تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     20-11-2014

کھڑی نیم کے نیچے ہوں…

واقعی وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ قصوروار نہیں‘ ان کی کابینہ اور انتظامیہ بھی نہیں۔ انہوں نے وہی کہا جو سندھ کے اصل حاکموں‘ اسلام آباد اور کراچی میں حکمرانی کے مزے لوٹنے والے جاگیرداروں‘ وڈیروں‘ میروں‘ پیروں‘ مخدوموں‘ لٹیروں اور سرمایہ داروں کی سوچ ہے اور عوام دشمن 'آدم خور‘ سیاسی و انتظامی ڈھانچے کا معمول۔ 
ان کے نزدیک تھر میں قحط نئی بات ہے نہ 95 بچوں کی اموات اور نہ مہلک بیماریاں‘ غذائی قلت اور انسانوں کے ساتھ چرند پرند کی ہلاکت انوکھا واقعہ۔ 2008ء میں بدترین قحط پڑا‘ 2014ء کے اوائل میں اس کا اعادہ ہوا تین ماہ میں دو سو افراد جاں بحق اور ہزاروں جانور اونٹ‘ گائیں‘ بکریاں‘ بھیڑیں‘ مور‘ تلور‘ عقاب‘ ہرن‘ تیتر بھوک پیاس سے مر گئے مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگی۔ میڈیا شور مچاتا رہ گیا اور مخالفین وفاقی و صوبائی حکومت کو کوسنے دے کر خاموش ہو گئے۔ 
صدیوں قبل ریاست مدینہ کے حکمران حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا ''اگر دجلہ کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو میں جوابدہ ہوں گا‘‘۔ جدید‘ مہذب اور جمہوری معاشرے کی تشکیل میں مصروف سندھ کے وزیراعلیٰ کی رائے ہے کہ تھر میں بچوں کی ہلاکتیں نئی بات نہیں‘ بچے پہلے بھی فوت ہوتے تھے‘ نقل مکانی بھی ہوتی رہتی ہے‘ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ واقعی سلطانیٔ جمہور میں یہ کوئی نئی بات نہیں۔ 
امیر المومنین عمرؓ مدینہ منورہ کی گلی سے گزر رہے تھے‘ حجاز میں قحط پڑا تھا اور امیر المومنینؓ گھر بار چھوڑ کر قحط زدگان کی خدمت میں مصروف تھے‘ ایک کمسن‘ نحیف‘ لاغر بچی کو دیکھا کہ کونے میں گُم صُم بیٹھی ہے۔ ساتھی سے پوچھا یہ بچی کون ہے اور اتنی کمزور کیوں؟ کیا بیت المال سے اسے کھانے کو کچھ نہیں مل رہا؟ 
ساتھی نے عرض کیا آپ ریاست کے شہریوں کی فکر میں اس قدر غلطاں ہیں کہ اس معصوم بچی کو پہچان نہیں پائے یہ آپ کی پوتی ہے۔ بھوک نے اس کے خدوخال بدل ڈالے ہیں کیونکہ اسے بھی بیت المال سے اتنا ہی ملتا ہے جتنا مدینہ‘ تبوک‘ یمن کے دیگر شہریوں کو۔ سولہ لاکھ مربع میل کے حاکم نے نمناک آنکھوں سے بچی کو دیکھا‘ سر پر ہاتھ پھیرا‘ پیار کیا اور آگے بڑھ گئے اور اس وقت تک چین سے نہ بیٹھے جب تک قحط سالی کا خاتمہ نہ ہوا۔ قحط سالی کے دوران آپؓ نے کھانے پینے کی اشیاء چوری کرنے والوں کے 
لیے شرعی سزا (حد) ساقط کردی۔ 
تھر تاریخی علاقہ ہے‘ سکندراعظم سے لے کر سلطان محمود غزنوی تک فاتحین کی گزرگاہ۔ سندھ کی لوک گلوکارہ مائی بھاگی اسی تھر سے تعلق رکھتی تھی اور اپنی پُرتاثیر صحرائی آواز میں پورے پاکستان کو تھر کا دکھڑا سناتے رخصت ہو گئی ؎ 
کھڑی نیم کے نیچے ہوں تو ہیکلی 
جا توڑا وٹارئو‘ مناں چھنی سنی دیکھ لے 
(میں نیم کے درخت تلے اکیلی کھڑی ہوں۔ راہ گیرو میری اُداسی‘ پریشانی کا حال راز میرے محبوب تک پہنچا دو خدا کے لیے) 
آمری کا تاریخی قبرستان سلطان محمود غزنوی کے لشکریوں کی آخری آرام گاہ ہے۔ ایک روایت کے مطابق سومنات کی فتح کے بعد سلطان واپس روانہ ہوا تو تھر میں سومنات کے پجاریوں نے لشکر کو راہ سے بھٹکا دیا۔ تھکاوٹ‘ بھوک‘ پیاس اور امراض کے باعث شاہی لشکر کے بیشتر سپاہی لقمہ اجل بن کر اسی قبرستان میں دفن ہوئے۔ 
تھر میں ہر سال مخصوص مقدار میں بارشیں نہ ہوں ٹوبھے نہ بھریں اور صحرا کی پیاس نہ بجھے تو نہ صرف خشک سالی پنجے گاڑتی ہے بلکہ زیر زمین پانی کی سطح مزید گہری اور کھارے پن میں بڑھوتری ہو جاتی ہے۔ یہاں میٹھا پانی صرف سرکاری ملازمین کو دستیاب ہے جو ٹینکروں کے ذریعے نوکوٹ سے لایا جاتا ہے۔ پانی کے کنوئیں نجی ملکیت میں ہیں اور ایک مشکیزہ سو روپے میں بکتا ہے۔ 
ہمارے صحافی دوست سعید خاور نے اپنی کتاب ''پیاس و افلاس کے صحرا‘‘ میں جو شولال کی زبانی ایک دلخراش واقعہ لکھا ہے ''چھاچھرو سے کوسوں دور ایک گائوں کے چودہ پندرہ سالہ لڑکے سے بوڑھے والدین اور چھوٹے بہن بھائیوں کی پیاس دیکھی نہ گئی تو وہ بھوکا پیاسا اپنا گدھا لے کر پانی کی تلاش میں نکلا۔ تین چار روز بعد اس کا سراغ کوسوں دور ملا۔ گدھے پر پانی کے دو مشکیزے لدے تھے اور نوجوان ریت سے قدموں کے نشان مٹ جانے کے سبب واپسی کا راستہ بھول کر موت کے منہ میں چلا گیا تھا۔ اس پانی سے میت کو غسل دے کر موقع پر دفن کردیا گیا‘‘۔ 
تھر اس لحاظ سے بدنصیب ہے کہ یہاں کے ارباب اور رانے ہر فوجی اور سیاسی حکومت کا حصہ رہے۔ ارباب غلام رحیم تو وزیراعلیٰ سندھ کے منصب پر فائز ہوئے۔ امریکہ پلٹ شوکت عزیز نے یہاں سے ضمنی الیکشن لڑا مگر کسی نے عوام کی قسمت بدلنی تھی نہ بدلی۔ یہاں جاگیرداروں‘ وڈیروں کی نجی جیلیں قائم ہیں‘ ہاریوں کے بیگار کیمپ اور بنیا سسٹم جو ادھار اور سود کے شکنجے میں ہر ہاری کو جکڑ کر ان کا خون چوستا ہے۔ بیگار کیمپوں میں خواتین کی جبری آبرو ریزی ہوتی ہے۔ مقروض ہاریوں کا کوئی پرسان حال نہیں کیونکہ پولیس اور انتظامیہ وڈیروں کی تابعدار ہے اور وفاقی و صوبائی حکومتیں ان کی سرپرست۔ صرف محمد خاں جونیجو مرحوم نے اس علاقے کے لیے کچھ نہ کچھ کیا۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ 
یہاں ہرن‘ تیتر‘ مور‘ عقاب‘ تلور اور دیگر کئی اقسام کے نایاب پرندے اور جانور پائے جاتے ہیں جو جاگیرداروں اور وڈیروں کا مرغوب شکار ہیں جبکہ سانپوں کی خطرناک اقسام کے حوالے سے یہ خطہ دنیا بھر میں مشہور ہے یہاں ''پئن بلا‘‘ نام کا ایک خطرناک سانپ پایا جاتا ہے جو ڈستا نہیں سوئے آدمی کے منہ میں پھونک مارتا اور چوبیس گھنٹے میں ملک عدم پہنچا دیتا ہے۔ 
1899ء میں تھر کو خشک سالی اور قحط نے آ گھیرا تو غاصب اور قابض انگریز حکمرانوں نے مٹھی میں بیٹھ کر فرائی مچھلی‘ ملائی بوٹی‘ کوفتے اور بریانی کے مزے اڑانے اور لاڑکانہ میں سندھ فیسٹیول رچا کر پانچ ارب روپے کی خطیر رقم سے راگ‘ رنگ‘ ناچ‘ گانے کے علاوہ حکمرانوں کے بچوں کی ذاتی تشہیر کا اہتمام نہ کیا بلکہ فوری امدادی سرگرمیوں کا حکم دیا۔ تھر میں عوام کے مصائب کم کیے اور صحرائے تھر کو پانی کی مستقل فراہمی کے لیے منصوبہ بندی کی چنانچہ کثیر سرمائے سے جمڑائو کینال تعمیر ہوئی جو ایک صدی بعد بھی فراہمی آب کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ قیام پاکستان کے بعد ایسی کوئی نہر تعمیر نہیں ہوئی۔ 
جنرل پرویز مشرف کے دور میں فارن فنڈڈ این جی اوز نے جنم لیا تو ان میں سے بعض نے صحرائے تھر میں بھی قدم رنجہ فرمایا۔ عوام کے دکھ درد‘ ابتلا و مصائب کو دنیا بھر میں مشتہر کر کے لاکھوں ڈالر بٹورے‘ اپنی تجوریاں بھریں اور جابجا کارناموں کے بورڈ لگا کر غائب۔ بارشی پانی کا کوئی ٹوبہ‘ میٹھے پانی کا کوئی کنواں‘ کسی نہر کی تعمیر یا سکول و مرکز صحت کا قیام‘ کوئی ایک منصوبہ کسی کے کریڈٹ پر نہیں۔ البتہ ہاریوں کی مدد کی پاداش میں آزاد ہاری یونین کے رہنما ماسٹر لال جی کو عیسائی مشنری تنظیم نے ملازمت سے برخاست کردیا۔ 
مارچ 2014ء میں میڈیا کے شور مچانے پر وفاقی اور صوبائی حکومت نے انگڑائی لی پنجاب حکومت نے بھی امداد کی پیشکش کی مگر پھر سب لمبی تان کر سو گئے۔ میاں نوازشریف اندرونی و بیرونی دوروں میں مصروف ہو گئے‘ قائم علی شاہ اپنی کابینہ سمیت آصف علی زرداری کی چاپلوسی اور بلاول بھٹو کی مٹھی چاپی میں مشغول اور انتظامیہ حسب عادت اعلان کردہ منصوبوں سے جھولیاں بھرنے میں مگن‘ یوں دیکھتے ہی دیکھتے 95 معصوم بچے غذائی قلت اور بیماریوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ جب تک فراہمی آب‘ نقل و حمل کے جدید ذرائع‘ بجلی‘ مویشیوں کے لیے چارے اور تعلیم و صحت کی مستقل سہولتوں کا بندوبست نہیں ہوتا خشک سالی‘ قحط اور وبائی امراض سے تھری عوام نجات نہیں پا سکتے۔ دو چار دن کی بھاگ دوڑ‘ دلاسے اور خوشنما وعدے ان کے لیے نئی بات نہیں۔ 
تھر کے ''پئن بلا‘‘ صفت سیاسی وڈیروں نے ہمیشہ خوشنما وعدوں کی پھونکوں سے تھری عوام کو غربت‘ افلاس‘ جہالت‘ ناخواندگی‘ خود فراموشی اور تذلیل و رسوائی کے گھاٹ اُتارا ہے ؎ 
ڈکھڑے ڈکھڑے پایم پکھڑے 
دلڑی دردیں ماری بھلو 
ککڑے‘ کنڈڑے‘ روہ جبل دے 
اوکھے پینڈے مارُو تھل دے 
سولیں ساڑی ماری بھلو 
(خواجہ فریدؒ) 
(میری قسمت میں درد و الم سہی‘ موسم بدلتے ہی میرے جھونپڑے زمین بوس ہو گئے۔ تالاب خشک اور دکھوں نے گھیر لیا۔ میری راہوں میں کنکر کانٹے ہیں تھر (تھل) کا سفر اور میری زندگی پُرآشوب ہے اس تکلیف دہ زندگی سے میں ہار گئی) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved