تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     20-11-2014

اللہ بس‘ باقی ہوس

کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا۔ وہی جملہ‘ جو ایسے موقع پر ہمیشہ کہا جاتا ہے؛ اگرچہ غور کم ہی کیا جاتا ہے۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اللہ بس‘ باقی ہوس! 
جناب سرتاج عزیز کو کیا ہوا؟ پرویز رشید تو نہیں‘ وہ ایک دانا و بینا آدمی ہیں۔ وہ آدمی جو ملک کا وزیر خزانہ اور وزیر خارجہ رہا۔ جو معیشت کے اسرار و رموز سے آشنا ہے‘ سفارت کاری اور سیاست سے بھی۔ ایک ممتاز یونیورسٹی کا وائس چانسلر اسے بنایا گیا تو کوئی انگلی نہ اٹھی‘ پھر ایسی بات اس نے کیوں کہہ دی؟ صرف بے محل ہی نہیں بلکہ واقعاتی طور پر بھی غلط۔ زندگی نہیں بدلتی مگر زمانہ بدل جاتا ہے‘ پرانے انداز اور قرینے رخصت ہوتے ہیں۔ افراد کی طرح اقوام بھی اپنی ترجیحات تبدیل کرتی رہتی ہیں۔ صرف حکمت عملی نہیں‘ ترجیحات۔ 
اڑھائی تین برس ہوتے ہیں‘ جب پاک فوج نے دہشت گردی کے باب میں ایک جست بھری اور یہ طے کیا کہ دہشت گردی کی ہر شکل کو بیخ و بن سے اکھاڑ دینا چاہیے۔ مالک نے زندگی کو تنوع اور کشمکش میں برپا کیا ہے۔ حادثات‘ بڑے اور چھوٹے حادثات اس لیے رونما ہوتے ہیں کہ ان سے سبق سیکھا جائے۔ حکمت کار وہ شخص ہوتا ہے‘ جو وقت اور زمانے سے آگے بڑھ کر سوچتا ہے۔ آنے والے کل کے بارے میں۔ ربع صدی ہوتی ہے جنرل اختر عبدالرحمن کے ایک رفیق سے میں نے پوچھا: ان کی غیر معمولی کامیابی کا راز کیا تھا۔ انہیں عظیم حکمت کار Super strategist کیوں کہا گیا؟ کچھ اور نکات بھی انہوں نے بیان کیے اور سب اپنی جگہ اہم مگر ایک بڑی حیران کن بات کہی۔ بولے: اپنے حریفوں سے‘ وہ ایک قدم آگے رہا کرتے۔ ضروری نہیں کہ اس رائے سے سبھی اتفاق کریں۔ باریک بینی سے‘ سائنسی اور علمی نقطہ نظر سے اس عہد کا تجزیہ کرنا مگر باقی ہے‘ جو افغانستان میں روسی افواج کی آمد سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔ 
ہم اپنے تعصبات کے اسیر ہیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے مخالفین کی مانیے تو‘ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اب تک بنی نوع انسان کو جتنے بحران درپیش ہوئے‘ اس کا ذمہ دار 1977ء میں برسر اقتدار آنے والا فوجی حکمران تھا۔ ان کے مداحوں کی سنیے تو ان میں سے بعض مرحوم کو سلطان صلاح الدین ایوبی سمجھتے ہیں۔ معاملے کی حقیقت درمیان میں کہیں خفتہ ہے اور ایک مورخ کے انتظار میں ہے۔ اپنا حکم وہ تب لگائے گا‘ جب عصر رواں کے تعصبات کی گرد بیٹھ چکی ہوئی۔ 
سرکارؐ کے ارشادات میں سے ایک یہ ہے: لوگوں کا حال یہ ہے کہ جیسے سو گھوڑے ہوں مگر سواری کے قابل ان میں سے ایک بھی نہ ہو۔ ازل سے آدمی کا المیہ یہ ہے کہ حقیقی علم کا حصول تو کیا‘ اس کی آرزو سے بھی وہ گریزاں رہتا ہے۔ عاقبت نااندیش‘ جسے قرآن کریم ''ظلوماً جہولا‘‘ کہتا ہے۔ اس کی توانائی وقتی اور سطحی مفادات کی نذر ہوتی رہتی ہے۔ جن لیڈروں کو نابغہ سمجھ کر‘ ہم ان سے تقدیر بدلنے کی امید وابستہ کر لیتے ہیں‘ قریب سے انہیں دیکھیے تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہ بھی مجبوریاں پالتے ہیں۔ اپنی بقا کی جنگ لڑتے ہیں۔ گاہے‘ ان کے فیصلے بالکل ہی وقتی مفادات کے تابع ہوتے ہیں۔ درویش نے کہا تھا: خلق سے جب معاملہ ہو تو اپنی ذات کو نظرانداز کر دینا چاہیے اور جب اللہ سے تو مخلوق کو درمیان سے نکال پھینکنا چاہیے۔ یعنی فقط ذاتی اور اجتماعی زندگی تشکیل دینے والے قدرت کے قوانین کو ملحوظ رکھنا چاہیے۔ 
27 دسمبر 1979ء سے افغانستان میں شروع ہونے والے بحران اور اس کے نتیجے میں‘ دہشت گردی کی جنگ کے بارے میں اس قدر جذباتیت کا مظاہرہ پیہم کیا گیا کہ صداقت کی تلاش گاہے‘ بھوسے کی ڈھیر میں سوئی تلاش کرنے ایسی مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ روّیہ مستقل ہوتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر اچھے بھلے پڑھے لکھے لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی تشکیل آئی ایس آئی کا کارنامہ ہے‘ جنرل محمد ضیاء الحق کے حکم پر۔ ایم کیو ایم کے حسن و قبح سے بحث نہیں۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ایک فوجی حکمران‘ عشروں تک برقرار رہنے والی ایک سیاسی تحریک پیدا کر سکے؟ 
آج کا واقعہ ایک دوسری مثال ہے۔ عمران خان نے جب یہ کہا کہ سندھ کے لوگوں کو غلام بنا دیا گیا ہے۔ سارا دن پیپلز پارٹی کے لیڈر اس پر چیخ و پکار کرتے رہے۔ کیا یہ واقعہ نہیں کہ اس بدقسمت صوبے میں ایک عام دیہاتی کی زندگی‘ حیران کن تک جبر کا شکار ہے۔ رلا دینے والی غربت‘ تعلیم اور انصاف سے وہ یکسر محروم ہیں۔ جاگیرداروں کا ہولناک تسلط۔ کیا یہ غلامی ہی کی ایک شکل نہیں؟ ذوالفقار مرزا ایسے بارسوخ آدمی کو دھرنا دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ صدیوں سے جاری اس ظلم سے توجہ ہٹانے کے لیے سندھ کی عظمت کے پرچم لہرائے گئے۔ عمران خان کی سیاست سے کسی کو اتفاق ہو یا اختلاف‘ کیا اس ہولناک غربت اور جہالت کا ذمہ دار وہ ہے؟
جناب سرتاج عزیز کا ذکر تھا اور دہشت گردوں کے باب میں پاکستان کی پالیسی کا۔ امریکہ میں بری فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کا اگر تپاک سے خیر مقدم کیا گیا۔ اگر انہیں لیجنڈ آف میرٹ کا اعزاز دیا گیا۔ ضرب عضب کی اگر ستائش کی گئی تو اس کا سبب کیا ہے؟ اگر پالیسی وہی ہوتی‘ جو خارجہ امور کے بزرگ مشیر کی گفتگو میں جھلکتی ہے تو ایسا تپاک اور اعزاز و اکرام کیا‘ سرے سے جنرل کو امریکہ مدعو ہی نہ کیا جاتا اور وہ بھی ایسے طویل دورے کے لیے۔ 
پاکستان کا کوئی حکمران اور پاک فوج کا کوئی جنرل دہشت گردوں کا کبھی حامی نہ تھا؛ البتہ ان میں سے بعض ذہنی الجھائو میں ضرور مبتلا تھے۔ چہار طرف سے درپیش دبائو میں یکسوئی سے محروم۔ جیسا کہ شاعر افتخار عارف نے کہا تھا: کہانی خود نہیں الجھی بلکہ الجھائی گئی ہے۔ متصادم اور مخالف سیاسی و مذہبی قوتیں اور ان کے چیختے دھاڑتے ہوئے لیڈر۔ ایک خاص مکتب فکر کی سیاسی پارٹیوں کا تو ذکر ہی کیا‘ ابھی کل تک میاں محمد نواز شریف اور عمران خان بھی کنفیوژن کا شکار تھے۔ خیال کیا‘ انہیں یقین تھا کہ دہشت گردوں سے نتیجہ خیز مذاکرات ممکن ہیں۔ محض امریکہ اور اس کے پروردہ قرار دیے جانے والے جنرل پرویز مشرف سے نفرت ہی واحد سبب نہ تھا‘ یہ ہولناک مغالطہ بھی کہ اللہ کے نام پر جہاد کرنے والے‘ کسی نہ کسی درجے میں‘ کسی نہ کسی سطح پر صداقت کے امین لازماً ہوں گے۔ تاریخ کا سبق مختلف ہے‘ نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم جسے ایک شاعر کے حوالے سے بیان کیا کرتے۔ 
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی 
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بولہبی 
تاریخ میں بدترین مظالم‘ بہترین نظریات کے نام پر کیے گئے۔ انسانی مساوات کے نام پر کمیونسٹ ملکوں میں کیا ہوا؟ گزشتہ تین صدیوں میں مذہب کے نام پر اپنی تلواریں بے نیام کرنے والے خدا کی مخلوق سے کیا سلوک کرتے رہے؟ مولانا شبیر احمد عثمانی نے جب یہ کہا تو ایک عظیم صداقت کا اظہار کیا تھا: قائد اعظم بیسویں صدی کے سب سے بڑے مسلمان تھے۔ مدتوں اس ناچیز نے ان کی سیرت پر غور کیا۔ وہ ایک متوکّل مسلمان تھے۔ اس لیے کبھی وہ خوف زدہ نہ ہوئے۔ اسی لیے ان کا رزق ہمیشہ اجلا تھا۔ اس لیے وہ کبھی ذرا سی غلط بیانی اور ذرا سی خیانت کے مرتکب بھی نہ ہوئے۔ ہمیشہ سچ بولا‘ ہمیشہ امانت دار رہے۔ لیڈر کو اس کے فہم اور اظہار میں بھی دیکھا جاتا ہے‘ مگر اس سے زیادہ اس کے کردار میں۔ پروپیگنڈے کے مارے اذہان ایسا کبھی نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے اپنے تعصبات سے اوپر اٹھنا پڑتا ہے۔ 
جناب سرتاج عزیز کا قصہ پھر درمیان میں رہ گیا۔ ان کی لیاقت میں کوئی شبہ نہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وہ بوڑھے ہو گئے۔ ایسا آدمی جو گزرے ہوئے کل میں زندہ رہتا اور گفتگو میں گاہے ربط کا اہتمام بھی کر نہیں سکتا۔ عمر کے اعتبار سے ان کی صحت ماشاء اللہ اب بھی اچھی ہے مگر اب وہ نازک انتظامی ذمہ داریوں کے اہل شاید نہیں رہے۔ کوئی بھی ناگزیر نہیں ہوتا۔ وہی جملہ‘ جو ایسے موقع پر ہمیشہ کہا جاتا ہے؛ اگرچہ غور کم ہی کیا جاتا ہے۔ قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے پڑے ہیں۔ اللہ بس‘ باقی ہوس!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved