وہ زمانے لد گئے‘ جب گورننس میں ناکام ہونے والے‘ سیاسی لیڈر اپنی نااہلی کے نتائج بھگتنے کی ذمہ داری فوج کے سپرد کیا کرتے تھے۔ لاہور کا پہلا مارشل لا‘ اس وقت کی جمہوری حکومت نے احتجاجی تحریک روکنے کے لئے‘ نافذ کیا تھا۔ متعدد احتجاجی تحریکوں کے سامنے فوج کو کھڑا کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں عام اور منصفانہ انتخابات ہو جانے کے بعد بھی‘ جب سیاست دان کوئی پُرامن حل نکالنے میں ناکام رہے‘ تب بھی فوج کو عوام کے مقابل کھڑا کر دیا گیا۔ 1977ء میں اپوزیشن اور حکومت کے مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے لیکن فوج کے سربراہ ضیاالحق نے اپنی ہوس اقتدار کی بھوک مٹانے کے لئے‘ حکومت کا تختہ الٹ دیا اور پھر جنرل ضیاالحق نے مسلسل دس سال‘ اپنے اقتدار کی خاطر‘ فوج کو دہری ذمہ داریوں میں جھونکے رکھا۔ فوج سرحدو ں کی حفاظت بھی کر رہی تھی‘ شہروں میں امن و امان قائم رکھنے کی ذمہ دار بھی تھی اور جنرل ضیا نے امریکی جنگ میں کود کر‘ مغربی سرحدوں پر ایک نیا محاذ بھی کھول دیا۔ بھارت ہمارا مستقل دشمن ہے اور اس کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر‘ ہمیں ہر لمحہ چوکس رہنا پڑتا ہے۔ جنرل ضیا کے عہد اقتدار میں‘ فوج تین محاذوں پر لڑنے یا مستعد رہنے کی ذمہ داری اٹھاتی رہی۔ بعد میں بے شک‘ سول حکومتیں بحال ہوئیں لیکن فوج کو اس تہرے محاذ پر مسلسل مصروف رہنا پڑ رہا ہے۔ یہ تین محاذ ہیں: شمال مغرب میں افغانستان‘ مشرق میں بھارت اور اندرون ملک طرز حکومت کے مارے اور کچلے ہوئے عوام کو حقوق کی جدوجہد کے حصول سے روکنا۔ فوج نے طویل عرصے تک‘ اہل سیاست کی نالائقی‘ کج فہمی‘ عدم برداشت اور امور حکمرانی میں نااہلی کی سزا بھگتی۔ خدا خدا کر کے‘ جنرل پرویز مشرف کی حکومت ختم ہونے کے بعد‘ جمہوریت بحال ہوئی تو فوج نے سکھ کا سانس لیا ۔ اسے توقع تھی کہ طویل عرصے تک ٹھوکریں کھانے کے بعد سیاست دانوں نے کچھ سیکھ لیا ہو گا۔ ان میں ایک دوسرے کے لئے قوت برداشت پیدا ہو گئی ہو گی اور وہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف میں رہنے کے باوجود‘ اپنی صلاحیتیں عوامی فلاح و بہبود کے لئے صرف کریں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ ‘ بقائے باہمی کے اصول کے تحت اپنی اپنی سیاسی ذمہ داریاں ادا کریں گے۔ حکومتی پالیسیوں کا مقصد بھی‘ عوامی فلاح ہو گا اور حزب اختلاف بھی حکومت کو ہدف تنقید بناتے وقت‘ اس کی اصلاح کا مقصد پیش نظر رکھے گی۔ بنیادی طور پر جمہوری نظام‘ عوام کی ترقی و خوشحالی اور بہتر حالات زندگی کے لئے کام کرتا ہے۔ بدنصیبی سے پاکستان کے تمام حکمران طبقوں نے ہمیشہ عوام دشمنی سے کام لیتے ہوئے‘ اپنے مفادات کی غلامی کی۔
عمران خان ٹھیک کہتے ہیں کہ جمہوریت کی آخری بحالی کے بعد‘ تمام سیاسی جماعتیں عوام کو لوٹنے اور اپنے خزانے بھرنے میں‘ ایک دوسر ے کی مددگار بن چکی ہیں۔ ان میں تحمل اور برداشت کی صلاحیت تو پیدا ہو گئی ہے‘ لیکن پاکستانی عوام کی خرابیِ قسمت سے‘ یہ سب کچھ ان کے اپنے لئے تھا۔ ان کا اتحاد اور تعاون‘ عوام کے خلاف اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لئے ہے۔ بقول عمران خان‘ یہ عوام کو اچھی حکومت دینے کے لئے‘ ایک دوسرے سے مقابلہ نہیں کرتے بلکہ اقتدار میں آنے کے لئے‘ باریاں لیتے ہیں۔ حد یہ ہے جب ایک جماعت کی حکومت عوام میں غیرمقبول ہو جاتی ہے‘ تو وہ کرسی چھوڑنے سے پہلے ہی‘ یہ بندوبست کر لیتی ہے کہ انتخابات کے نتیجے میں اگر وہ اقتدار سے محروم ہو جائے تو اقتدار میں آنے کی باری‘ دوسری عوام دشمن پارٹی کو ملے۔ اس کا مثالی مظاہرہ‘ گزشتہ سال دیکھنے میں آیا۔ مسلسل پانچ سال ایک نااہل حکومت کی باری مکمل ہوئی‘ تو اس نے نئے انتخابات میں ساتھی جماعت کو فراخ دلی کے ساتھ‘ دھاندلی کی سہولتیں مہیا کیں۔ ان میں لوٹ مار کی شراکت داری‘ اس وقت خطرے میں آ گئی‘ جب عوام نے ان کی ملی بھگت سے تنگ آکر‘ اپوزیشن کے لئے دوسرے لیڈروں کی طرف دیکھنا شروع کیا۔ عمران خان قیادت کا خلا‘ پُر کرنے کے لئے آگے بڑھے اور طویل عرصے تک‘ قابل اعتماد قیادت سے محروم رہنے والے عوام نے‘ ان کے پیچھے جمع ہونا شروع کیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ عمران خان کی آواز چاروں طرف پھیل گئی۔ جب عمران نے دوبارہ انتخابات کا مطالبہ منوانے کے لئے‘ اقتدار کے مرکز میں مورچہ کھولنے کا فیصلہ کیا‘ تو ہزاروں میل دور بیٹھے‘ ایک صاحب کو جلدی جلدی تیار کر کے‘ عمران کے برابر لا بٹھایا گیا۔ ان صاحب نے اپنے ذمے لگے ہوئے فرائض‘ ذمہ داری سے ادا کرتے ہوئے‘ پُرامن احتجاجی تحریک کو دہشت گردی اور انتہا پسندی کے رخ پر ڈالنے کے لئے‘ پولیس اور سول سروس کے خلاف‘ تصادم کا راستہ اختیار کیا۔ قانونی پابندیوں کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ امن و امان کے لئے خطرات پیدا کر دیے۔ تحریک انصاف کے کارکن‘ ممکنہ حد تک اس تصادم سے دور رہے لیکن جب ایک ہی شہر میں‘ دو جماعتیں ایک ہی مقام پر‘ احتجاجی مظاہرہ کر رہی ہوں تو ان میں فرق کو کوئی نیک نیت انسان ہی محسوس کر سکتا ہے لیکن جو پہلے ہی سے بدنیت ہو‘ اس کا تو مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بدامنی پر تلے لوگوں کو‘ پُرامن پارٹی کے کھاتے میں ڈال کر‘ انتظامیہ اور رائے عامہ کو بھڑکائے اور طاقت کے ذریعے عوامی تحریک کو کچل دے۔ سیاسی حکمرانوں کی چالاکیوں کو‘ فوج اب اچھی طرح سمجھنے لگی ہے۔ جیسے ہی احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں نے اسلام آباد میں جمع ہونے کا سلسلہ شروع کیا تو فوج سے کہا گیا کہ امن و امان برقرار رکھنے کی ذمہ داریاں وہ سنبھال لے‘ جس پر فوجی قیادت نے حساس مقامات کے تحفظ کی ذمہ داری لیتے ہوئے‘ باقی معاملہ حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ سیاسی مسائل حل کرنے کی ذمہ داری‘ خود اٹھائے؛ البتہ فوج حساس مقامات کے تحفظ کا فرض ضرور پورا کرے گی۔ پاکستانی عوام کو یہ بات سمجھانا مشکل نہیں کہ ہمارے ملک میں ''تقدس مآب‘‘ سیاست میں کیا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ جب بھی یہ مذہب یا عوامی حقوق کے نام پر‘ کسی احتجاجی تحریک کا حصے بنے تو آخرکار‘ انہوں نے اصل حکمرانوں کے اقتدار کا راستہ ہموار کیا۔ تحریک ختم نبوتﷺ نے‘ خواجہ ناظم الدین کی منتخب حکومت کو ختم کر کے‘ مغربی پاکستان کے جاگیرداروں‘ جرنیلوں اور بیوروکریٹس کو اقتدار میں لانے کا راستہ ہموار کیا۔ نوجوان قارئین کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ تحریک اس مقصد کے حصول کی خاطر نہیں تھی جو بظاہر بتایا گیا۔ جیسے ہی خواجہ ناظم الدین اقتدار سے نکلے‘ تو یہ ''تقدس مآب‘‘ اپنے مطالبات بھول کر‘ نئے حکومتی گٹھ جوڑ کا حصہ بننے کے لئے‘ بھاگ دوڑ میں لگ گئے۔ تحفظ ختم نبوتﷺ کے لئے‘ آئینی تبدیلیوں کا مطالبہ طویل عرصے کے بعد‘ بھٹو صاحب کے دور میں پورا ہوا‘ لیکن جس بھٹو نے یہ کام کیا‘ اسی کے خلاف جنرل ضیاالحق کی ہوسِ اقتدار کو تسکین دینے کے لئے‘ یہی تقدس مآب‘ پھر سامنے آ گئے اور جب ضیاالحق نے اقتدار پر قبضہ کر کے‘ اپنی حکومت قائم کی تو ٹھنڈے ہو کر بیٹھ گئے۔ آج بھی جب عوام کا غیظ و غضب‘ طوفان بنتا ہوا دکھائی دینے لگا تو ہزاروں میل دور بیٹھے ایک ''تقدس مآب‘‘ کو واپس بلا کر‘ پُرامن تحریک کو قانونی خلاف ورزیوں کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کی۔ ایک طرف عوامی تحریک کی قیادت کرنے والے عمران خان کو‘ تخریب کاری اور انتہا پسندی سے اپنے آپ کو الگ کرنا پڑا اور دوسری طرف اس الزام سے بچائو کے لئے بھی ہاتھ پائوں مارنا پڑے کہ وہ‘ یہ تحریک فوج کے اشارے پر چلا رہے ہیں۔ اس صورت حال میں اقتدار پر قابض حکمران طبقوں نے عوامی جذبات اور خواہشات کی ترجمانی کرنے والے ادارے‘ یعنی پارلیمنٹ کو عوام ہی کے خلاف استعمال کرتے ہوئے‘ تحفظ جمہوریت کا نعرہ لگا دیا‘ اور پتنگیں لوٹنے والوں نے ایک دوسرے سے بڑھ کر‘ اپنی لوٹی ہوئی پتنگیں بچانے کے لئے‘ ایسی ایسی لچھے دار تقریریں کیں کہ اچھے خاصے سمجھدار لوگ بھی‘ قائل ہوتے نظر آئے لیکن اس مرتبہ عوام عادی فریب کاروں‘ کے جال میں پھنسنے سے بچ نکلے۔ اس رائونڈ میں بظاہر عمران کے حامی‘ ایک اور ''تقدس مآب‘‘ کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ اس سارے کھیل کو بیان کرنے کے لئے‘ ایک کالم میں جگہ نکالنا مشکل ہوتا ہے‘ اس لئے مجھے بہت سے واقعات‘ نظر انداز کرنا پڑیں گے۔ عمران کی صفوں سے ایک طالع آزما‘ شخصیت نے وعدہ معاف گواہ بن کر‘ فوج اور عدلیہ پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی تاکہ حکومتی زیادتیوں کے خلاف‘ مظلوم کی مدد کے لئے آنے والے‘ دونوں اداروں کے دروازے‘ عمران خان پر بند کر دئیے جائیں۔
عارضی طور پر‘ حکمرانوں کی چالیں کامیاب رہیں لیکن وہ اصل بحران سے باہر نہیں نکل پائے۔ عمران نے عوام کے حوصلے اور جوش و جذبہ برقرار رکھنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ اب وہ پھر نئی تیاریوں اور نئے عزم و حوصلے کے ساتھ‘ میدان میں اترنے والے ہیں اور اسی ''تقدس مآب‘‘ کو ایک بار پھر ہزاروں میل دور سے‘ عوامی تحریک کا رخ موڑنے کے لئے بلا لیا گیا ہے مگر گزشتہ نوے دنوں کے دوران حالات‘ بے شمار کروٹیں بدل چکے ہیں۔ فوج کے خلاف‘ سازش کے الزام کا بھید کھل چکا ہے۔ عدلیہ‘ اپنے دامن پر لگائے گئے دھبوں کو پُروقار انداز میں دھو چکی ہے۔ حکمران پرانی ترکیبوں‘ حربوں اور چال بازیوں سے کام نہیں لے پائیں گے۔ عوام جس تبدیلی کے لئے‘ مدتوں سے بے تاب ہیں‘ اسے روکنے کی کوششیں لمحاتی طور سے کامیاب ہوتی تو ضرور نظر آسکتی ہیں لیکن حقیقی کامیابی اب ان کے مقدر میں نہیں۔ عوام جنہیں تخت سے اتارنے کے لئے بے تاب ہیں‘ ان کا جانا ٹھہر گیا ہے۔ صبح گئے یا شام گئے۔ عوامی ابھار کی لہریں‘ طاقت کے بڑے بڑے مراکز کو ایسے غائب کر دیتی ہیں‘ جیسے پانی کی لہریں پہاڑوں سے مسلسل ٹکراتے ٹکراتے ایک دن ان پر غالب آ جاتی ہیں۔