چاروں طرف سبزہ‘ پھول‘ پرندے اور تازہ ہوا۔ اگر صورت حال یہی رہی تو کچھ سال مزید زندہ رہ سکتا ہوں۔ لیکن اب اور زندہ رہ کر کون سا تیر مار لوں گا۔ پہلے ہی کچھ ضرورت سے زیادہ جی لیا ہے؛ تاہم یہ کوئی مایوسی کی بات نہیں ہے بلکہ ماحول سے جو امید اور طمانیت چھلکی پڑتی ہے‘ اس کا اپنا زور ہے اور وہ مایوسی کو پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔ اپنا ایک شعر یاد آ رہا ہے ؎
اور کیا چاہیے کہ اب بھی ظفرؔ
بھوک لگتی ہے‘ نیند آتی ہے
محبی ناصرؔ زیدی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ظفر اقبال کا یہ شعر ضرب المثل بننے کی حیثیت رکھتا ہے ؎
اس سے بڑی نعمت کیا ہو گی
صاف ہوا اور تازہ پانی
اسی مضمون کو ایک اور جگہ بھی باندھ چکا ہوں یعنی ؎
رہیں گے وہاں اب تو جا کر جہاں
ہوا صاف ہو اور پانی کھلا
چنانچہ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ میں اپنے آپ کو دہرانے لگ گیا ہوں۔ اور اگر یہ صحیح بھی ہو تو دوسروں کو دہرانے کی بجائے اپنے آپ کو دہرانا شاید کم نقصان رساں ہے!
شاعری کی بات چل نکلی ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ کمزور شعر کہنے کی بجائے خراب شعر کہنا کہیں بہتر ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ روٹین کی شاعری میں کتابیں دھڑا دھڑ کیوں شائع ہو رہی ہیں۔ اب اس میں تو کوئی شک و شبہ نہیں رہا کہ پبلشر ایسی کتاب چھاپنے کا خطرہ مول نہیں لیتا اور شاعر اپنا مجموعۂ کلام اپنے ہی خرچ سے شائع کراتا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ شاعر اپنے اندر کی مجبوری کے تحت ہی شعر کہتا ہے اور اکثر اوقات اپنے لیے اور اپنے دوستوں کو خوش کرنے یا ان میں اپنی دھاک جمانے کے لیے۔ اور ایسی کتاب کا اِدھر اُدھر کم و بیش نکاس بھی ہو جاتا ہے کیونکہ شاعری جتنی کم عیار ہوگی اس کے پڑھنے والے بھی اتنے ہی زیادہ تعداد میں موجود ہوں گے کیونکہ ہر شاعر اپنی ہی طرح کا قاری بھی ساتھ لے کر آتا ہے۔
تاہم اب کچھ عرصے سے ایک تبدیلی یہ آئی ہے کہ قاری نہ صرف پہلے سے زیادہ تربیت یافتہ ہو گیا ہے بلکہ وہ اس روٹین کی شاعری سے مطمئن بھی نہیں ہوتا اور شاعر سے ذرا مختلف انداز کی شاعری کا متمنی ہوتا ہے جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جدید طرزِ احساس اور نئے پیرایۂ اظہار نے قاری کا مزاج بھی یکسر تبدیل کردیا ہے اور وہ جگالی قسم کی شاعری سے بیزار ہو چکا ہے اور جو شعراء طلب اور رسد کے اس اصول کو پیشِ نظر نہیں رکھتے یا مطلوبہ مال پیش کرنے سے قاصر ہیں‘ انہیں چاہیے کہ وہ اس کام کو ترک بیشک نہ کریں لیکن وہ وقت کے ساتھ ساتھ چلنے کی کوشش تو کر ہی سکتے ہیں جبکہ ہر شاعر کی یہ قدرتی خواہش ہوتی ہے اور اگر نہیں ہوتی تو ہونی چاہیے کہ وہ اس کام میں نام بھی پیدا کرے کیونکہ یہ مسابقت کا زمانہ ہے اور جب تک دوسروں سے آگے نکل جانے کی لگن نہ ہو‘ تب تک اچھے نتائج بھی برآمد نہیں ہو سکتے۔
اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ جس طرح کی شاعری آپ کرتے ہیں‘ اس کا کوئی معقول جواز بھی ہونا چاہیے کہ آیا ادبی معاشرے کو اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں۔ یہ دوسرے ہم عصروں سے اگر آگے نہیں تو کم از کم ان کے قدم کے ساتھ قدم ملا کر چل تو سکتی ہو ورنہ یہ آپ کے چند جاننے والوں تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی۔ اور اگر یہ دوسروں سے آگے یا بہتر نہ بھی ہو تو ان سے کسی قدر مختلف تو ہوتا کہ اسے دوسروں کی شاعری سے الگ شناخت کیا جا سکے؛ چنانچہ غزل لکھنے والوں کو اس جدید غزل کا مطالعہ تو کرنا ہی چاہیے جو کہیں کہیں ہی سہی‘ اطراف و جوانب میں کہی ضرور جا رہی ہے تاکہ شاعر کو اندازہ ہو سکے کہ اس کی شاعری اور وہ کہاں کھڑے ہیں‘ اور انہیں اس سلسلے میں مزید کیا کرنے کی ضرورت ہے۔
میرے پاس شاعری کے جو مجموعے تبصرے کے لیے آتے ہیں‘ میں انہی پر اپنی رائے ظاہر کرتا یا درخورِ اعتناء سمجھتا ہوں جن میں کوئی جدت‘ کوئی چمک یا کوئی تازہ کاری کا اہتمام بھی موجود ہو‘ بصورت دیگر میں اپنی ناقص رائے ظاہر کرنے سے اپنے آپ کو معذور سمجھتا ہوں کیونکہ میں کوئی پیشہ ور نقاد نہیں ہوں کہ ہر کتاب پر تبصرہ کرنے بیٹھ جائوں‘ اس لیے بھی کہ مکھی پہ مکھی مارکہ شاعری کی تحسین اصیل شاعری کے ساتھ ویسے بھی بہت بڑی زیادتی ہے اور اس سے رائے ظاہر کرنے والے کے اپنے اعتبار کو بھی نقصان پہنچتا ہے جبکہ میری رائے کی کچھ ایسی اہمیت بھی نہیں ہے۔
حال ہی میں شاعری کے تین مجموعے موصول ہوئے ہیں یعنی امید محی الدین خواجہ کا ''نقش بر آب رہیں خواہشیں‘‘ شوکت محمود شوکت کا ''رقصِ شرر‘‘ اور عابد سیال کا ''بے ستوں‘‘۔ اول الذکر دونوں حضرات اگر پسند کریں تو جدید غزل کا مطالعہ ان کے لیے سودمند ہو سکتا ہے۔ عابد سیال کی شاعری پر میں مختصر اظہارِ خیال کر چکا ہوں جو محبی افتخار عارف‘ خورشید رضوی اور ناصر عباس نیر کی تحسینی آراء کے ساتھ کتاب کے سرورق پر موجود ہے۔ یہ کتاب نیریٹیو(پرائیویٹ) لمیٹڈ اسلام آباد نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 200 روپے رکھی گئی ہے۔ اس کتاب میں سے آپ کی تسکینِ طبع کے لیے چند شعر:
نگاہ کر انہی تاریکیوں کے موسم میں
یہ روشنی مجھے درکار پھر رہے نہ رہے
دیکھیے کون پہلے ٹوٹتا ہے
کھنچ گیا ہے حصار بھی‘ میں بھی
یہ جان کر ہی تو منزل یہاں بنا لی ہے
کہ اس سے آگے زمیں راستوں سے خالی ہے
ذرا سی اک خوشی کے انتظار میں کھڑے ہوئے
گزر چلی ہے زندگی قطار میں کھڑے ہوئے
کتاب کا مبسوط اور خیال انگیز دیباچہ ہمارے دوست ڈاکٹر ضیاء الحسن نے اور پیش لفظ خود شاعر نے تحریر کیا ہے۔ اس میں متعدد عمدہ نظمیں بھی شامل ہیں۔
بات آب و ہوا سے شروع ہوئی تھی اور اب شاعری کی آب و ہوا پر ہی ختم بھی ہو رہی ہے۔ شاعری کے کوئی موسم نہیں ہوتے کہ یہ آب و ہوا ایک ہی موسم میں جہاں تہاں اپنے اپنے رنگ میں موجود ہوتی ہے‘ البتہ کچھ شاعری ایسی ہوتی ہے جو نئے موسموں کی خبر بھی لاتی ہے جن میں پیڑ پرندے بھی ہوتے ہیں اور کھلی فضا بھی‘ حتیٰ کہ آفاق بھی نئے نئے سے لگتے ہیں اور دنیا کچھ ایسی بے ثبات بھی نظر نہیں آتی۔ وقت رُکتا اور چلتا رہتا ہے‘ اور یہ موسم اور آب و ہوا اس لیے بھی ایک حقیقت ہیں کہ میں ان میں صبح سویرے واک کرتا اور انہیں بسر کرتا ہوں‘ اور خدا کا شکر ادا کرتا ہوں!
آج کا مقطع
شام کی دہلیز سے اترے تو کیا دیکھا، ظفرؔ
پرزے پرزے رات ہے اور پارہ پارہ باغ ہے