تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     22-11-2014

انشا جی، منیر نیازی، ساغر، فراز اور لوڈشیڈنگ

چند سال پہلے تک اس تفاخرانہ احساس میں مُسرور رہتا تھا کہ میں لاہور جیسے تاریخی شہر میں رہائش پذیر ہوں۔ پوری دنیا میں اس شہر کا ایک کلچرل گلیمر ہے‘ جس کے بارے میں کبھی کہا جاتا تھا: ''جنہے لاہور نئیں ویکھیا او جمیا ای نئیں‘‘ (جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا) لیکن ریاست اور حکومت کی طرف سے عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی ضرورتوں‘ جن میں پانی، بجلی اور گیس شامل ہیں‘ کے بحران بلکہ عالمی بحران کے بعد دل چاہتا ہے وہی کروں جو انشا جی نے کیا تھا: 
انشا جی اٹھو اب کوچ کرو 
اس شہر میں جی کا لگانا کیا
نومبر کے مہینے میں ہی بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ نے لاہور جیسے نیم سرد شہر کو ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع سیاچن بنا دیا ہے‘ جو وطن عزیز میں سرد ترین علاقہ ہے۔ سوچتا ہوں انرجی کرائسس کی وجہ سے نومبر میں لاہور جیسے نیم سرد شہر کا یہ حال ہے تو دسمبر، جنوری اور فروری میں یہ شہر انٹارکٹکا بن جائے گا۔ انٹارکٹکا دنیا کا سرد ترین علاقہ ہے‘ جہاں سائنسدانوں نے منفی 89.2 سینٹی گریڈ ٹمپریچر ریکارڈ کیا ہے۔ اس قدر شدید سردی میں تو زندگی کا تصور ہی ناممکن ہو جاتا ہے‘ لیکن روس، کینیڈا، امریکہ، جرمنی اور یورپ کے اکثر ممالک کی شہری آبادیوں کا ٹمپریچر منفی 20 سے 40 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ 2001ء میں کرسمس کے موقع پر جرمنی کے ایک علاقے کا ٹمپریچر منفی 45.9 تک گر گیا تھا۔ یہ ان کے ہاں انفراسٹرکچر کا کمال ہے کہ اتنی شدید سردی میں بھی زندگی کے معمولات معطل نہیں ہوتے۔ سوچتا ہوں‘ لاہور اگر جرمنی ہوتا، سردیوں میں اس کا ٹمپریچر منفی 45.9 تک گر جاتا‘ اس پر بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا تڑکا لگتا تو یہ شہر نیپچون (Neptune) بن جاتا۔ نظام شمسی میں نیپچون آٹھواں سیارہ ہے۔ سورج سے دور ہونے کے باعث اس کا ٹمپریچر منفی 201 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ نیپچون کا تو درجہ حرارت گرتا ہے جبکہ سردیوں میں ہمارے ہاں حکمرانوں کا جمہوری امیج بھی گر جاتا ہے۔ کبھی کبھی سوچتا ہوں‘ دشمنوں کے خلاف ہمیں کچھ کرنے کی ضرورت نہیں‘ وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، وزیر مملکت عابد شیر علی اور گیس کے وزیر شاہد خاقان عباسی‘ تینوں کا ''تبادلہ‘‘ اگر سرد مرطوب ممالک میں کر دیا جائے تو ہمارے بہادر وزرا ء بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے ذریعے ہی اغیار کو نیست و نابود کر دیں گے۔ 
انرجی کے بحران کا شوروغوغا اور گونج لاہور کے ساتھ فیصل آباد، گجرانوالہ، سیالکوٹ، راولپنڈی، جھنگ، سرگودھا، میانوالی، ملتان سمیت پورے پاکستان میں سنائی دے رہی ہے۔ حیدر آباد میں تو عابد شیر علی کی کھلی کچہری، گو نواز گو ریلی بن گئی۔ وزیر بہادر بجلی کی لوڈشیڈنگ اور واپڈا کے اہلکاروں کی شکایات سن رہے تھے کہ لوگ پھٹ پڑے اور انہوں نے شدید نعرے بازی شروع کر دی۔ عابد شیر علی بھی چونکہ اینگری ینگ مین سٹائل کے منسٹر ہیں اس لئے برہم ہو گئے اور انہوں نے ایس ڈی او اور ایکسین حضرات کو معطل کر دیا۔ گزشتہ دنوں لاہور ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ بجلی کی چوری روکی نہیں جا رہی اس لئے عوام کو مہنگے داموں بجلی فروخت کی جا رہی ہے۔ یوں تو وطن عزیز کے ہر شہر اور ہر علاقے میں بجلی چور پائے جاتے ہیں‘ لیکن عابد شیر علی صاحب کے ''سروے‘‘ کے مطابق زیادہ تر بجلی چور سندھ اور خیبر پختونخوا میں ہیں۔ عابد شیر علی نے الزام لگایا کہ سندھ میں فریال تالپور کے علاقہ میں 98.8 فیصد بجلی چوری کی جا رہی ہے‘ ہم اس کی روک تھام کے ساتھ بجلی چوروں کو جیل میں بند کروا کے دم لیں گے۔ وزیر بہادر کو اعلان کئے بہت دن ہو گئے لیکن بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کے نتیجہ میں کس کو جیل میں بند کیا گیا‘ تاحال کوئی بریکنگ نیوز سامنے نہیں آئی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جس گھر،گلی، محلے، علاقے، حلقے اور شہر میں بھی بجلی چوری کی جائے اس کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو منیر نیازی نے شہر سنگ دل کے لئے تجویز کیا تھا یعنی:
اس شہر سنگ دل کو جلا دینا چاہیے 
پھر اس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہیے
ہمیں یاد ہے خادم اعلیٰ پنجاب نے 2012ء میں مینار پاکستان کے میدان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاجی کیمپ لگایا تھا۔ یہ گرمیوں کے دن تھے۔ خادم اعلیٰ اپنی ٹیم کے ساتھ شامیانوں میں بیٹھ کر ہاتھ والے پنکھوں سے گرمی دور کرنے کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ انہی دنوں خادم اعلیٰ نے آصف علی زرداری کو گلیوں میں گھسیٹنے اور اپنی حکومت کی آمد کے صرف چھ ماہ بعد لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا مژدہ سنایا تھا۔ پونے دو سال ہونے کو ہیں‘ کچھ بھی نہیںہوا۔ وزیر اعظم نواز شریف نے البتہ خادم اعلیٰ کو جذباتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی ڈیٹ نہیں دینی چاہیے تھی۔ نواز شریف صاحب نے اس ضمن میں وضاحت کرتے ہوئے اپنے ذمہ دار ہونے کا تاثر دیا‘ لیکن پاکستانیوں کو بجلی اور گیس فراہم کرنا بھی تو ان کی ذمہ داری ہے۔ ہمارے ہاں حکمران طبقات، اشرافیہ اور عوام کی زندگیاں یکسر مختلف ہوتی ہیں۔ حکمران محلات اور ایسی یوٹوپین دنیا میں رہتے ہیں‘ جہاں کسی نعمت اور سہولت کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔ دوسری طرف عوام ہوتے ہیں‘ جن کی زندگی جبر مسلسل اور کسی بہت بڑے عذاب کی ڈاکومنٹری دکھائی دیتی ہے۔ حکمرانوں کی دنیا میں رعایا کو کس جرم کی سزا دی جاتی ہے‘ ساغر صدیقی نے اس کی نشاندہی یوں کی تھی کہ:
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں 
جب سے لاہور میں قدرے سردی ہوئی ہے‘ میرا گھر ایتھوپیا کا نقشہ پیش کرنے لگا ہے۔ ٹونٹی کھولیں تو پانی کی بجائے سرد ہوا کا جھونکا آتا ہے۔ گھر میں بجلی کا بحران ملک میں پائے جانے والے انرجی بحران پر بھی بازی لے گیا ہے۔ گیس کا تو اس گھر میں گزر تک نہیں ہوتا۔ یوں لگتا ہے کہ بگٹی قبیلے سے میری کوئی براہ راست دشمنی ہے‘ جو مجھے اس سہولت سے محروم کر دیا گیا ہے۔ بجلی کے بحران کو قدرے کم کرنے کے لئے جنریٹر اور کئی اقسام کے یو پی ایس مینوفیکچر کرا چکا ہوں۔ گیس کی لوڈشیڈنگ کے مصمم ارادے کے بعد بازار سے گیس سلنڈر خریدنے کے بعد خوش تھا کہ ناشتہ سکون سے کر لیا کروں گا‘ لیکن کیا ہوا؟ سلنڈروں سے اتنی مقدار میں گیس دستیاب ہوتی ہے کہ ناشتے کی نیت سے دستر خوان بچھائیں تو عشائیہ کرکے اٹھتے ہیں۔ اگر ناشتہ مقصود ہو تو عشا کی نماز ادا کرنے کے بعد تہجد کا ارادہ باندھتے ہیں تاکہ ثواب دارین کے بعد بندہ پرور شکم پروری کے مشن کو سرانجام دے سکے۔ کئی بار ناشتے کے انتظار میں علم و ہنر اور سلیقہ 
شعار خواتین کی ضد سمجھی جانے والی خواتین اینکرز کا پورا پورا مارننگ شو دیکھ لیا‘ مگر ناشتہ نصیب نہ ہوا۔ یہی نہیں مارننگ شوز کے بعد نشر مکرر کے طور پر دکھائے جانے والے ٹاک شوز بھی دیکھ لئے۔ مذکورہ ''ہارر شوز‘‘ دیکھنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ معدے کے ساتھ دماغ پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے۔ یہ ایک مسئلہ ہے کہ کچھ کھائے پیے بغیر دفتر کیسے جائوں۔ سوچتا ہوں دفتر سے گھر تبادلہ کرا لوں‘ لیکن فرائض کی انجام دہی کیلئے ایسا کوئی آپشن موجود نہیں سوائے استعفے کے۔ 
ہمارے ہاں لوڈشیڈنگ کا ''ظہور‘‘ جنرل ضیاالحق کے دور میں ہوا تھا‘ جو آج تک شیطان کی آنت کی طرح بڑھتی رہی ہے۔ 2006ء سے 2012ء تک ہمارے ہاں متبادل ذرائع سے ایک میگاواٹ بجلی تک کا اضافہ نہ کیا گیا‘ جس سے سالانہ 46 ارب روپے کا نقصان ہوتا رہا۔ بجلی پیدا کرنے کے بعد اس کی سپلائی کے لئے جدید نظام کی ضرورت ہوتی ہے‘ جو ہمارے ہاں موجود نہیں ہے۔ اس سے بھی مبینہ طور پر 1500 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے مالکان غریب عوام کو امریکہ اور یورپی ممالک سے بھی زیادہ ریٹس پر بجلی فروخت کرکے بے تحاشہ امیر ہو چکے ہیں۔ نون لیگ کی حکومت نے اپنی آمد پر ان کمپنیوں کو سرکلر ڈیٹ کی صورت میں 480 ارب روپے کی سلامی دی تھی‘ جس کے صرف 6 ماہ بعد سرکلر ڈیٹ ایک بار پھر 180ارب روپے ہوگئے۔ جس ملک کے 80 سے 90 فیصد عوام غریب ہوں‘ اووربلنگ کی صورت میں ان سے اربوں روپیہ وصول کرنے کے کارنامہ کو کیا نام دیں؟ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم اگر دھرنوں کو ناکام بنانا چاہتی ہے تو لوگو ں سے کئے وعدے پورے کریں ان کی امیدوں پر پورا اتریں۔ فراز نے کہا تھا کہ :
تُو، تو لاپروا ہی تھا، اب لوگ بھی پتھر ہوئے
یا ہمیں تُجھ سے تھی یا اُمید تیرے شہر سے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved