پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ
بننے والے شدت پسندوں کو کیوں
نشانہ بنائیں:سرتاج عزیز
وزیر اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و خارجہ امور سرتاج عزیز نے کہا ہے کہ ''پاکستان کی سلامتی کے لیے خطرہ نہ بننے والے شدت پسندوں کو کیوں نشانہ بنائیں؟‘‘ ہو سکتا ہے وہ ہمارے مدد گار رہے ہیں اور حالیہ الیکشن میں بھی انہوں نے کوئی چمتکار دکھایا ہو۔ انہوں نے کہا کہ '' حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کا حصہ ہے‘ افغانستان ان سے خود مذاکرات کرے‘‘ کیونکہ ہمارا بھی یہی مسلمہ اصول ہے کہ'' جٹ جانے اور بجّو جانے‘‘ نیز یہ کہ ہم اپنے پسندیدہ دہشت گردوں ہی کے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم انہیں قائل کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ہمارے ان سے پہلے جیسے تعلقات نہیں‘‘ کیونکہ ہماری مرضی کے خلاف ہی ان کے خلاف آپریشن شروع کر دیا گیا اور ہم ہکا بکا رہ گئے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں بی بی سی سے بات چیت کر رہے تھے۔
ایم کیو ایم کو بلاول کی بات کا برا نہیں
منانا چاہیے تھا... آصف زرداری
پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے
کہاہے کہ ''ایم کیو ایم کو بلاول کی بات کا برا نہیں منانا چاہیے تھا‘‘ کہ وہ ابھی بچہ ہے اور صرف میری بتائی ہوئی باتوں پر ہی عمل کرتا ہے۔ کیونکہ ابھی وہ خود بات کرنے کے قابل نہیں ہوا اور فی الحال اسے اس کی ضرورت بھی نہیں ہے ‘ ویسے بھی جو بات میں خود کہنا نہیں چاہتا وہ برخوردار کی زبانی سے کہلا دیتا ہوں تاکہ معرفت کے اس راز کو وہ بھی اچھی طرح سمجھ جائے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہم نواز شریف کی نہیں‘ جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں‘‘ جس کی دعا برکت سے ماشاء اللہ اتنے اثاثے دونوں فریقوں نے بنا لیے ہیں کہ اکثر اوقات ان کا حساب کتاب بھی نہیں لگایا جا سکتا۔ اس لیے روزانہ سونے کا انڈہ دینے والی اس مرغی کی جتنی بھی حفاظت کی جا سکے کم ہے؛ چنانچہ جمہوریت کی اس حمایت کی وجہ سے برادر بزرگ میاں نواز شریف صاحب کی خدمت بھی اپنے آپ ہی ہو رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''ایم کیو ایم کے لیے دروازے کھلے ہیں‘‘ جن میں وہ داخل بھی ہو سکتی ہے اور اسی سہولت سے واپس بھی جا سکتی ہے۔ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔
میڈیا پر الزامات
صحافیوں کے معتبر ادارے پی ایف یو جے کے عہدیداران نے اخباری اطلاعات کے مطابق ‘ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تین روز کے اندر اندر صحافیوں پر لگائے گئے کرپشن کے الزامات کا ثبوت پیش کریں یا اپنا بیان واپس لے کر معافی مانگیں ورنہ وہ ان کے خلاف قانونی کارروائی اور احتجاج کریں گے۔اصولی طور پر ثبوت کے بغیر کسی پر الزام لگا دینا انتہائی نامناسب ہے‘ اگرچہ عمران خان نے عمومی بات کی تھی اور اس سلسلے میں کسی صحافی کا نام نہیں لیا تھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ سفید کالر جرائم کا کوئی ثبوت ہوتا ہی نہیں اور سب کچھ میز کے نیچے ہی طے کر لیا جاتا ہے۔ بنظرِانصاف دیکھا جائے تو ہمارے ہر ادارے میں کالی بھیڑوں کے وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا جہاں تک نام لینے کا تعلق ہے تو انہیں ایک دنیا جانتی بھی ہے ‘ ہمیں جرأت سے کام لیتے ہوئے خود ان کی نشاندہی کر کے ادارے کو ان سے پاک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ جس میں پی ایف یو جے خود ایک ٹھوس کردار ادا کر سکتی ہے۔
کشمیر کے بغیر
بھارت میں پاکستانی ہائی کمشنر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر کو باہمی تجارت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ بھارت بھی یہی کہتا ہے اور اس طرح سے ہم اور بھارت ایک ہی صفحے پر جلوہ آرا نظر آتے ہیں اور کشمیر کے بارے میں ہم وقتاً فوقتاً جو روایتی بیانات دیتے رہتے ہیں، جن میں حال ہی میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں وزیر اعظم پاکستان کی کشمیر کے بارے میں تقریر بھی شامل ہے‘ محض لیپا پوتی اور الغرضی کا مظاہرہ ہے اور جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بھارت اس مسئلے پر ہم سے بات بھی کرنے کو تیار نہیں ہے اور اگر وہ کمال مہربانی کرتے ہوئے مذاکرات کا تکلف روا رکھے بھی تو اس کا مقصد محض وقت گزاری کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور صاحب موصوف کے مذکورہ بالا بیان کی روشنی میں جناب سرتاج عزیز کا یہ ارشاد کہ اب مذاکرات کے لیے بھارت ہی پہل کرے گا‘ ہم نہیں‘ ایک مذاق ہی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ لطف یہ ہے کہ ہم کشمیر میں استصواب رائے کے مطالبے سے ایک لحاظ سے پہلے ہی دست بردار ہو چکے ہیں اور اب اس میں دوبارہ جان ڈالنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔اور یہ مذاکرات بھی اسی طرح کے ہیں جو آج کل حکومت اور عمران خان کے درمیان ہو رہے ہیں اور جن میں حکومت مسئلہ کشمیر کے بھارت جیسے رویے کی مثال پیش کر رہی ہے اس سلسلے کی بہت بڑی پسپائی کا مظاہرہ اس وقت ہوا جب بھارت کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا کہ یہ دونوں ملکوں کا باہمی مسئلہ ہے، جسے یہ بات چیت سے حل کر لیں گے اور اس طرح اقوام متحدہ کی قرار داد کو عملاً بے اثر کر کے رکھ دیا گیا ۔ چنانچہ اب یہ کھیل عرصہ دراز سے جاری ہے جو کبھی کسی نہ کسی بہانے بند کر دیا جاتا ہے اور کبھی پھر چیونٹی کی چال چلنے لگتا ہے۔ اس لیے بہتر ہے کہ یہ دو گوئی ترک کر کے کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے اور پانی کے معاملے کی طرح اس موضوع کو بھی ٹھپ کر کے بھارت کو انتہائی قریبی دوست کا درجہ دے کر تجارت کی دھوم مچانی شروع کر دینی چاہیے،جس میں بھی ہم ہی خسارے میں رہتے ہیں۔
آج کا مقطع
گرچہ بے سُود ہے‘ مصروف تو رکھتی ہے‘ ظفرؔ
یہ محبت جو ابھی اُس سے چھپائی ہوئی ہے