''پہلی اور جارح ترین بدمعاش مملکتیں وہ ہیں جنہوں نے اس بین الاقوامی قانون کو نظر انداز کررکھا ہے اور اس کی خلاف ورزی کو جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی یہ علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں، وہ قانون جس کے نام پر وہ بولتی ہیں اور جس کے نام پر وہ ان نام نہاد بدمعاش ریاستوں کے خلاف ہر بار جنگ آزما ہوتی ہیں جب یہ ان کے مفادات میں ہوتا ہے، اور ان ریاستوں کا نام ہے ریاستہائے متحدہ...
وہ ریاستیں جو اس قابل ہیں یا اس پوزیشن میں ہیں کہ ان ' بدمعاش ریاستوں ‘ جو قانون کی خلاف ورزی کرتی ہیں یا جو قانون کے حدود میں رہنے اور انحراف اور خرابی پیدا کرنے کا ارتکاب کرتی ہیں اور وہ ریاستہائے متحدہ جو بین الاقوامی قانون کی پاسداری کا دعویٰ کرتی ہیں اور جو جنگ میں پہل کرتی ہیں اور جو پولیس اور دیگر امن وامان قائم کرنے والے اداروں کی مدد سے ایسا کرتی ہیں کیونکہ وہ ایسا کرنے کی طاقت رکھتی ہیں اور یہ ریاستیں جن کا نام ریاستہائے متحدہ ہے اور اپنی ہم خیال ریاستوں کے ہمراہ ان اقدامات کی ذمہ دار ہیں اور جو بجائے خود ، خودمختار ہیں ، اولین بدمعاش ریاستیں ہیں۔‘‘
یہ اقتباس ژاک وریدا کے ایک مضمون سے لیاگیا ہے جسے نامور نظم گو عبدالرشید نے اپنے نئے شعری مجموعے '' سمیع آہوجا کے لیے نظمیں‘‘ کا سرنامہ بنایا ہے اور جس کے بعد خاکسار کا یہ مصرع بھی ٹانک دیا ہے ع
بے موسما کِھلا ہے یہ گلزار کس لیے
واضح رہے کہ سمیع آہوجا ہمارے ملک کے ایک ممتاز افسانہ نویس ہیں جو ایک زمانے میں خود جنگی قیدی رہے ہیں جس سے متعلقہ ساری اذیتیں وہ خود اٹھاچکے ہیں اور جن میں سے اکثر کا بیان ان کی کہانیوں میں بھی ملتا ہے۔ اس سے پہلے عبدالرشید کے بارہ شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں جن میں انی کنت من الظالمین، اپنے لیے اور دوستوں کے لیے نظمیں ، پھٹا ہوا بادبان ، خزاں اور میں ، صبح کا پہلا کبوتر ، نیند ،موت اور بارش کے لیے نظمیں ، انور ادیب کے لیے نظمیں، بنکاک میں اجنبی، افتخار جالب کے لیے نوحہ ، چار پرندے ، پیرس میں سال کا آخری دن اور جس کا موسم ٹھہر گیا ہے شامل ہیں۔
عبدالرشید کا تعلق شاعروں ادیبوں کی اس کھیپ سے ہے جنہوں نے ساٹھ کی دہائی میں لسانیات کے حوالے سے ایک باقاعدہ تحریک چلائی تھی اور جس میں ان کے علاوہ افتخار جالب، انیس ناگی، تبسم کاشمیری ، سمیع آہوجا، عزیز الحق ، ڈاکٹر سعادت سعید اور دیگران شامل تھے۔ ان کا تعلق پاکستان پوسٹل سروس سے تھا جبکہ آپ پوسٹ ماسٹر جنرل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ہیں۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے کہ ممتاز نظم گو ضیا جالندھری کا تعلق بھی پوسٹل سروس ہی سے تھا۔ آپ حلقہ ار باب ذوق کے اساسی ارکان میں سے ہیں۔ یہ تحفہ کتاب ادارہ سانجھ نے چھاپی ہے اور اس کی قیمت 325روپے رکھی گئی ہے۔ کتاب کسی دیباچے یا تعارف کے بغیر ہے جس کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ نہایت عمدہ گیٹ اپ میں شائع کی گئی اس کتاب میں 56 نظمیں ہیں اور یہ زائد از 200صفحات کو محیط ہے ، یہ آزاد نظمیں ہیں جن میں متعدد نثری نظمیں بھی شامل ہیں۔ خوبصورت ٹائٹل بینش آہوجا کا تیار کردہ ہے۔
یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ غزل کی بے پناہ مقبولیت کے باوجود قاری پوری سنجیدگی سے نظم کی طرف رجوع کرنے لگا ہے اور نظم ایک طرح سے غزل کے مقابلے پر آتی محسوس ہوتی ہے جبکہ اکثر نئے شعراء بطور خاص نظم نگاری پر مائل ہورہے ہیں۔ پہلے جو مجموعے شائع ہوتے تھے ان میں غزلیں اور نظمیں ایک ساتھ شائع ہوتی تھیں، لیکن اب خالص نظموں پر مشتمل مجموعے بھی شائع ہورہے ہیں جبکہ صنف نظم اجنبیت کے مدار سے نکل کر مقبولیت کا بھی دعویٰ رکھتی ہے بلکہ ان دونوں کے آپس کے فاصلے بھی ایک طرح سے رفتہ رفتہ کم ہوتے جارہے ہیں جبکہ غزل روایت، اور نظم جدت کی نشانی خیال کی جاتی ہے اور اس میں تو کوئی شک ہے ہی نہیں کہ مستقبل نظم ہی کا ہے۔
نظم کی کوئی خوبی بیان نہیں کی جاسکتی کیونکہ یہ تو بس ہوتی ہے اور میں نے ایک جگہ کہہ رکھا ہے کہ نظم کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اسے جہاں پر آپ ختم کریں وہاں سے کسی وقت اسے آگے بھی جاری کرسکتے ہیں ، بلکہ کسی شاعر کی نظم کو کوئی اور شاعر بھی آگے رواں کرسکتا ہے اور یہ ایک طرح سے ایک طلسمی معاملہ بھی ہے۔ عبدالرشید کی نظمیں نہ صرف اپنے آپ کو پڑھواتی ہیں بلکہ آپ کے ساتھ دوستی بھی کرتی نظر آتی ہیں۔ اس لیے میں ان کے خصائص اور خوبیاں بیان کرنے کی بجائے ان کی ایک نظم ہی آپ کے سامنے رکھتا ہوں:
ہوا صفحے الٹتی ہے
ہوا صفحے الٹتی ہے، ستمبر گرد سے نکلی/ سوار ی ہے ،زمیں بِسرے ہوئے خوابوں کو/پہلو میں سجاتی ہے/ جو شب کی گود میں لیٹے ہیں ان پر نیند/ بھاری ہے ، مقفل دل پہ ان کے دستخط / تاخیر سے ہیں/ شہر کی آب و ہوا آلودگی سے منفعل ہے/ اور حجاب و شرم کے مابین اپنی زندگی کو/ ملتوی رکھنے پہ ہم مجبور ہیں/ جب ان گلی کوچوں کی آوازیں / شکستہ ہوکے پھرہرزہ سرائی کی طرف مڑتی ہیں/ اور پھر المیے کے سوزمیں تبدیل ہوتی ہیں/ یہ لمحہ وہ رفاقت ہے جو گر یہ ہے کسائو ہے/ سخن کی آزمائش ہے مگر پھر / وقت کی قلت ہے کیسے روٹھ کر دامن لپیٹیں / اور پلٹ جائیں ، یہی دنیا دواہے اور یہی دارو/ یہ ایسی نیند ہے ،سو کر اٹھیں اور تازہ دم ہوں/ سانس سے ساری کدورت کھینچ کر باہر نکالیں / اس بدلتی رت کو اپنے ہوش سے مہمیز دیں / اس کے جتنے نام ہیں ان کو سنواریں / بس ذرا سی یہ خرابی ہے/ بدن پر یاد کا دھبہ ہے اور جو پھیلتا ہے/ نظم میں بکھرے ہوئے وہ حادثے وہ المیے/ ذائقہ ہیں مست آنکھوں کے لیے / کتنا ٹٹولیں بند کمروں کی حرارت / بند کمروں کی گھٹن کے آس پاس / احساس کے وہ ڈولتے دھاگے /سرے جو ان بنی روئیدگی کا بیج ہیں ارمان ہیں / فنا پھولوں کا ماتھا چومتی ہے اور مصرعوں کی / سیاہی میں کہیں روپوش ہے، ویسے بھی اتنی رات ہے/ جو بے سکونی ہے وہی حرکت میں رکھتی ہے/ جو دریا بہہ گئے وہ بہہ گئے اور ان کے پیندے میں / جہاں پرآبیاری کا کوئی موقع تھا وہ بھی کھو گیا/ اب جابجا بکھرے ظروف اور ان کے ابھرے خال و خد کی ممکنہ تحریر ہے/ یا رات کی چوکھٹ کے کچھ قصے / برائے نام جن کے ذکر سے کچھ اور بھی الجھن بڑھے / اور روبرو جو آئینہ ہے ، اور خیال و خواب کی /جو دھند ہے اس کے عقب میں / کچھ نہ کچھ قسموں کی حدت میں اگر کچھ جان باقی ہے/ اگر کچھ سانس پس انداز ہیں / جن میں رمق جیسی کوئی شے ہے/ اٹھیں اور ہمنوا کو ساتھ لیں اور دھول کو جھاڑیں/ یہاں پھر آرزو کے بعد جو کچھ بچ رہا/ اپنے لیے اک نیم مردہ اعتبار...اپنے لیے اک درد کی بے پردگی اور اس کا حُزن /اور وہ سپنے جنہیں سنتے رہے دہلیز سے دیوار تک/ وہ سپنے دفن ہوجانے سے پہلے آخری کروٹ /بدل کر جس حقارت سے ہمیں تکتے ہیں/ ہم ہی جانتے ہیں۔
آج کا مطلع
سکوں ملا کسی طوفان سے گزرتے ہوئے
میں زندہ ہو گیا ہوں جان سے گزرتے ہوئے