تحریر : ارشاد احمد عارف تاریخ اشاعت     21-11-2014

شامتِ اعمال

آدمی تھر میں معصوم اور کمسن بچوں کی ہلاکت کا رونا کیا روئے‘ غذائی قلت کی وجہ سے مائوں کی چھاتیوں میں دودھ نہ اترنے اور بھوک پیاس سے نڈھال بچوں کو بروقت طبی امداد نہ ملنے پر صاحب اولاد آہ و زاری کیا کرے‘ جب پاکستان کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ‘ متمول اور جدید طبی و تعلیمی سہولتوں سے آراستہ صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا کے ہسپتال میں آٹھ معصوم بچے آکسیجن نہ ملنے کے سبب دم توڑ دیں اور عوام کو حسب عادت و دستور یہ مژدہ سنایا جائے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لے لیا۔ پھر تھر کا کیا مذکور جو اسلام آباد سے ہزاروں کوس دور بے آب و گیاہ علاقہ ہے 
بچّہ ‘ انسان تو کیا کسی جانور کا بھی ہو تو ہر ایک کو پیار ا لگتا ہے۔ ہر گھر‘قوم‘ مذہب‘ معاشرے‘ قبیلے اور ریاست میں بچہ اپنا ہو یا پرایا‘ توجہ کا مرکز ہوتا ہے اور ماں باپ کے دل کا سرور‘ آنکھ کا نور۔ کوئی شقی القلب ہی معصوم بچے کو تکلیف میں دیکھ کر پُرسکون رہ سکتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ریاست اور حکومت اپنے شہریوں کو اولاد سمجھتی اور ماں کا پیار دیتی ہے مگر ہمارے ہاں حکمران جس نسل‘ قبیلے‘ اور علاقے کے ہوں عموماً اپنے شہریوں سے ڈائن نہ سہی‘ سوتیلی ماں کا سلوک کرتے ہیں؟ شہریوں میں مردوزن کی تفریق ہے نہ بڑے چھوٹے کی۔ معصوم بچے ہسپتالوں میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے دم توڑ دیں تو سال ہاسال سے قوم کو تعلیمی و طبی سہولتوں کا مژدہ سنانے اور ملک کو ہمدوشِ پیرس و استنبول کرنے کے دعویدار حکمرانوں کے بارے میں کیا کہا جائے۔ ڈائن یا سوتیلی ماں۔ مگر کیا سارا قصور حکمرانوں کا ہے۔
صرف پاکستان کیا ہم سارے مسلمان ہی عجیب لوگ ہیں۔ خواہشات ‘ دعوے اور توقعات دیکھو تو مائونٹ ایورسٹ سے بلند‘ عمل اور کردار کی کسوٹی پر پرکھو تو پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے۔
صدیوں سے ہر مردو زن‘ بچے‘ بوڑھے کے دل و دماغ میں یہ خواہش موجزن ہے کہ ہمارے حاکم اور عمالِ ریاست اگر عمر بن الخطاب ؓ نہیں توعمر بن عبدالعزیزؓ اور صلاح الدین ایوبیؒ ضرور ہوں ۔ امیر غریب شہریوں کے دکھ درد بانٹنے‘ ہر ایک کو بلا تمیز و تفریق تعلیم‘ صحت ‘ روزگار ‘ خوراک اور رہائش کی سہولتیں فراہم کرنے‘ خاندانی مال و دولت ضرورت مندوں پر لٹانے ‘ راتوں کو گلی کوچوں میں گھوم کر شہریوں کی دیکھ بھال کرنے اور قومی وسائل کو امانت و دیانت کے ساتھ‘ جزرسی کے ساتھ خرچ کرنے والے مظلوموں کے لیے بریشم کی طرح نرم اور ظالموں کے لیے مانند فولاد سخت۔
ہم اپنے بچوں کو فخر سے بتاتے ہیں کہ چودہ سو سال قبل حاکم وقت کو رات گئے کسی گھر میں رونے دھونے کی آواز سنائی دی تو اس نے دروازہ کھٹکھٹاکر وجہ معلوم کی۔ پتہ چلا کہ بچے بھوکے ہیں اور ماں انہیں سلانے کے جتن کر رہی ہے‘ بہلانے کے لیے ہانڈی چولہے پر چڑھا رکھی ہے‘ جس میں پانی ہے اور چند پتھر جو ابل ابل کر سرخ ہو چکے ہیں‘ بچے ہانڈی پکنے کے منتظر و نڈھال ۔ شرمندگی کے احساس اور روز قیامت پرسش و جوابدہی کے خوف سے امیر المومنین نہ صرف بچوں اور ان کی ماں سے معافی کے طلب گار ہوتے ہیں بلکہ فوری طور پر کھانے پینے کا سامان خود لا کر ان کی بھوک مٹاتے ہیں۔
یہ وہ حکمران تھے جو پیوند لگے کپڑے پہنتے ‘ عام لوگوں کی طرح گلیوں بازاروں میں پھرتے‘ ہر ایک کا حال معلوم کرتے اور ہر ایک کی حق رسی کے لیے بے تاب و بے قرار رہتے کہ وہ اپنے آپ کو صرف خلق خدا کے سامنے نہیں‘ خدا کے حضور بھی لمحہ بہ لمحہ جوابدہ سمجھتے تھے۔ یہ پہچاننا مشکل ہوتا کہ کسی محفل میں بیٹھے لوگوں میں سے حاکم کون ہے اور محکوم کون؟ تمیز بندہ و آقا یوں مشکل تھی کہ اسلامی ریاست میں کوئی بندہ و آقا نہیں‘ سب کے سب اپنے رب کے عاجز بندے ہوتے ہیں‘ افسر و ماتحت ‘ وزیر اعظم اور چپڑاسی کی تمیز محض ذمہ داریوں اور فرائض کی بنا پر ہوتی ہے‘ نشست و برخاست‘ خوراک و لباس ‘ رہن سہن‘ حقوق و مراعات میں نہیں۔ جو جتنا بڑا‘ اس کی گردن ذمہ داری کے بوجھ سے اتنی ہی زیادہ جھکی ہوتی ہے۔ نہد شاخِ پُرمیوہ سربرزمیں۔ 
یہ بتاتے ہوئے تو ہمارا جوش و خروش دیدنی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے معاشرے میں ہر انسان کے حقوق برابر ہوتے ہیں۔ انہیں پیدائش سے لے کر موت تک ریاست‘ ماں کی طرح پالتی پوستی اور ہر ممکن سہولت فراہم کرتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ ہر حکمران اور انتظامی عہدیدار کے سامنے ہوتا ہے اور ریاست کے آخری کنارے پر بسنے والے شہری کی معمولی تکلیف پر تڑپ اٹھتے ہیں۔عدالت تو کیا عام شہری بھی حکمران سے یہ پوچھ سکتا ہے کہ اس کے دور ہمایونی میں ایک بچہ بھوک اور پیاس سے کیوں بلکا اور ایک ماں اپنے نور نظر‘ لخت جگر کی تکلیف سے بے کل کیوں ہوئی۔ کیا حکمران کو علم نہ تھا یا وہ باخبر ہونے کے باوجود غفلت و لاپروائی کا مرتکب ہوا؟ 
یہ حکمران جانتے تھے کہ ہمارے آقاو مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں سے پیار کرتے تھے‘ ان کی تکلیف پر تڑپ اٹھتے اور انہیں جنت کا گلدستہ قرار دیتے۔ آپؐ کے پاس چھوٹی عمر کے بچے لائے جاتے تو آپ انہیں اٹھاتے‘ پیار کرتے‘ خیرو برکت کی دعا دیتے اور انہیں کوئی نہ کوئی تحفہ دے کر رخصت فرماتے۔ اس بنا پر مختلف ادوار میں مسلم ریاستوں نے سب سے زیادہ توجہ بچوں پر دی‘ دودھ پینے کی عمر میں مائوں کی خصوصی دیکھ بھال اور یتیم بچوں کے لیے خصوصی قوانین تاکہ ان کی زندگی محفوظ رہے اور صحت بہتر سے بہتر۔ 
یہ ان حکمرانوں کا کمال نہ تھا‘ ان سے سوال کرنے اور انہیں راہ راست پر رکھنے والے عوام کی جرأت مندی اور حق گوئی کا ثمر تھا۔ اب مگر کیا ہے؟ حکمران تو جو ہیں سو ہیں ہم لوگ خود کیا ہیں؟ قانون کے محافظ یا قانون شکن؟ ایثار و قربانی کا پیکر یا حق تلفی و لوٹ کھسوٹ کی علامت؟ حکمران سنگدل و سفاک ہیں ۔ تھر کے بچوں کی درجنوں کے حساب سے ہلاکتوں پر حکمرانوں کو ‘''بچے ہر روز مرتے ہیں کوئی نئی بات نہیں‘‘ کہنے کی جرأت اس لیے ہوتی ہے کہ ان کا گریبان پکڑنے والا تو درکنار کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہیں کہ حضور! بچے صرف غریبوں کے ہی کیوں مرتے ہیں‘ غذائی قلت اور آکسیجن کی کمی انہی کا مقدر کیوں ہے؟ ہر سال قحط کے باوجود کسی رانے‘ ارباب‘ مخدوم ‘ پیر اور میر کا کوئی جانی اور مالی نقصان کیوں نہیں ہوتا؟ ان کے تو گھوڑے بھی بدستور سیب کا مربہ کھاتے اور مصفا پانی پیتے ہیں۔ بھوک‘ پیاس‘ افلاس‘ امراض اور بے وقت اموات‘ کیا قدرت نے پاکستان کے غریبوں ‘ کمزوروں اور عام شہریوں کے لیے لکھ دی ہیں؟ 
سرگودھا کے ہسپتال میں آکسیجن کی کمی سے بچے پہلی بار نہیں مرے۔ صوبے کے کئی شہروں میں ایسے ہولناک واقعات ظہور پذیر ہو چکے ہیں۔ لاہور کے ایک سرکاری ہسپتال برائے امراض قلب میں دو سال قبل زائد المیعاد دوائوں کی وجہ سے ہلاکتیں ہوئیں۔ یہ حکومت پنجاب کی گڈ گورننس کے لیے چیلنج تھا مگر انکوائری رپورٹ شلجموں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ثابت ہوئی۔ جہاں سانحہ ماڈل ٹائون کے ملزموں اور چودہ افراد کے قاتلوں سے کوئی باز پرس کرنے والا نہ ہو وہاں سرگودھا ہسپتال میں کم سن بچے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مریں یا لاہور کے ہسپتال میں زائد المیعاد ادویات کے استعمال سے لوگ جاں بحق ہوں کسی کو فرق نہیں پڑتا۔ حکمران ذمہ دار ہوں گے مگر سب سے بڑے مجرم موجودہ شقی القلب نظام پر راضی و خوشی عوام ہیں جو ہر ظلم‘ زیادتی‘ فتنہ و فساد‘ جبر و استبداد ‘ لوٹ مار اور سنگدلانہ واردات کو شیر مادر کی طرح ہضم کر جاتے ہیں۔ ظلم سہتے ہیں مگر بغاوت نہیں کرتے۔
اسے کمزوری کہیں‘ بزدلی یا منافقت‘ مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک زندگی یزید کی جینا چاہتا ہے‘ آئیڈیل اس کا ہلاکو اور چنگیز خان ہے جو خود قانون ساز‘ منصف اور منتظم ہو مگر آخرت حضرت حسینؓ اور عمر عبدالعزیزؓ کی طلب کرتا ہے اور یہی ہمارا اصل المیہ ہے۔ فرمایا گیا کہ ہسپتال میں انتظامات کافی نہیں‘ اس لیے اموات ہوئیں۔ کیا یہ بھی عوام کی ذمہ دای ہے۔ جس ملک کے حکمران نزلہ زکام کا علاج اور معمول کا چیک اپ پاکستان کے کسی ہسپتال میں کرانا پسند نہ کرتے ہوں وہاں کسی ہسپتال میں بے نوا‘ بے آسرا لوگوں کے لیے آکسیجن کے انتظامات کی ضرورت بھی کیا ہے۔ خزانے پر بوجھ‘ پیسے کا ضیاع‘ جز رس اور کفایت شعار حکمران ظاہر ہے‘ پسند نہیں فرماتے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved