سابق صدر اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف دستور کی دفعہ 6 کے تحت چلائے جانے والے مقدمے میں خصوصی عدالت نے ایسا فیصلہ صادر کردیا ہے، جس پر پرویز مشرف کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں۔ انہوں نے جناب الطاف حسین سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے ان کی ''اخلاقی مدد‘‘ کے لئے پر جوش شکریہ ادا کیا ہے۔ واضح رہے کہ ان کے آخری وکیل بیرسٹر فروغ نسیم ایم کیو ایم کے سینیٹر ہیں، اس لئے ان کی وکالت کو ایم کیو ایم کا تحفہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ آخری اس لئے کہ جنرل موصوف نے اپنے خلاف مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے نامی گرامی وکلاء کا جو اکٹھ کیا تھا، وہ ان کے کسی کام نہیں آسکا ان کے تمام تر حیلوں کے باوجود وہ مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرسکے لیکن جب بیرسٹر فروغ نسیم کی خدمات حاصل کی گئیں، تو رخ بدل گیا۔ جنرل موصوف خصوصی عدالت کے سامنے اس امید پر پیش ہوئے کہ اس کے بعد وہ باہر جانے کے لئے آزاد ہوں گے۔ باخبر حلقے بتاتے ہیں کہ وزارت داخلہ کی طرف سے آسمانی طاقتوں کو یقین دہانی کرائی جاچکی تھی، لیکن عین وقت پر سب کچھ دھرے کا دھرا رہ گیا۔ خصوصی عدالت کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے باوجود کہ اسے پرویز مشرف کے باہر جانے پر کوئی پابندی مطلوب نہیں ہے، وزیراعظم ہائوس آڑے آگیا۔ پرویز مشرف اُڑ نہ سکے اور اس کے بعد بہت کچھ اڑا، بے پر کی بھی اور پر والی بھی، خاک بھی بہت اُڑی اور اُڑائی گئی اور اب تک ماحول اس سے آزاد نہیں ہوا۔
اب تین رکنی خصوصی عدالت نے اکثریتی فیصلہ یہ سنایا ہے کہ نومبر 2007ء کی ایمرجنسی کے نفاذ کی ذمہ داری میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو بھی شریک ملزم قرار دیا جائے، تو پرویز مشرف اور ان کے وکیل بغلیں بجارہے ہیں۔ فیصلے کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے سر پر الزام بدستور موجود ہے۔ ان کی بریت کا کوئی سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا گیا، بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کہ اشارۃً یا کنایۃً بھی اس کا کوئی اہتمام موجود نہیں ہے، تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ بڑے ملزم جشنِ مسرت کیوں منا رہے ہیں؟ اور فیصلے میں سے وہ کیا چیز نکالی جارہی ہے، جو اس کے الفاظ میں موجود نظر نہیں آرہی۔ جواب تلاش کرنے کے لئے چھان پھٹک کی جائے تو پتہ چلتا ہے جنرل موصوف کو وقت وافر مقدار میں میسر آگیا ہے، ان کے مخالف یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی رسی دراز ہوگئی ہے۔ یہ جو توقع لگائی جارہی تھی کہ فیصلہ آئے گا تو قصہ تمام ہوجائے گا، اس پر پانی پھر گیا ہے۔ خصوصی عدالت نے جن 3 افراد کو ملزم نامزد کیا ہے، ایف آئی اے کی تفتیشی ٹیم کو ان کے بیانات لینا ہوں گے، نئے مواد مقدمہ کا جائزہ لینا اور اسے مرتب کرنا ہوگا۔ یہ شاید تو کیا یقیناً 15 دنوں میں ممکن نہیں ہوسکے گا۔ جن تین افراد کو شریک ملزم بنایا گیا ہے، ان میں سے ہر ایک اس حکم کو چیلنج کرسکتا ہے، سپریم کورٹ میں درخواستیں دائر ہوں گی اور ان کی سماعت کے لئے بھی وقت درکار ہوگا۔ پرویز مشرف اگرچاہیں تو خود بھی اپیل دائر کرسکیں گے کہ انہوں نے تو چھ سو افراد کو اپنا ''شریک جرم‘‘ بنایا تھا (ان میں اعلیٰ فوجی افسران اور اہل سیاست سب شامل ہیں) خصوصی عدالت نے صرف تین پر انگلی کیوں رکھی۔ حکومت کو وقت اور سرمایہ ضائع کرنے کا شوق ہو تو وہ بھی سپریم کورٹ پر دستک دے سکتی ہے کہ اچھے بھلے ''واحد ملزم‘‘ کی موجودگی میں تین افراد کا اضافہ کس خوشی میں کرلیا گیا۔ اس طرح شب ہجراں کی طرح معاملہ طویل ہوسکتا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا عہد اس دوران تمام ہوجائے، تو پھر نئی صورت حال میں نئے فیصلے ہوسکیں گے۔
خصوصی عدالت کے فیصلے کی بلائیں لیجئے کہ اس کے ذریعے وہ کچھ ہوسکتا ہے، جو اس کے الفاظ میں موجود نہیں ہے ... ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ... دلچسپ بات یہ ہے کہ فاضل عدالت ایک ''دستوری عدالت‘‘ نہیں، یعنی نہ سپریم کورٹ ہے نہ ہائی کورٹ، نہ اس کا دائرہ اختیار (رٹ جورسڈکشن) ان کی طرح وسیع ہے، یہ تو ایک خصوصی قانون کے تحت قائم خصوصی عدالت ہے، جسے قانون کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا ہے اور مقدمے کی کارروائی کو ایک محدود تناظر میںمکمل کرنا ہوتا ہے، لیکن لگتا ہے کہ اس نے اپنے آپ کو ایک ''دستوری عدالت‘‘ کی سطح پر رکھ کر اپنے اختیارات کو وسعت دے ڈالی ہے۔
اکثریتی فیصلے سے اختلاف کرنے والے جسٹس یاور علی ،جو سپریم کورٹ کے مرحوم چیف جسٹس یعقوب علی خان کے صاحبزادے ہیں، نے اہم سوال اٹھایا کہ کیا حکم ماننے والوں کو ''شریک حکم‘‘ قرار دیا جاسکتا ہے؟... یہ بات بھی اپنی جگہ دلچسپ ہے کہ کسی فوجی افسر حتیٰ کہ جنرل پرویز مشرف کی جگہ لینے والے آرمی چیف کی طرف بھی نظر التفات نہیں کی گئی اور کہا گیا ہے کہ ایمرجنسی صدارتی حکم ہی پر اٹھائی جاسکتی تھی۔
فیصلے کے اندر کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستانی قوم او رسیاست کو ابھی بہت کچھ دیکھنا پڑے گا۔ رسہ کشی جاری رہے گی، زور لگانے والے، آزمانے والے، ایک دوسرے کو آزماتے رہیں گے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)