسی طرح سیاسی رومان بھی معاملات کو بہت سادہ صورت میں عوام کے سامنے رکھتا ہے۔اس کے مطابق، اس وقت ملکی مسائل کا صرف ایک سبب ہے اور وہ ہے نواز شریف۔ عوام اور ان کی خوش حالی کے درمیان اگر کوئی حائل ہے تو صرف اُن کی ذات۔ اگر یہ دیوار گر جائے تو عوام اور خوشحالی کا وصا ل ہوجائے گا۔ دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ جائیں گے۔ اس لیے آئیں، مل کر اس دیوار کو گرا دیتے ہیں۔ یہ ایک سادہ سا بیانیہ ہے جس میں بہت کشش ہے۔ ایک رومان پرور فضا میں، جب عطاء اﷲ خان اور ابرار الحق کی آوازیں اور سازینے بجتے ہیں تو یہ فیض جیسا کوئی بے ذوق ہی ہوگا جو زندگی کی حقیقتوں کو دیکھ کر پکارے اٹھے کہ ''لوٹ جاتی ہے اِدھرکو بھی نظر کیا کیجے!‘‘ بھٹو صاحب سے لے کر شہباز شریف صاحب تک، بہت سے لوگ یہ کام کر چکے۔ بالآخر یہ ان کے گلے کا پھندا بن گیا۔بھٹو صاحب کے معاملے میں لفظی اعتبار سے اور شہباز شریف کے قصے میں معنوی اعتبار سے۔زندگی کی تلخ حقیقتیں انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ انسان انہیں قبول تو کر تا ہے مگر بعد از خرابیٔ بسیار۔ 
پاکستان کو آج ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو اس میں ہیجان نہیں، بیداری پیدا کرے۔جو اس میں زندگی کی صداقتوں سے آنکھیں چار کرنے کی صلاحیت بیدار کرے۔جو اسے باور کرائے کہ ہتھیلیوں پہ سرسوں نہیں جمتی۔یہ ایک مسلسل ریاضت کا عمل ہے۔صبر ہی وہ حکمت عملی ہے جو نتیجہ خیز ہوتی ہے۔الہامی ہدایت اور انسانی تجربہ، دونوں اس پر متفق ہیں۔ اقبال نے کہاتھا:
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ بر حق
جو تجھے حاضرو موجود سے بیزار کرے
موت کے آئنے میں تجھ کو دکھا کر رخِ دوست
زندگی تیرے لیے اور بھی دشوار کرے
عمران خان کو یہی کام کر نا چاہیے تھا۔ان کی جماعت کے پی میں اس ریاضت کی عملی تصویر بن جا تی۔صبح و شام لوگوں کی تقدیریں بدلتیں۔تحریکِ انصاف دوسری جماعتوں سے اخلاقی اعتبار سے نمایاں ہو تی۔اس کے کارکنوں کا وژن واضح ہوتا۔ پانچ سال کا صبر اور ریاضت، انہیں نا قابلِ شکست بنا دیتی۔ افسوس کہ انہوں نے دوسرا راستہ اختیار کیا۔ بے صبری ، جس کا دوسرا نام ہیجان ہے۔ بعض ایسے لوگ ان کے ساتھ مل گئے جن کی سیاست کا کھیسا خالی ہے۔ سیاسی پیراسائٹ جو ہمیشہ کسی نوازشریف، کسی عمران خان کی تلاش میں ہوتے ہیں۔ان کا کوئی مستقبل نہیں، مگر عمران خان کا تو ہے۔
ایک کوشش کی ناکامی کے بعد،اب وہ پھر ایک اور لہر اٹھانا چاہتے ہیں۔اگر میں رومان کا وہی استعارہ سامنے رکھوں تو نوجوان جوڑا پھر گھر سے بھاگنا چاہتا ہے۔میں بلا ادنیٰ تامّل،یہ کہہ سکتا ہوں کہ 30نومبر کے بعد، حکومت جائے یا عمران خان، اس کا نتیجہ خرابی کے سوا کچھ نہیں ہو گا۔حکومت نے تو خیر کیا جانا ہے، میرے لیے عمران کا سیاسی ضیاع بھی کم سیاسی نقصان نہیں۔
سیاست تو ایک طرف رہی،عمران کی سیاست نے اس سماج پر جو اثرات مرتب کیے ہیں، اس کی شدت کا صحیح اندازہ لوگوں کو ابھی نہیں ہوگا ،الا یہ کہ کوئی آنے والے کل میں جھانک سکتا ہو۔ معاشرے ہیجان سے نہیں، بیداری سے بنتے ہیں۔بیداری کیا ہے؟ ایک سوچا سمجھا منصوبہ اوراس کی تکمیل کے لیے مسلسل ریاضت۔ محض ریاضت صرف ہیجان بر پا کر سکتی ہے۔عمران خان نے بہت ریاضت کی لیکن جب بیدار ہونے کا وقت آیا،خود کوہیجان کے حوالے کر دیا۔ افسوس کہ ان کی کمند وہاں ٹوٹ گئی جب دو چار ہاتھ لبِ بام رہ گئے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved