تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-11-2014

شاہراہ گریہ… (آخری قسط)

26 مئی 1830ء کو امریکی پارلیمنٹ نے صدر اینڈریو جیکسن کے دبائو میں ریڈ انڈینز کی جبری بے دخلی کے سلسلے میں ''انڈین ریموول ایکٹ‘‘ پاس کردیا۔ چیروکی قبیلے پر ریاست جارجیا میں اپنی زمینوں سے دستبردار ہونے کے لیے دبائو جب بہت بڑھ گیا تو چیروکیز گرینڈ کونسل کے چیف جان راس نے ریاست جارجیا کے خلاف سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کردیا۔ چیف جسٹس جان مارشل نے چیروکیز کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے لکھا ''چیروکیز قبائل خودمختارانہ حیثیت میں خود اپنی حکومت چلانے کا حق رکھتے ہیں اور ریاست جارجیا کے قوانین کا چیروکیز پر اطلاق غیر آئینی ہے‘‘۔ قانون پسندی اور قانون کی علمبرداری کے دعویدار امریکہ کے اس وقت کے صدر اینڈریو جیکسن نے اس فیصلے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ''جسٹس مارشل نے چیروکیز کے حق میں فیصلہ تو دے دیا ہے اب اس کا اطلاق بھی کر کے دکھائے‘‘۔ صدر اینڈریو جیکسن نے جو کہا تھا‘ وہ کر کے دکھا دیا۔ 
امریکی سپریم کورٹ نے جانسن بخلاف میکن ٹوش نامی مشہور و معروف مقدمے کے فیصلے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا کہ ''ریڈ انڈینز امریکہ میں زمینوں پر قابض تو ہو سکتے ہیں لیکن ان زمینوں پر حق ملکیت کا دعویٰ نہیں کر سکتے کیونکہ ''حق دریافت‘‘ ریڈ انڈینز کے حق قبضہ پر فوقیت رکھتا ہے‘‘۔ یہ قانون کی ایسی تشریح تھی جس کی زمانہ قبل از مسیح سے لے کر آج تک کوئی مثال نہیں ملتی۔ 
اپریل 1838ء میں امریکی صدر وان بیورن نے اپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے 1830ء کے انڈینز کے نقل مکانی ایکٹ پر عملدرآمد کا حکم دیا۔ 6 جون 1838ء کی صبح ریاست ٹینیسی کی بستی کیلاہون پر سات ہزار فوجی رائفلیں اٹھائے 
اور سنگین تانے نہتے اور صدیوں سے پرامن رہنے والے چیروکی ریڈ انڈینز پر حملہ آور ہوئے اور زمینوں کے حقیقی مالک قدیمی باشندوں کو بالکل اسی طرح کھدیڑنا شروع کیا جس طرح شکار میں ہانکا کر کے جانوروں کو ان کی پناہ گاہوں سے نکالا جاتا ہے۔ فوجیوں نے مکینوں کو زبردستی ریاست مسی سیپی کے مغرب میں ہانکنا شروع کردیا۔ حملہ اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ بچے مائوں سے‘ گھر کے افراد ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے۔ نہ کسی کو سامان اٹھانے کی مہلت ملی اور نہ الوداع کہنے کی۔ بے سرو سامانی میں ہزاروں میل کا سفر اس طرح شروع ہوا کہ ہجرت پر مجبور ہزاروں ریڈ انڈینز کے لیے محض چند سو بیل گاڑیاں میسر تھیں اور بقیہ لوگ ننگے پائوں پیدل ایک ان دیکھی دنیا کی طرف روانہ ہوئے۔ جس نے مزاحمت کی اسے قتل کردیا گیا۔ لوٹ مار اور ظلم و بربریت کے زیر سایہ افتادگان خاک روزانہ اوسطاً دس میل پیدل چلتے تھے،۔ یہ سفر مہینوں جاری رہا۔ اس دوران بھوک‘ افلاس‘ قحط‘ شدید سردی‘ تھکاوٹ‘ نقاہت اور بیماریوں نے پہلے سے بے حال مسافروں کو آن گھیرا۔ ہر چند قدم بعد کوئی ایسا گرتا کہ پھر اٹھنا نصیب نہ ہوتا۔ شکاری کتوں کی طرح پیچھا کرنے والے فوجی نہ کسی کو رکنے دیتے اور نہ سوگ منانے دیتے۔ مرنے والے کو بلاتاخیر دفنا دیا جاتا اور سفر جاری رہتا۔ پیچھے رہ جانے والوں کو عزیز و اقارب اور رشتہ دار پلٹ کر دیکھتے اور چل دیتے۔ انہیں مڑ کر دیکھنے والے روتے‘ آنسو بہاتے‘ گریہ زاری کرتے مگر سفر جاری 
رکھتے۔ مسی سیپی سے اوکلاہاما تک راستے میں ہزاروں خاک نشین رزق خاک بنے۔ اس بے کسی کے سفر میں مسافروں نے قدم قدم پر اپنے خونِ ناحق سے ایسا نوحہ لکھا جس سے یہ ساڑھے تین ہزار کلومیٹر طویل راستہ شاہراہ گریہ بن گیا۔ 
قبروں‘ آنسوئوں‘ آہوں اور میتوں سے قدم قدم بھرا ہوا۔ یہ راستہ آنسوئوں کی شاہراہ تو بنا ہی تھا ساتھ ہی امریکی جمہوریت‘ انصاف‘ عدل‘ انسانیت‘ بشر کی حرمت‘ آئینی سربلندی و قانون کی عظمت اور مہذب ہونے کے بلند بانگ دعووں کا قبرستان بھی بن گیا۔ 
1830ء میں انڈینز ریموول ایکٹ کے پاس ہونے کے بعد ریڈ انڈینز نے اپنے بچائو اور اپنی زمینوں کے تحفظ کے لیے ایک آخری کوشش کی اور چیروکیز گرینڈ کونسل کے چیف جان راس نے چیف جونالسکا کو صدر اینڈریو جیکسن سے بات کرنے کے لیے روانہ کیا۔ چیف جونالسکا ایک طویل عرصے تک اینڈریو جیکسن‘ جب امریکی فوج میں جنرل تھا‘ کے ساتھ رہا تھا اور نہ صرف یہ کہ امریکیوں اور ریڈسٹک کریکس کے درمیان ہونے والی جنگ میں امریکیوں کا مددگار رہا اور عملی طور پر اپنے سپاہیوں کے ہمراہ امریکی اتحادی کے طور پر میدان جنگ میں داد شجاعت دیتا رہا بلکہ مشہور و معروف ہارس شو کی جنگ‘ جس نے امریکہ کے مستقبل کی لگام گوروں کے ہاتھ میں دینے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا‘ میں چیف جونالسکا نے اینڈریو جیکسن کی جان بھی بچائی تھی۔ چیف جونالسکا نے اپنا سارا مدعا بیان کیا اور صدر امریکہ سے اپنے پرانے تعلقات اور امریکہ کی ''آزادی جنگ‘‘ میں ریڈ انڈینز کے احسانات کے بدلے اس زبردستی کی نقل مکانی اور اپنی زمینوں پر قبضے کے خلاف مدد مانگی۔ صدر اینڈریو جیکسن نے چیف جونالسکا کی ساری عرضداشت بڑے تحمل سے سنی اور آخر پر اسے مختصر سا جواب دیا کہ ''ہماری ملاقات کا وقت ختم ہو چکا ہے اور میں تمہارے لیے کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔ اس طویل سفر کے دوران چیف جونالسکا نے ایک منظر دیکھا کہ ماں مر چکی ہے مگر اس کے معصوم بچے اس سے لپٹے ہوئے ہیں اور اسے چھوڑ نہیں رہے۔ چیف جونالسکا نے بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ اپنی ٹوپی اتاری اور آسمان کی طرف منہ اٹھا کر کہا ''اے میرے خدا! اگر مجھے ہارس شو کی جنگ میں یہ پتہ ہوتا جو میں آج جانتا ہوں تو امریکہ کی تاریخ مختلف طرح سے لکھی جاتی‘‘۔ 
زبردستی بے دخل کیے جانے والوں میں پہلا نمبر چوکٹائو قبیلے کا آیا۔ انہیں 1831ء میں بے دخل کیا گیا۔ 1832ء میں سیمی نول قبائل کو ہانک کر نکالا گیا۔ کریک قبائل کو 1834ء میں اور چکاسائو کو 1837ء میں زمینوں سے بے دخل کیا گیا۔ سب سے آخری باری چیروکی قبائل کی تھی۔ انہیں 1838ء میں شاہراہ گریہ پر دھکیلا گیا۔ تقریباً سولہ ہزار پانچ سو کے لگ بھگ چیروکیز میں سے چھ ہزار کے لگ بھگ ریڈ انڈینز راستے میں صعوبتوں اور بیماریوں سے ہلاک ہوئے۔ ان کی بے سروسامانی اور حالت زار دیکھ کر نیک دل گوروں کی آنکھیں بھی چھلک پڑیں۔ 1838ء تک جنوب مشرقی ریاستوں سے چھیالیس ہزار کے قریب ریڈ انڈینز کو ان کی آبائی جنم بھومی سے بے دخل کر کے ان کی آٹھ کروڑ ایکڑ کے لگ بھگ زمینوں پر قبضہ کر لیا گیا۔ بلامعاوضہ اور بلاوجہ۔ صرف کریک قبائل کی اڑھائی کروڑ ایکڑ زمین پر قبضہ کیا گیا۔ سب کو نام نہاد ''انڈین ٹیری ٹری‘‘ میں دھکیل دیا گیا۔ چیروکیز کو جارجیا سے بے دخلی کے پیچھے زمین ہتھیانے کے ساتھ ساتھ ڈالہونیگا میں نکلنے والا سونا بھی بڑی وجہ تھا۔ شاہراہ گریہ پر سفر کے دوران کل مرنے والے انڈینز کی درست تعداد کبھی معلوم نہ ہو سکے گی مگر اندازاً یہ تعداد مسافروں کی کل تعداد کے ایک تہائی سے زیادہ یعنی تقریباً پندرہ ہزار کے لگ بھگ تھی۔ زندہ بچ جانے والوں کا دعویٰ تھا کہ ''ٹریل آف ٹیرز‘‘ کی اصطلاح ان لوگوں کے آنسوئوں سے اخذ کی گئی جو اس دلخراش منظر کے عینی شاہد تھے۔ جنہوں نے یہ آنسو ننگے پائوں پیدل مارچ کرنے والوں کے مصائب پر بہائے۔ مظلوم مسافروں نے مصائب و آلام سے پٹا ہوا یہ راستہ خاموشی اور صبر سے طے کیا۔ کسی آہ و بکا کے بغیر۔ 1951ء میں اپنی کتاب ''موبی ڈک‘‘ پر ادب کا نوبل انعام لینے والے امریکی مصنف ہرمن میول کے بقول ''امریکی خون کا ایک قطرہ بھی اس وقت تک نہیں بہایا جا سکتا جب تک ساری دنیا کا خون نہ بہہ جائے کیونکہ ہم ایک قوم نہیں‘ ایک دنیا ہیں‘‘۔ اور امریکہ اس بات کو روزانہ سچ بھی ثابت کرتا ہے۔ (ختم) 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved