تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     19-11-2014

لائیو کا چَسکا

کوئی بھی معاملہ خواہ کہیں سے چلے، گھوم پھر کر لائیو کوریج کی چوکھٹ تک پہنچ کر سُکون کا سانس لیتا ہے۔ لوگوں کو ہر معاملہ لائیو دیکھنے کا ایسا چسکا لگا ہے کہ جب تک کوئی واقعہ لائیو نہ دیکھ لیا جائے، یقین ہی نہیں آتا کہ وہ ہوا بھی ہوگا۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ماضیٔ بعید میں لوگوں کو کسی بھی بات کا براہِ راست مشاہدہ کئے بغیر کیسے یقین آتا ہوگا! 
مُلتان کی ڈسٹرکٹ جیل میں بالی وڈ کی مشہورِ زمانہ فلم ''شعلے‘‘ کا ٹینکی والا سین ایسی پرفیکشن کے ساتھ شُوٹ ہوا کہ قوم حیران رہ گئی۔ قتل کا ملزم غلام محمد جیل کی ٹنکی پر چڑھ گیا اور وہیں ویمین جیل میں قید اپنی گرل فرینڈسے ملاقات کی فرمائش کی۔ فرمائش پوری نہ کئے جانے کی صورت میں اُس نے خود کشی کی دھمکی دی اور خود کو پھندا لگا بھی لیا۔ خیر گزری کہ ریسیکو والے بروقت پہنچے اور اُس سے بحفاظت اُتارا۔ غلام محمد کی فرمائش کا بھرم رکھتے ہوئے گرل فرینڈ لائی گئی۔ غلام محمد نے شکوہ کیا کہ قتل کیس میں اُس کے خلاف گواہی کیوں دی۔ گویا معاملہ خالص نجی اور دوطرفہ تھا۔ چینلز کی مہربانی سے قوم نے یہ تماشا لائیو دیکھا اور رَج کے دیکھا یعنی مزے بھی لیے۔ 
مقاماتِ آہ و فغاں اور بھی ہوں گے مگر یہ کون سا مقام ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ کیا اب اِس قوم کا مقدور یہی رہ گیا ہے کہ ہر معاملے کو تماشے میں بدل کر زیادہ سے زیادہ لذت کشید کی جائے؟ اِس منزل یا کیفیت کو قمر جمیلؔ مرحوم نے یوں بیان کیا ہے ؎ 
اپنی ناکامیوں پہ آخرِ کار 
مُسکرانا تو اختیار میں ہے! 
قوم اب کسی بھی راہ پر محوِ سفر نہیں بلکہ محض چل رہی ہے۔ اور کِس راہ پر چل رہی ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ جب راستے ہی کو سمجھنا ممکن نہیں تو منزل کا کون سوچے اور کیونکر؟ جب لوگ قوم بننے پر توجہ دینے کے بجائے محض گروہوں میں بٹ کر جینے پر بضد ہوں تو ایسے ہی تماشے ہوا کرتے ہیں۔ جنہیں سوچے سمجھے سفر سے غرض نہ ہو اُنہیں کسی نہ کسی ٹرک کی بَتّی کے پیچھے لگادیا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی محض چلتے رہنے کو سفر سمجھ کر خوش ہو رہے تو اُس کی مرضی۔ 
مُلتان کے جیل تماشے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ہم نے سوچنے اور سمجھنے کے عمل کو جبری رخصت پر بھیج رکھا ہے! ہم ہر اُس بات کو گلے لگانے کے لیے بے تاب ہیں جس کا فہم و خرد سے دُور کا بھی تعلق نہ ہو۔ کوشش کی جارہی ہے کہ سوچنے کی زحمت کو زحمتِ کار نہ دی جائے۔ اہلِ وطن کی خواہش سی ہے کہ دِماغ کو کم سے کم استعمال کیا جائے یعنی تقریباً ''ڈبّا پیک‘‘ حالت ہی میں واپس لے جاکر اپنے رب کے حضور پیش کرنے کا ارادہ ہے! ذہنوں میں شاید یہ خوش فہمی جڑ پکڑ چکی ہے کہ دِماغ کو ''ڈبّا پیک‘‘ حالت میں واپس کرنے پر ہم امین ثابت ہوں گے اور امانت داری کے صلے میں بخش دیئے جائیں گے! 
جو ہمیں راہ دکھانے پر مامور ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں ہر وہ راہ دکھائیں جس پر چلنا درحقیقت نہ چلنے کے مترادف ہو۔ یعنی ذہن کی گاڑی کے پچھلے پہیّے گڑھے میں دھنس کر گھومتے رہیں۔ اگر کہیں کوئی شخص کسی سرکاری دفتر کے کلرک یا افسر کے رویّے سے تنگ آکر کسی کھمبے پر چڑھ جائے اور کود کر جان دینے کی دھمکی دے تو انتظامیہ کی کوشش ہوتی ہے کہ لائیو کوریج ہو اور مِنی اسکرین پر یہ تماشا دو ڈھائی گھنٹے تو چلے تاکہ قوم دھندے سے لگی رہے! جن معاملات کا سرسری تذکرہ بھی وقت کا ضیاع ہے اُن پر پوری ''شان و شوکت‘‘ سے متوجہ ہونا چہ معنی دارد؟ یہ کیا زندگی ہے؟ وقت اور توانائی ضائع کرنے میں لذّت کیوں محسوس کی جارہی ہے؟ کیا ہمیں زندگی جیسی نعمت محض اِس لیے دی گئی ہے کہ جی بھر کے ضائع کرتے پھریں؟ 
حماقت کے مظاہر کی لائیو کوریج سے دل بہلانا ہمارے ذہنوں کا کھوکھلا پن ثابت کرتا ہے۔ سبھی اِس بات پر تُلے ہیں کہ اپنے وقت کو رات دن ضائع کریں، دماغ کی واٹ لگائیں اور بربادی کے کھونٹے سے بندھے رہیں! 
ایک زمانہ تھا جب قربانی کے جانور گھمانا بچوں کے لیے تفریح کا درجہ رکھتا تھا۔ اب یہ عمل خیر سے ''ایونٹ کا موقع‘‘ ہے! ایسی بھرپور کوریج ہوتی ہے کہ جانور دیکھ لیں تو اُن کا بھی مَتّھا گھوم جائے۔ اگر کہیں قربانی کی گائے سڑک کے ساتھ واقع کسی خشک برساتی نالے میں گر پڑے تو سمجھ لیجیے چینلز کو مصروفیت مل گئی۔ آن کی آن میں ڈی ایس این جیز کی لائن لگ جاتی ہے۔ ہر چینل اِس ''ایونٹ‘‘ کو لائیو دکھانا چاہتا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں پورا علاقہ میلے کا سماں پیش کرنے لگتا ہے۔ اہل علاقہ کو گھر بیٹھے تفریح میسر ہوجاتی ہے۔ گائے کو نکالنے کی کوشش بھی کیجیے تو میڈیا والوں کی مجبوری سامنے آجاتی ہے یعنی گائے کچھ دیر اور نالے میں پڑی رہنے دی جائے تاکہ دیگر چینلز بھی اچھی طرح لائیو کوریج دے کر اپنی ریٹنگ کم از کم نصف گھنٹے کے لیے تو بہتر بناسکیں! 
قوم کو سب کچھ لائیو دیکھنے کی ایسی عادی ہوچکی ہے کہ اگر کہیں کسی بازار میں میاں بیوی میں شاپنگ کے حوالے سے جھگڑا ہوجائے تو بھی چینل والے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے پَھڈّے جتنی تیزی سے شروع ہوتے ہیں اُتنی ہی تیزی سے ختم بھی ہوجاتے ہیں۔ اگر معاملہ سَرد پڑچکا ہو تب بھی خواہش ہوتی ہے کہ ری ٹیک ہوجائے تاکہ ناظرین محروم نہ رہیں! 
ہم نے چینلز پر گھریلو جھگڑوں کے بھی ٹِکرز دیکھے ہیں۔ کہیں میاں بیوی میں لڑائی ہوئی۔ میاں نے بیوی کو گھر سے نکال دیا یا بیوی نے بیلن دے مارا جو میاں کے سَر پر لگا۔ بس، اِتنا ہی کافی ہے۔ اِسی کو تو ''ایونٹ‘‘ کہتے ہیں! آن کی آن میں میڈیا کے نمائندے ''اسپاٹ‘‘ پر پہنچتے ہیں۔ تب تک میاں بیوی میں صُلح بھی ہوچکی ہو تب بھی کچھ نہ کچھ سُن گُن لینے کی بھرپور کوشش ہوتی ہے تاکہ ناظرین کچھ تو ''اپ ڈیٹ‘‘ ہوں! مگر چینلز کیا صُلح دکھانے کے لیے قائم کئے گئے ہیں؟ ارے بھائی، کچھ لڑو بِھڑو تو بات بنے۔ 
قوم کو طرح طرح کے چسکے لگے ہوئے ہیں۔ جب لَذّت کشید کرنا ہی ٹھہرا تو معیار کا کون سوچے؟ ہر معاملے کو لائیو دیکھنا ایسا چسکا ہے جو قوم کے منہ کو خُون کی طرح لگ چکا ہے۔ اگر کہیں کوئی معمولی سا بھی خلافِ معمول واقعہ رونما ہو تو ذمہ داروں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں۔ بے چارے شہر کے ایک سِرے سے دوسرے سِرے کی طرف بھاگتے دکھائی دیتے ہیں۔ گیس سلنڈر کا دھماکا بھی ہو تو چینلز کی گاڑیاں ذرا سی دیر میں سڑکوں پر دوڑتی دکھائی دیتی ہیں۔ ''اسپاٹ‘‘ پر پہنچ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ع 
خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا، جو سُنا افسانہ تھا!
جاں فِشانی سے پہاڑ کھود جائیے مگر نکلتا ہے چُوہا۔ پھر کوشش ہوتی ہے کہ اِس چُوہے کو شیر بناکر پیش کیا جائے! یہ سب کب ختم ہوگا، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ ہاں، یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ جب تک یہ سب ختم ہوگا تب تک ہم ضرور ختم ہوچکے ہوں گے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved