افغان صدر اشرف غنی کے دورہ پاکستان اور ہمارے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف کے دورہ امریکہ ‘ کے اثرات و نتائج بہت دیر تک سامنے آتے رہیں گے۔ میں بھی انشاء اللہ اس پر تفصیل سے لکھوں گا۔ پاکستان میں جو موضوع آج ہر طرف زیربحث ہے‘ میں بھی اسی پر اظہار خیال کروں گا اور یہ موضوع ہے‘ لاڑکانہ میں عمران خان کا جلسہ۔ پاکستانی سیاست عملی طور پر بیشتر اوقات قومی نہیں‘ قومیتی رہی ہے۔ یہاں وزرائے اعظم بہت بنے‘ لیکن بھٹو اور ان کی صاحبزادی کے سوا‘ ان میں قومی لیڈر کوئی نہیں تھا‘ جس نے چاروں صوبوں سے بھاری تعداد میں ووٹ لئے ہوں۔ ان کے سوا‘ جتنے بھی وزرائے اعظم آئے‘ ان میں کوئی بھی چاروں صوبوں سے قابل ذکر ووٹ حاصل نہیں کر پایا۔ محمدخاں جونیجو‘ پاکستان تو کیا؟ صوبہ سندھ کے لیڈر بھی نہیں تھے۔ وہ صرف اپنے حلقہ انتخاب میں معروف تھے۔ بی بی کے بعد جو شخصیت‘ اس منصب پر فائز ہوئی‘ وہ میاں نوازشریف ہیں۔ وہ تین بار ملک کے وزیراعظم بنے ہیں‘ لیکن ایک بار بھی انہوں نے سندھ سے اکثریتی تو کیا؟ قابل ذکر ووٹ بھی حاصل نہیں کئے اور جہاں تک مجھے یاد ہے‘ انہوں نے پاکستان کے واحد عوامی لیڈر ذوالفقار علی بھٹو کے علاقے میں جا کر‘ کبھی جلسہ نہیں کیا اور مجموعی طور پر باقی صوبہ سندھ میں بھی مجھے ان کا کوئی جلسہ یاد نہیں۔سکھر وہ بہت جاتے رہے ہیں‘ مگر عوامی جلسے میںان کا کوئی خطاب مجھے یاد نہیں۔ ظفر اللہ خان جمالی‘ چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز پاکستان کے وزرائے اعظم رہے۔ ان میں سے کوئی بھی قومی لیڈر نہ تھا۔ جمالی صاحب کا تعلق بلوچستان اور چوہدری شجاعت کا تعلق پنجاب سے ہے اور شو کت عزیز کا پورے پاکستان ہی سے کوئی تعلق نہ تھا۔
عمران خان واحد لیڈر ہیں‘ جو رابطہ عوام کی مہم چلاتے چلاتے پنجاب‘ خیبرپختونخوا کے بعد‘ اب سندھ پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں مذکورہ تینوں صوبوں میں‘ انہوں نے قابل ذکر تعداد میں و وٹ حاصل کئے اور خیبرپختونخوا میں تو صوبائی حکومت بنانے میں بھی کامیاب رہے۔ پنجاب میں انہوں نے بہت ووٹ حاصل کئے اور کراچی میں انہیںملنے والے ووٹوں کی تعداد بھی کم نہیں۔ مجموعی طور سے انہوں نے‘ عام انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں میں‘ دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ ووٹ حاصل کئے۔ اپنی 18سال کی سیاسی زندگی میں وہ پہلی بار اندرون سندھ جا کر‘ براہ راست عوام سے ملے ہیں۔ ان کے خیالات سنے ہیں۔ مسائل کو سمجھا ہے اور قابل تعریف بات یہ ہے کہ کسی معاملے میں بھی ضد سے کام نہیں لیا‘ جیسا کہ ان کے بارے میں مشہور ہے۔ عوامی زندگی‘ لیڈر کو یہی سکھاتی ہے کہ وہ ان کے درمیان رہ کر ہی‘ ان کے بارے میں سیکھتا ہے اور لیڈر عوام کے درمیان رہے‘ تو عوام کو بھی اس کے بارے میں سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ یہ دوطرفہ ابلاغ نہ ہو‘ تو جمہوری رشتے قائم ہی نہیں ہو سکتے۔ عمران کے حالیہ دورہ لاڑکانہ کے دوران‘ ان کا قدیم سندھیوں کے ساتھ اجتماعی رابطے کا پہلا موقع تھا۔جلسے کی خاطر انہوں نے چند روز میں سندھیوں سے جو رابطے اور تبادلہ خیال کیا‘ اس کے نتیجے میں ان کے بعض بنیادی خیالات‘ حیرت انگیز انداز سے بدلے۔ جب تک لیڈر براہ راست عوام میں جا کر انٹرایکشن نہیںکرتا‘ اسے زمینی حقائق کا ادراک نہیں ہوتا۔ اندرون سندھ‘ اپنے پہلے جلسے میں ہی عمران نے سندھیوں کی سوچ سے جو آگاہی حاصل کی‘ اس کا اظہار پہلی مرتبہ ہوا۔ اس معاملے میں سندھی عوام کے علاوہ مخالفین نے بھی فراخدلی سے ان کی رہنمائی کی۔ عمران نے دونوں سے ہی بہت کچھ سیکھا۔ مثلاً کالاباغ ڈیم اور سندھ میں نئے صوبوں کے قیام کے سوال پر‘ عمران نے اپنے جلسے میں جس موقف کا اظہار کیا‘ وہ انٹرایکشن کا نتیجہ تھا۔ ان کے منشور میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا ارادہ ظاہر کیا گیا تھا‘ لیکن اندرون سندھ اپنے پہلے جلسے میں ہی انہیں اندازہ ہو چکا تھا کہ سندھی عوام‘ اس منصوبے کے شدید مخالف ہیں۔ عمران خان نے جلسے کے حاضرین کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے‘ اپنے موقف میں تبدیلی کر دی اور جلسے میں انہوں نے کہا کہ'' آپ کی مرضی کے بغیر نہ تو کالاباغ ڈیم بنے گا اور نہ سندھ کو تقسیم ہونے دیا جائے گا۔‘‘ میرا خیال تھا کہ اندرون سندھ ان دونوں معاملوں میں عمران کو اپنا موقف پیش کرنے میں مشکل پیش آئے گی‘ لیکن انہوں نے حیرت انگیز طور پر لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے‘ عوام کی مرضی کے سامنے اپنا سر جھکا دیا اور ثابت ہو گیا کہ جمہوریت میں کسی کی ضد نہیں چلتی‘ صرف عوام کی مرضی چلتی ہے۔ عمران خان نے اس لچک کا مظاہرہ کر کے ثابت کر دیا کہ وہ عوامی جذبات سے ٹکرانے کی بجائے‘ ان کا احترام کرنا سیکھ چکے ہیں۔ لچک کے اس مظاہرے نے ان خدشات کا ازالہ کر دیا ہے‘ جن میں کہا جاتا رہا کہ وہ ایک ضدی انسان ہیں اور امور مملکت میں سیاست کے کسی بھی اعلیٰ عہدیدار کی ضد‘ ملک و قوم کے لئے نقصان کا باعث بھی بن جاتی ہے۔ لاڑکانہ میں عملی طور پر ثابت ہو گیا کہ عمران ‘ عوام کی خواہشات کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی اہلیت پیدا کر چکے ہیں۔ میں ہی نہیں ملک کے لاکھوں عوام اس تجربے سے گزرے ہیں کہ عمران خان نے گزشتہ 100دنوں کے دوران کس طرح ہر روز اپنے آپ کو عوامی خواہشات کے مطابق ڈھالا ہے۔فن خطابت‘ جس میں وہ بہت شرمیلے ہوا کرتے تھے‘ اب وہ اس میں حیرت انگیز مہارت حاصل کر چکے ہیں اور میں اعتماد سے لکھ سکتا ہوں کہ سیاست کے میدان میں‘ اب کوئی لیڈرخطابت میں ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ آج وہ صف اول کے مقرر بن چکے ہیں۔ نوازشریف بھی بہت اچھے مقرر ہیں‘ لیکن انہوں نے خطابت کا فن‘ اقتدارمیں آنے کے بعد اس طرح سیکھا‘ جس طرح ذمہ داریاں سر پڑنے کے بعد کوئی اسکے تقاضوں کو سمجھتا ہے۔ عمران ذمہ داریاں ملنے سے پہلے ہی تیزرفتاری سے‘ اپنے آپ کو تبدیل کر رہے ہیں اور حالات کو وہی بدل سکتا ہے‘ جس نے اپنے آپ کو ٹھوس حقائق کے مطابق تبدیل کرنا سیکھ لیا ہو۔
نوازشریف سیاست میں‘ عمران سے بہت سینئر ہیں‘ لیکن وہ سندھ کی سیاست کو سمجھنے میں اس سوجھ بوجھ کا مظاہرہ نہیںکر پائے‘ جو عمران خان نے کر لیا۔ سندھ میں اربن سیاست کے تقاضے الگ ہیںاور دیہی سیاست کے الگ۔ جہاں تک اربن سیاست کا تعلق ہے‘ عمران نے براہ راست عوام کے مسائل کو سمجھا۔ ان کے مزاج اور طور
طریقوں کا اندازہ کیا اور اس کے مطابق وہاںاپنی سیاست شروع کی اور کسی بھی غیرسندھی کے مقابلے میں زیادہ کامیاب رہے۔ گزشتہ انتخابات میں جتنے ووٹ انہوں نے حاصل کئے‘ پہلے کسی غیر سندھی سیاستدان کو یہ اعزاز نہیںملا تھا اور اب عمران خان اندرون سندھ گئے ہیں‘ تو قدیم سندھیوں کی حکمران کلب میں براہ راست جا دھمکے ہیں۔ ان کی میزبانی اور جلسے کا اہتمام شفقت انہڑ کے سپرد تھا ۔ انہڑقبیلہ‘ سندھ کی سیاست میں اپنا ایک وزن رکھتا ہے اور افرادی قوت میں بھی اس کی پوزیشن پہلے پانچ قبیلوں میں بتائی جاتی ہے۔ مجھے یادہے‘ بھٹو صاحب جو خود قدیم سندھی تھے‘ انہیں اس وقت اپنی کامیابی پر زیادہ اعتماد ہو گیا‘ جب چانڈیو قبیلے نے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ عمران خان نے تو پہلے ہی مرحلے میں انہڑقبیلے کی حمایت سے لاڑکانہ پہنچ کر جلسہ کر ڈالا۔میری معلومات کے مطابق عمران ‘سندھی سیاست کے مزاج کو سمجھتے ہوئے‘ سوچ سوچ کر قدم بڑھا رہے ہیں۔سننے میں آیا ہے کہ بہت سے سندھی سیاستدان‘ تحریک انصاف میں شمولیت پر آمادہ ہیں‘ لیکن تحریک انصاف‘ مقامی سیاست کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے‘ اپنے دروازے کھولے گی۔ مثلاً وہ اس صورتحال سے دوچار نہیںہونا چاہتی کہ ایک دوسرے کے روایتی مخالفین‘ ان کی پارٹی میں شامل ہو جائیں اور بعد میںان کی باہمی کش مکش ‘ پارٹی کے لئے مشکلات پیداکرے۔ عمران گزشتہ انتخابات کے دوران ٹکٹوں کی تقسیم کے عمل میں ایسے تجربات سے گزر چکے ہیں۔ اب وہ اندرون سندھ پارٹی کی تنظیم ہی‘ اس احتیاط سے کر رہے ہیں کہ جو بااثر شخصیتیں یا قبیلے‘ تحریک انصاف میں شامل ہوں‘ وہ ضرورت کے تحت اپنے باہمی تضادات پر قابو پا سکتے ہوں۔ بھٹو خاندان نے سندھ کے ساتھ ساتھ باقی تینوں صوبوں کو بھی پسندیدہ سیاسی قیادت فراہم کی۔ عمران خان دو صوبوں میں یہ حیثیت حاصل کر چکے ہیں۔ سندھ میں انہوں نے قدم رکھ دیا ہے اور اگلے چند ہفتوں میں وہ بلوچستان جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سندھ میں انہیں زبردست پذیرائی حاصل رہی ہے۔ بلوچستان سے بھی ایسی ہی امیدیں ہیں۔ بھٹوخاندان کے بعد‘ عمران خان پہلے لیڈر ہیں‘ جو چاروں صوبوں کے عوام کے پسندیدہ لیڈر کی حیثیت میں سامنے آئیں گے۔اگر حالات میں کوئی انقلابی تبدیلی پیدا نہ ہو گئی‘ تو پاکستانی سیاست کا مستقبل امیدافزا دکھائی دے رہا ہے۔