پولیو ایک خطرناک بیماری ہے ،جس کے نتیجے میں انسان جسمانی طور پر معذور ہوجاتاہے اور وہ اپنی پوری جسمانی استعداد کے مطابق کام کرنے کے قابل نہیں رہتا ۔طبی ماہرین کے مطابق یہ ایک مُتعدی (Contagion)مرض ہے ۔عالمی برادری پولیو کی بیماری کے خاتمے کی کوشش کررہی ہے۔ اِس سلسلے میں عالمی ادارۂ صحت WHO اور عالمی ادارۂ اطفال Unicef فعال ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک جدہ گروپ اورامریکہ کی بل گیٹس فاؤنڈیشن اس کے لئے مُعتَد بہ مالیاتی وسائل فراہم کررہے ہیں ۔ عالمی برادری کو تشویش ہے کہ پاکستان اِس مرض کے خاتمے میں ناکام ہے اور وقتاً فوقتاً یہاں پولیو سے متاثرہ بچوں کے شواہد ملتے رہتے ہیں ۔ہمارے قبائلی علاقے اور ملک کے دیگر حصوں میں افغان مہاجرین اور قبائلی علاقے کے لوگوں کی آبادیاں بطورِ خاص اِس بیماری کے خاتمے کی راہ میں رکاوٹ ہیں ۔ خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور ملک کے بعض دیگر علاقوں میں پولیو ویکسین کی طبی ٹیموں کی مزاحمت اور اُن پر حملوں کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں ۔گزشتہ سال صوبۂ خیبر پختونخوا کی حکومت نے ''صحت کا انصاف‘‘ کے عنوان سے بڑے پیمانے پر سکیورٹی ادارہ کی نگرانی میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کی مہم بھی چلائی ، لیکن اب اُس کی قیادت کی ترجیح بدل گئی ہے اور وہ سرِدست'' نیا پاکستان ‘‘بنانے میں مصروفِ عمل ہوگئے ہیں۔
ہم بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے حامی ہیں ۔الحمدللہ ہمارے خاندان میں ڈیڑھ درجن کے قریب ڈاکٹرز ہیں اور اِن میں مختلف شعبوں کے اسپیشلسٹ بھی شامل ہیں ،اِس لئے ہمارے لئے اِس کی اہمیت کو سمجھنا آسان ہے ۔ رسول اللہﷺ نے بھی مہلک امراض سے بچاؤکے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم فرمائی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شام کے سفر پر تھے کہ سَرغ نامی بستی سے گزر ہوا ۔ حضرت ابوعبیدہ بن جراح اور اُن کے ساتھیوں نے بتایا کہ اِس بستی میں طاعون کی وباپھیل گئی ہے ۔حضرت عمر فاروق ؓنے مہاجرین وانصار صحابۂ کرام اور اکابرِ قریش (جوفتح مکہ کے موقع پر موجود تھے) سے مشورہ کیا اور اجتماعی مشاورت سے اُنہوں نے بستی میں داخل نہ ہونے کا فیصلہ کیا ۔حضرت ابوعبیدہ بن جراح نے کہا :آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہیں ؟، حضرت عمر ؓنے جواب دیا : ہاں! اللہ کی تقدیر سے بھاگ کر اللہ کی تقدیر کی آغوش میں پناہ لے رہاہوں ۔پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف آئے اور اُنہوں نے کہا: اِس حوالے سے میرے پاس رسول اللہﷺ کی ہدایت موجود ہے ،آپﷺ نے فرمایا: ''جب تم کسی بستی میں اِس وباکے بارے میں سنو ، تووہاں نہ جاؤ اور جس جگہ تم پہلے سے موجود ہو ،اگر وہاں یہ وبا آجائے تو بھاگ کر نہ جاؤ ‘‘۔یہ سن کر حضرت عمر ؓبن خطاب نے اللہ کا شکر اداکیا اور اپنا سفر آگے کی طرف شروع کردیا ،(صحیح مسلم مُلخصاً:2219)۔
اِس سے معلوم ہواکہ مسلمان کو کسی وباسے بچنے کے لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں اور حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا توکُّل اورتقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے ،بلکہ یہی حقیقتِ توکُّل ہے کہ اسباب کو اختیار کیاجائے اور اَسباب کو مُؤثِّر بِالذّات ماننے کی بجائے ذاتِ مُسبّب الاسباب پر ایمان رکھاجائے، کیونکہ اسباب میںتاثیر اُسی نے پیداکی ہے اور اُسی کے حکم سے یہ موثر ہوتی ہے اورتقدیرِ الٰہی پر ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے ۔چنانچہ ایک اور حدیث میں رسول اللہﷺ نے فرمایا : '' بیمار کو تندرست سے دوررکھاجائے ،(صحیح مسلم:2221)‘‘۔ظاہر ہے کہ اِس سے مراد یہی ہے کہ وبائی امراض سے بچنے کے لئے احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں ۔ایک اورحدیث میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:'' جذام کے مریض سے بچوجیسے تم شیر سے بچتے ہو ‘‘۔ دوسری حدیث میںہے :''رسول اللہﷺ نے جذام کے مریض کو اپنے ساتھ بٹھاکر ایک برتن میں کھانا کھلایا ‘‘۔ رسول اللہﷺ کے اِس شِعار کا مقصد یہ ہے کہ کسی وبائی مرض میں مبتلا مریض سے احتیاط تو کی جائے ،لیکن اُس سے نفرت نہ کی جائے تاکہ اُسے حوصلہ ملے اور اُس کے دل میں احساسِ محرومی پیدانہ ہو ۔چنانچہ آج بھی ڈاکٹر اورطبی عملہ ایسے مریضوں کا علاج کرتے ہیں ،مگر ساتھ ہی احتیاطی تدابیر بھی اختیار کرتے ہیں ۔
ایک حدیث ِ پاک میں ہے کہ ''کوئی مرض مُتعدی نہیں ہوتا ، (صحیح مسلم:2220)‘‘۔اِس حدیث کی شرح میں علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں : '' بظاہر اِن دونوں حدیثوں میں تعارض (Contradiction)ہے کہ ایک حدیث میں مرض کے مُتعدی(Infectious) ہونے کی نفی ہے اور دوسری حدیث میں ایسے بیمار کے قریب جانے سے منع کیاگیاہے ،اِن دونوں حدیثوں میں تطبیق ضروری ہے ۔پہلی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ '' مرض میں چھوت چھات کی تاثیر اللہ ہی کی پیداکی ہوئی ہے اور اللہ ہی کے حکم سے وہ مؤثر ہوتی ہے ،کسی چیز میں کوئی تاثیر ذاتی نہیں ہوتی ‘‘۔ اگرایسا ہوتا تودوااستعمال کرنے والا اور طبیب سے رجوع کرنے والا ہرمریض شفایاب ہوجاتا ،لیکن ہمارا مشاہدہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا ۔پس جس کے لئے اللہ کا حکم ہوتاہے ،اُس کے حق میں ڈاکٹر کی تشخیص درست اور دوا وسیلۂ شفابن جاتی ہے ۔
چنانچہ جب رسول اللہﷺ نے مرض کے بذاتہٖ مُتعدی ہونے کی نفی فرمائی تو ایک اَعرابی نے سوال کیا : یارسول اللہ ! اُونٹ ریگستان میں ہرن کی طرح اُچھل کود کررہے ہوتے ہیں کہ خارش زَدہ (Scabious)اُونٹ وہاں آتاہے اور ریوڑ میں گھس جاتاہے اور اُس کے نتیجے میںسارے اُونٹ خارش کی بیماری میں مبتلا ہوجاتے ہیں ،تورسول اللہ ﷺ نے فرمایا: پہلے اُونٹ کو خارش کہاں سے لگی ؟، (صحیح مسلم:2220)‘‘۔اِس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض کے مُتعدی ہونے کی نفی نہیں فرمائی ،بلکہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کی طرف مُتوجہ فرمایا اور بتایا کہ سارانظامِ اسباب، مُسبِّبُ الاسباب کے حکم کے تابع ہے ،لہٰذا اسباب کو ضرور اختیار کیاجائے ،مگرہرچیز کو قادرِ مُطلق کے حکم کے تابع سمجھاجائے ۔صرف سبب اور مُسبّب اور علت اور معلول کے تانے بانے کوہی مؤثرِ حقیقی ماننا الحاد ہے اور ایسے ہی لوگوں کو Ethiestکہاجاتاہے ۔
اب آیئے! اصل مسئلے کی طرف ،حکومت اور ساری دنیا کو معلوم ہے کہ پولیو کے حوالے سے ایک مزاحمت موجود ہے ، جب امریکہ نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کے ذریعے اُسامہ بن لادن کی تلاش میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کوجاسوسی کے مقاصد کے لئے استعمال کیا ،تو مخالفین کے ہاتھ ایک مزید حربہ آگیا ۔اِس کا مداوا کسی حدتک اِس طرح ہوسکتاتھاکہ امریکہ عالمی برادری کو یقین دلاتا کہ آئندہ ایسانہیں ہوگا اور اَقوامِ مُتحدہ بھی اِس کی مذمت کرتی ،لیکن ظاہر ہے کہ امریکہ کے سامنے کھڑے ہونے کا حوصلہ کسی میں نہیں ہے ۔
ہماری حکومتیں اورعالمی ادارے بھی سہل پسند لوگ ہیں ،اِس لئے اُن کی ساری تگ ودَو اُن علماء تک رسائی حاصل کرنے میں ہوتی ہے ،جو نہ صرف یہ کہ اس کی مزاحمت نہیں کرتے بلکہ اس کے حامی ہیں۔ ضروری ہے کہ حقیقت پسندی سے کام لیاجائے اور اِس طرح کے لوگوں کے خدشات کا اِزالہ کیاجائے تاکہ منفی پروپیگنڈا کرنے والوں کوحقائق وشواہد کے ساتھ علمی اورفکری سطح پر اطمینان بخش جواب دیئے جائیں۔اِن خدشات میں پولیو ویکسین کا معیاری اور مُصدّقہ (Certified) ہونا بھی شامل ہے ،کیونکہ اِس طرح کے واقعات بھی حال ہی میں رپورٹ کئے گئے ہیں کہ پولیو کے قطرے پلانے سے بچہ معذورہوگیایا اُس کی موت واقع ہوگئی ،اگر اِس طرح کی رپورٹس خلافِ واقعہ ہوں اور محض جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی ہو تو ثبوت کے ساتھ اُس کی تردید کی جاسکتی ہے ۔حقائق سے آنکھیں بند کرکے کامیابی کی منزل کو پانا دشوار ہے ، بلکہ حقائق کا سامنا کرنے سے ہی یہ گوہرِ مقصود حاصل ہوگا ۔
اگر اِس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیاگیا تو جہاں دنیابھر کے ایئر پورٹس پر امیگریشن کے حوالے سے پاکستانیوں کو خصوصی جانچ پڑتال (Special Search)سے گزرنا پڑتاہے،وہاں ہرپاکستانی کو پولیوکے قطرے بھی پلائے جائیں گے اور ایک طرح سے عالمی سطح پر یہ رُسوائی کا اضافی اہتمام ہوگا ۔