تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     22-11-2014

زحمت نہ کریں!

کئی برسوں سے میں اقتدار کے مزے لوٹنے والے ہر سیاست دان پر تنقید کر رہا ہوں۔ جب سے اخبارات کے ایڈیشن آن لائن پڑھے جانے کی سہولت میسر آئی ہے، ان جماعتوں کے پاکستان کے طول و عرض اور بیرونی ممالک میں موجود حامیوں نے مجھ سے مختلف سطحوں پر اختلاف بھی کیا؛ تاہم مجموعی طور میرے اور معزز قارئین کے درمیان ہونے والا ای میلز کا تبادلہ تہذیب و اخلاق کے دائرے میں رہا اور اس میں ایک دوسرے کی رائے کا احترام ملحوظ خاطر رکھا گیا۔ ہم نے دوسرے کے ساتھ اختلاف رکھنے کے حق کو تسلیم کیا۔ 
جب میں نے 1992ء میں ایک انگریزی اخبار میں کالم لکھنا شروع کیا‘ تو میاں محمد نواز شریف کی حکومت تھی۔ اس کے بعد ملک اتارچڑھائو سے گزرتا رہا۔ سیاسی کشمکش قومی افق پر چھائی رہی۔ آنے والے دنوں نے بے نظیر بھٹو، مشرف اور زرداری کو ایوان میں دیکھا۔ یہ تمام حکمران مدّاح بھی رکھتے تھے اور نقاد بھی۔ ہو سکتا ہے کہ میری تنقید کے جواب میں ان سیاست دانوں کے حامیوں نے کبھی ترش لہجے میں اپنی ناراضگی کا اظہار کیا ہو، لیکن کبھی کسی نے دشنام طرازی نہیں کی تھی۔ اگر کبھی کوئی ایسا کرتا تو میں ذہن میں دوسرا خیال لائے بغیر اُس میل کو اپنے ان باکس سے حذف کر دیتا اور ایڈریس کو بلاک کرتے ہوئے اُسے بھول کر آگے بڑھ جاتا... ایسی بیہودہ گوئی کے لیے کس کے پاس وقت ہوتا ہے؟
خوش قسمتی سے ایسا بہت کم ہوتا تھا، لیکن گزشتہ چند ایک ماہ سے صورت حال میں بہت بڑی ''تبدیلی‘‘ آ چکی ہے۔ اب میں 
جب بھی ایک جماعت اور اس کے رہنما پر تنقیدی مضمون لکھتا ہوں تو ان کے حامیوں کی طرف سے جارحانہ ای میل پیغامات کا ایک تانتا بندھ جاتا ہے۔ جب میں حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اُنہیں دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو وہ یاوہ گوئی پر اتر آتے ہیں۔ یہ ایک عام فہم بات ہے کہ جب کسی کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں‘ تو وہ اپنے حریف کو گالی گلوچ سے دھمکانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب فریق ثانی عزت بچانے کے لیے مزید بحث سے اجتناب کرتا ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنے مخالف کو زیر کرتے ہوئے مقابلہ جیت لیا ہے؛ چنانچہ مستقبل میں کسی بھی بحث میں وہ یہی طرزِ تکلم اپناتے ہیںکیونکہ یہ ان کی یقینی ''فتح‘‘ کی ضمانت دیتا ہے۔ 
جہاں تک پی پی پی، پی ایم ایل (ن)، پی ایم ایل (ق)، مشرف اور ایم کیو ایم کے حامیوںکا تعلق ہے تو ان کا مجھ سے تبادلہ خیالات تہذیب و شائستگی کے سانچے میں ڈھلا ہوتا ہے۔ وہ عام طور پر میرے اٹھائے گئے سوالات کا اپنی اپنی فہم کے مطابق جواب دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ مجھ سے اختلاف کرنے کا حق رکھتے ہیں، اور بے شک اسی کا نام بحث ہے۔ اگر بحث میں شدت آ جائے تو بھی مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ درحقیقت میں بھی گزشتہ چند برسوںسے قدرے تنک مزاج ہو چکا ہوں؛ تاہم ان جماعتوں کے کارکن اور حامی ایک حد کا احترام کرتے ہیں۔ 
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ایک جماعت کے حامی دیگر جماعتوں کے حامیوں سے اتنے مختلف کیوں ہیں؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نوجوان ہیں؟ لیکن گزشتہ کئی برسوں سے میرا کئی نوجوانوں سے بھی ای میلز کا تبادلہ ہوتا رہا ہے اور میں نے اُن کو عمومی طور پر مہذب اور بااخلاق پایا۔ یا پھر اس ناروا رویے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہر روز اپنے لیڈر کو مخالفین پر گرجتے برستے اور توہین آمیز جملے کستے سن کر سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ ایک قابل قبول سیاسی رویہ ہے؟ اس ناروا طرز گفتار کی ایک وجہ ٹی وی ٹاک شوز میں ہونے والی چیخ پکار بھی ہو سکتی ہے‘ جسے لوگ سیاسی نہیں بلکہ تفریحی پروگرام سمجھ کر دیکھتے ہیں۔ درجنوں ٹی وی چینلز کے لاکھوں ناظرین ہر روز بلائے گئے مہمانوں کی لاعلمی کا پُرزور اظہار دیکھتے ہوئے اسے ایک قابل قبول رویہ سمجھ کر اپنا لیتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثر مقبول اور مشہور اینکرز بھی اس شور شرابے اور چیخ پکار کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ جلتی پر تیل گرانے والوں کی ریٹنگ بلند رہتی ہے۔ جب سینئر صحافی، کہنہ مشق سیاست دان، ریٹائرڈ جنرل اور سفارت کار کیمرے کے سامنے ایک دوسرے پر بے ہنگم انداز میں برستے ہیں تو نوجوانوں کو ایسا کرتے دیکھ کر زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ 
جب میں نے اپنے ایک حالیہ کالم میں ذکر کیا کہ مذکورہ جماعت کے رہنما افہام و تفہیم کی سیاست کی بجائے جارحانہ موڈ اپنائے ہوئے ہیں‘ تو ان کے بہت سے حامیوں نے مجھ پر الزام لگایا کہ میں چاہتا ہوں کہ وہ اپنے مخالف ''بدعنوان سیاست دانوں‘‘ سے مذاکرات کریں۔ اُنھوں نے اتنے سخت الفاظ میں برہمی کا اظہار کیا‘ جیسے پاکستان انتہائی بدعنوان ملک ہو اور اس میں صرف وہی ایماندار ہوں۔ دنیا میں ایسے بہت سے معاشرے موجود ہیں‘ جنہیں بدعنوانی کی نرسریاں قرار دیا جا سکتا ہے۔ زیادہ دور نہیں، ہماری سرحدوں کے آس پاس ممالک میں بدعنوانی کے مہیب سکینڈلز جنم لیتے رہتے ہیں۔ مستحکم جمہوری ممالک بھی اس برائی سے مبّرا نہیں؛ تاہم اسے اپنی سیاست کا مرکزی ایجنڈا بناتے ہوئے اس جماعت کے رہنما نے اپنے نوجوان حامیوں کی برین واشنگ کر دی ہے کہ وہ بہت جلد اقتدار میں آ کر ملک کو راتوں رات بدعنوانی سے پاک کر دیں گے۔ اُنہیں یقین ہے کہ یہ معجزہ رونما ہوتے ہی ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ نکلیں گی۔ 
دوسری طرف ان کی جماعت کم و بیش ایک سال سے خیبر پختونخوا میں حکومت میں ہے لیکن سرکاری دفاتر میں ''دام بنائے کام‘‘ کا فارمولا ہی مستعمل ہے۔ پشاور سے ایک پرانے دوست نے میری بات کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ مطلوبہ دستاویزات کے عوض مقامی پٹواری نے اُس سے ایک لاکھ روپے سکّہ رائج الوقت طلب کیا۔ جغرافیے کی رو سے پشاور خیبر پختونخوا میں ہی واقع ہے۔ جس طرح پاکستان میں ہر قسم کے جدید اسلحے کی فراوانی اور اس کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آیا، اسی طرح یہاں سیاسی خیالات کا اظہار بھی تیزوتند دشنام آمیز زبان اور جارحانہ رویوں کے پیرائے میں ڈھلتا جا رہا ہے۔ وہ دن گئے جب ڈانٹ ڈپٹ اور غصے کا اظہار بھی سلجھے ہوئے لکھنوی اردو لہجے میں ہواکرتا تھا، لیکن آج سیاست میں گالیاں بھی روا سمجھی جاتی ہیں۔ 
یہ صرف میرے ساتھ ہی معاملہ درپیش نہیں، جس جس صحافی نے بھی تنقیدی کلمات ادا کرنے کی جسارت کی، اس جماعت کے جانبازوں نے اُسے جارحانہ، ترش اور ننگے الفاظ کی باڑھ پر رکھ لیا اور جس توہین آمیز خطاب سے چاہا، نواز دیا۔ اس سے اور کچھ نہیں تو کم از کم تنقید کرنے والوں نے چپ رہنے میں ہی عافیت جانی۔ یہ درست ہے کہ اب ڈر کے مارے رہنمائوں کی تعریف ہی کی جاتی ہے لیکن ان کے حامی نہیں جانتے کہ اس کا ان کے لیڈر اور ان کی جماعت کو کیسا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ شاید فی الوقت، ان کے رہنما کو اس بات کی پروا نہیں۔ بہرحال میں یہ کہہ کر اس موضوع کو سمیٹتا ہوں کہ اس جماعت کے حامی مجھے اپنی نفرت انگیز میلز بھیجنے کی زحمت نہ کریں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved