تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     21-11-2014

جو سب کچھ چھوڑ آئے!

29جون1948ء کو کراچی کے ایک مجسٹریٹ چوہدری قادر بخش کی عدالت میں چوری کا عجیب و غریب مقدمہ پیش ہوا۔ پولیس کی جانب سے تیار کئے گئے اس مقدمے میں کراچی کے مہاجر کیمپ میں مقیم میاں بیوی پر سرکار کی جانب سے مہیا کیے گئے، خیمے کا کپڑا کاٹ کر چوری کرنے کا الزام تھا۔ گرفتار میاں بیوی نے عدالت کو بتایا کہ حضور ہم چور نہیں ہیں‘ اصل بات یہ ہے کہ جب ہم ہندوستان سے لٹے پٹے یہاں پہنچے تو ہمارے پاس سوائے اپنے تن پر پہنے ہوئے کپڑوں کے اور کچھ نہ تھا۔ انہوں نے کہا : ''مہاجر کیمپ تک پہنچتے اور یہاں رہتے ہوئے ہمیں پانچ ماہ ہو گئے ہیں اور ہم میاں بیوی نے جو لباس پہنا تھا‘ وہ پرانااور بوسیدہ ہوکر جگہ جگہ سے پھٹ گیا تھا‘ جس سے ہمارے جسم جگہ جگہ سے ننگے ہوتے تھے۔ حالت یہ ہو چکی تھی کہ شرم کے مارے ہم ایک دوسرے سے بھی نظریں چراتے تھے۔ دن کے وقت کیمپ سے پانی اور کھانا لینے کے لیے بھی نہیں نکل سکتے تھے۔ جب دو دن کی بھوک‘ پیاس نے ہمیں مرنے کے قریب کر دیا تو مجبور ہو کر ہم نے اپنے خیمے کا ایک ٹکڑا پھاڑلیا‘ جسموں کے گرد لپیٹ کر اپنے حصے کا راشن پانی لینے کیلئے باہر جا کر قطار میں کھڑے ہو تے ہیں۔جناب والا آپ دیکھ سکتے ہیں‘ خیمے کا وہ ٹکڑا اس وقت بھی ہم نے اپنے گرد لپیٹاہوا ہے۔ ‘‘یہ کہہ کر دونوں میاں بیوی نے اپنے گرد اوڑھی ہوئیں خیمے کی چادریں اٹھا دیں۔ عدالت میں موجود سب لوگ یہ دیکھ کر شرم سے پانی پانی ہو گئے کہ ان کے جسموں پر چیتھڑے لٹکے ہوئے تھے۔ 
یہ تھا ہندوستان سے ہجرت کر کے آ نے والے لاکھوں خاندانوں میں سے ایک گھرانا جس نے پاکستان کیلئے جدو جہد کی‘ اس کیلئے ووٹ دیا‘ ساری جائیداد وہیں چھوڑی اور نئے خواب کی تعبیر دیکھنے کیلئے ''پی کے گھر‘‘ جانے کو خالی ہاتھ نکل پڑا۔ ''پی کے گھر‘‘ کا نام پاکستان تھا۔ پیا کے دیس سدھارنے والوں کو نہ تو بابل کے گھر سے جہیز کا سامان لانے کی فرصت ملی اور نہ ہی پیا کے گھر پہنچ کر''بری‘‘ اور منہ دکھائی کی رسم کے لیے کچھ ملا بلکہ یہاں ان کو جس جگہ ٹھہرایا گیا اس کا نام حکومت وقت نے ''مہاجر کیمپ‘‘ رکھ دیا‘ جہاں یہ لوگ کئی کئی سال مقیم رہے۔ اسی دور میں ان کے ناموں کے ساتھ مہا جر کا لفظ چمٹ کر رہ گیا اور ان کے راشن پانی کیلئے سرکاری کاغذات میں مہاجر کا لفظ ستعمال کیا جانے لگا۔ 
جس طرح آج بھی چند ناعاقبت اندیش لوگ تمسخرانہ لہجے میں انہیں مختلف نام دیتے ہیں‘ تب بھی 10 جون 1950ء کو سندھ کے ایک وزیر نے عجیب و غریب حکم جاری کیا تھا کہ گودھرا اور پنجاب سے آنے والوں کو ہی مہاجر کی سہولیات دی جائیں گی اور دہلی، نارتول،مہندر گڑھ، الور،بھرت پور، نابھہ، جند اوربمبئی سے کراچی پہنچنے والوں کو مہاجروں کی مراعات نہیں ملیں گی۔ تاریخ اس قدر بھی پرانی نہیں کہ کسی کو یاد نہ ہو جو یکم مئی1950ء کو ایک مرکزی وزیر نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا۔ انہوں نے فرمایا تھا ''اب کراچی میں مزید مہاجرین کی گنجائش نہیں رہی۔ اگر فالتو مہاجرین کراچی سے نہ گئے تو کراچی شہر غلاظت کے ڈھیر میں تبدیل ہو جائے گا‘‘۔ اس مرکزی وزیر نے مزید کہا '' میں آج ہی دہلی سے واپس پہنچا ہوں اور میں خود وہاں کے حالات دیکھ کر آیا ہوں‘ اب وہاں حالات بہتر ہو چکے ہیں اس لئے میرا خیال ہے کہ مہاجرین کو اب واپس ہندوستان چلے جانا چاہئے۔ بھارتی حکومت نے بھی مجھے کہا ہے کہ وہ واپس آنے والوں کا خیر مقدم کرے گی‘‘۔ اس وقت کی وزارت خزانہ کا ریکارڈ دیکھا جا سکتا ہے کہ 2 جون کو سندھ حکومت نے مہاجرین کیلئے مخصوص فنڈ میں پچاس فیصد کمی کر دی اور پھر آسمان گواہ ہے کہ لالو کھیت کے مہاجر کیمپ کی جھونپڑیاں زبردستی گراتے ہوئے سندھ حکومت نے33 ہزار مہاجرین کو کھلے آسمان تلے لا پھینکا۔ جولائی میں کراچی میں موسلا دھار بارشیں شروع ہو گئیں جس سے وبائی امراض پھوٹ پڑے اور سینکڑوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ آج جو مرضی نام دے لیں‘ سچ یہی ہے کہ اس وقت کے انصار اور مہاجر صرف اور صرف لا الٰہ الا اللہ کے نام سے بننے والے ملک کی خاطر انگریز اور ہندو کی سازش اور ظلم کے خلاف باہر نکلے تھے۔ اگر اس وقت ''پاکستان کا مطلب کیا‘ لا الٰہ الا اللہ‘‘ کا نعرہ نہ لگایا جاتا تو شاید پاکستان کبھی معرض وجود میں نہیں آتا۔ 
یہ حقیقت بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مہاجرین اپنے ساتھ علم و فن اور تہذیب و تمدن کا جو سرمایہ لے کے آئے‘ اس کی بدولت سندھ کے پورے صوبے کی رونق اور خوشحالی کو چار چاند لگ گئے۔ وہ چند لوگ جن کے پاس
دولت اور ہنر تھا‘ ان میں ایک فیملی ایسی بھی تھی‘ جو اپنے ساتھ بینک ، انشورنس کمپنیاں اور کراچی کی صنعت کیلئے مشینری لے کر آئی۔ ایک اور خاندان اپنے ساتھ کمرشل بینک اور پٹ سن کی ملیں لے کر آیا۔ باوانی ، ولیکا، فینسی،میمن اور دہلی کمیونٹی کے لوگ اپنے ساتھ لائے ہوئے کروڑوں روپے سے دیکھتے ہی دیکھتے کراچی میں صنعتوں کا جال بچھانے لگے۔ انہوں نے کراچی اور سندھ میں جگہ جگہ ہسپتال اور تعلیمی ادارے تعمیر کئے‘ جہاں ہر زبان بولنے والوں کوبغیر کسی تفریق کے سہولیات مہیا کی جانے لگیں۔ رمضان المبارک میں رنگ و نسل کی تفریق کے بغیر مستحقین میں لاکھوں گز کپڑا تقسیم کیا جاتا تھا۔ پھر یوں ہوا کہ پاکستان کے کونے کونے سے آنے والے ہر ضرورت مند کو کراچی میں جائے پناہ ملنا شروع ہو گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے کراچی ہر رنگ اور نسل کے لوگوں کا سمندر بننا شروع ہو گیا۔ تب 1950ء کے اس مرکزی وزیر کی طرح کبھی کسی نے نہیں کہا کہ کراچی میں جگہ کم پڑ گئی ہے‘ کراچی میں غلاظت پھیل جائے گی بلکہ سب ایک ہو کر ایک دوسرے کا دکھ سکھ بانٹنے لگے۔
حالات تب خراب ہونا شروع ہوئے جب مہاجرین کو تمسخرانہ القابات سے نواز جانے لگا؟ کیا ہمارے بزرجمہر اس پر غور فرمائیں گے؟ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved