تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-11-2014

انوکھے لاڈلے

سماج بدلتا رہتا ہے۔ اس میں برپا ہونے والے تغیّرات کا ادراک ہی صحت مند اور نتیجہ خیز سیاست کی اساس بنتا ہے‘ مگر افسوس‘ مگر افسوس! 
لیجیے‘ جنرل پرویز مشرف والا قصہ تو تمام ہوا۔ یہ عدالت کے فیصلے پر تبصرہ کرنے کی جسارت نہیں۔ سامنے کی بات یہ ہے کہ اگر نوازشریف کے چہیتے وزیر پر بھی غداری کا الزام ہے تو نتیجہ معلوم۔ 
پوٹھوہار کے جنگلوں‘ خاص طور پر نواح اسلام آباد میں آملے کے درخت خودرو ہوتے ہیں‘ غریب لوگ اس کڑوی سی نبولی کا سالن بنایا کرتے۔ قدرت نے ایک عجیب خصوصیت اس میں رکھی ہے۔ کھا چکو تو ایک بہت خوشگوار ذائقہ پیدا ہوتا اور کچھ دیر کو ٹھہر جاتا ہے۔ حکمت کی بات بھی ایسی ہی ہوتی ہے۔ برہم آدمی کو غصہ تھوکنے کا مشورہ دیا جائے تو بگڑتا ہے۔ بگڑتا ہے کہ میں حق پر ہوں اور میری تائید کرنے کی بجائے‘ صبر کی تلقین کی جا رہی ہے۔ حکمرانوں کی انا اور بھی بڑی ہوتی ہے۔ کامیابیوں سے پیدا ہونے والے اعتماد اور خوشامدیوں کے جلو میں ایک زعم ان میں جنم لیتا اور مستقل ہو جاتا ہے۔ 
قیام جدّہ کے زمانے میں میاں شہبازشریف سے سہیل وڑائچ نے پوچھا کہ کیا کبھی بڑے بھائی سے اختلاف کا ارتکاب وہ کرتے ہیں۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا: وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ لوگوں کی رائے اگر مختلف ہو‘ تو خلق خدا کی موجودگی میں نہیں بلکہ تنہائی میں اس کا اظہار کریں۔ انوکھا لاڈلا‘ کھیلن کو مانگے چاند! 
الاّ ماشاء اللہ لیڈروں کے ساتھ المیہ یہ ہوتا ہے کہ بتدریج وہ تنہا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ صرف تائید کے آرزو مند ہوتے ہیں۔ برصغیر میں یہ زہر طبائع میں زیادہ گھلا ہے۔ ملوکیت کے ہزاروں برس اس پر گزر چکے۔ اپنی پسند کے راستے پر طاقتور لوگ بڑھتے چلے جاتے ہیں تاآنکہ تنہائی اور ناکامی انہیں آ لیتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ایسا لیڈر المناک انجام سے دوچار ہوا اور اس لیے ہوا کہ مخالفین کو توہین اور تحقیر میں کبھی ایک ذرا سا تامل بھی نہ کرتا۔ آج تک ان کے اکثر مدّاح‘ امریکہ بہادر‘ عسکری قیادت اور ان کے مخالفین کو سازش کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ اس پر غور کرنے کے لیے وہ آمادہ نہیں کہ ہرچند وہ مقبول اور کارگر تھے۔ اپنے قد کاٹھ میں مخالفین سے وہ بہت بڑے تھے‘ مگر دلائی کیمپ آباد کرنے اور لیاقت باغ کے جلسۂ عام میں سامعین پر آگ برسانے والا لیڈر خوئے انتقام کے ہاتھوں ہلاک ہوا‘ مخالفین کی قوّت سے نہیں۔ 
ایک کے بعد دوسرا لیڈر انجام کو پہنچتا ہے مگر افسوس کہ دانائی اور اعتدال سے کام لینے پر کوئی آمادہ نہیں ہوتا۔ اللہ کی آخری کتاب یہ کہتی ہے: بنیادی طور پر آدمی کا جہل ایک ہی ہے‘ غوروفکر کو وہ شعار نہیں کرتا۔ میاں محمد نوازشریف کے ڈیڑھ سالہ اقتدار کا جائزہ لیجیے تو حماقتوں کا ایک سلسلہ! الیکشن کے فوراً بعد فوج کا نجیب الطبع سربراہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور تعاون کا یقین دلایا۔ تکبّر ایک عجیب ڈھال ہے‘ شعور کے تمام روزن بند کر دیتی ہے۔ ان کے سگے بھائی سمیت‘ کوئی خیرخواہ نہیں‘ جس نے انہیں عسکری قیادت کے ساتھ تصادم سے روکنے کی کوشش نہ کی ہو۔ کسی کی آنجناب نے سنی نہیں۔ مشورہ اگر مانا تو خواجہ آصف‘ خواجہ سعد رفیق اور پرویز رشید کا‘ مرحوم مجید نظامی جسے ''پیپلیا‘‘ کہا کرتے اور ہے بھی وہ ''پیپلیا‘‘ ہی۔ پیپلیا بھی متروک سرخ رنگ کا۔ پیپلز پارٹی کا حامی ہونا کوئی جرم نہیں لیکن پھر اسے پیپلز پارٹی میں ہونا 
چاہیے۔ جس شخص کا حال یہ ہو کہ دو عشرے مسلم لیگ میں گزارنے کے باوجود تحریک پاکستان کا جواز اس کی سمجھ میں نہ آتا ہو‘ نازک قومی امور میں کیا اسے مشیر ہونا چاہیے؟ 
ایسے ہی لوگوں کی معیّت میں‘ ایک کے بعد‘ وزیراعظم دوسرا غلط فیصلہ کرتے رہے۔ خوشامدی ان کے حیران ہوتے ہیں کہ نوازشریف تو پاکستان کو بہشت بریں بنانے کے در پے ہیں اور اس پر بھی ان کی مزاحمت؟ مخالفین کا حال بھی اگرچہ پتلا ہے۔ سامنے کی بات مگر یہ ہے کہ 20 کروڑ انسانوں کے‘ غیر معمولی تزویراتی اہمیت کے اس ملک کو وہ اپنے خاندان کی چراگاہ بنانا چاہتے ہیں‘ عوامی بہبود کی جنت نہیں۔ 
پیپلز پارٹی‘ دھوپ میں رکھی برف کی طرح پگھل رہی ہے۔ اس کا اصل چہرہ‘ کراچی‘ حیدرآباد اور سکھر سے زیادہ‘ دیہی سندھ میں نظر آتا ہے۔ بدقسمت صوبے کے وسائل دوسروں سے زیادہ ہیں مگر لوٹ مار کا ایک لامتناہی سلسلہ۔ سندھ کا صنعت کار ہو یا ہاری‘ پنجاب میں کرپشن اور بدانتظامی کا ذکر ہو تو اس کا ردّعمل یہ ہوتا ہے: صاحب! آپ کو کیا خبر کہ لوٹ مار اصل میں کیا ہوتی ہے‘ بدنظمی کیا؟ ایک تو زرداری صاحب کے ماضی کے کارنامے ثانیاً نوازشریف نے اپنے پتے اس طرح لگائے ہیں کہ پاکستانی سیاست پر اثرانداز ہونے والے چاروں ملکوں کی تائید انہیں حاصل ہے۔ اپوزیشن کا کردار وہ ادا نہیں کرسکتے۔ 
ایسے میں آشکار تھا کہ لاڑکانہ میں عمران خان کی پذیرائی بے پناہ ہوگی۔ افتادگان خاک کب سے کسی نجات دہندہ کی راہ تک رہے ہیں اور دیہی علاقوں میں سواری کا حصول آسان نہیں ہوتا‘ جلسہ اگرچہ لاڑکانہ شہر سے پندرہ کلو میٹر کے فاصلے پر تھا... اس کے باوجود 25,30 ہزار افراد جمع ہو گئے۔ سرکاری وسائل برباد کیے بغیر‘ زرداری صاحب تو کیا‘ نوازشریف بھی آسانی سے ایسا ہنگامہ اٹھا نہیں سکتے۔ کل ایک حکمران کے طور پر وہ کامیاب ہوں یا ناکام‘ عمران خان عوامی ناراضی کی علامت بن چکے۔ سپاٹ چہرے والے امریکی سفیر رچرڈ اولسن بے سبب ان کی خدمت میں حاضر نہیں ہوئے۔ اگر حکمت سے انہوں نے کام لیا اور موزوں افراد کا انتخاب کر سکے تو آئندہ ایک ڈیڑھ برس میں دیہی نہیں‘ شہری سندھ میں بھی وہ متبادل بن کے ابھر سکتے ہیں۔ آئندہ الیکشن میں ایک تہائی سیٹیں بھی اگر وہ جیت سکے تو وزیراعلیٰ ان کا ہوگا۔ ایم کیو ایم‘ حکومت سازی میں ان کی حلیف بننے پر آمادہ ہوگی۔ اپنے پتے عمران خان ڈھنگ سے کھیل سکے تو پیر صاحب پگاڑہ صبغت اللہ شاہ راشدی بھی‘ ان کے مددگار ہو سکتے ہیں۔ ان کی شخصیت میں کوئی الجھائو نہیں اور ان کے ساتھ معاملہ کرنا بہت آسان ہے۔ مسئلہ کپتان کا یہ ہے کہ معاشرے کا کچرا ان کے گرد جمع ہوتا جا رہا ہے۔ سبب اس کا ان کی مردم ناشناسی بھی ہے اور ایسی ٹیم کی تشکیل بھی‘ ڈھنگ کے لوگ‘ جس سے رابطہ کر سکیں۔ لوگوں کو پارٹی میں شامل کرنے کے لیے جو کمیٹی انہوں نے بنائی ہے‘ کسی بھی معقول آدمی کو اس سے گریز ہوگا۔ 
ہر گزرتے دن کے ساتھ پیپلز پارٹی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ قومی سیاست اب دو افراد کے گرد گھوم رہی ہے۔ میاں محمد نوازشریف اور عمران خان۔ ڈیڑھ برس برباد کر لینے کے بعد میاں صاحب اب احتیاط سے کھیل رہے ہیں۔ کوئی فوری خطرہ ان کی حکومت کو نہیں؛ با ایں ہمہ اگر وہ لیپ ٹاپ اور گاڑیاں بانٹنے کے علاوہ عظیم الجثہ منصوبوں پر ہی سرکاری وسائل لٹاتے رہے۔ اگر بھائی‘ بھتیجے اور اعزّہ و اقربا ہی حکومت کا چہرہ ہوں تو آئندہ الیکشن جیتنا مشکل ہوگا۔ بجلی کی فراہمی اور اقتصادی راہداری شاندار منصوبے ہیں۔ نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں‘ حکومت کی اصل ذمہ داریاں مگر دوسری ہوتی ہیں۔ پولیس اور پٹوار کی اصلاح‘ نظام عدل کی بتدریج بحالی اور اس سے بھی زیادہ ٹیکس وصولی‘ جو تین برس میں دو گنا ہو سکتی ہے۔ اس پر کوئی توجہ ان کی نہیں اور بتانے والا بھی کوئی نہیں۔ اس لیے کہ لیڈر جب خوشامد کا عادی ہو جائے تو مصاحب لوگ محتاط ہو جایا کرتے ہیں۔ 
جماعت اسلامی کے اجتماع میں حاضری غیر معمولی ہے۔ تین گھنٹے وہاں گزارے۔ سن گن لینے کی کوشش بھی کی۔ تفصیل انشاء اللہ ایک آدھ دن میں۔ اس اطلاع نے البتہ دہلا دیا کہ پارٹی کے بعض لیڈر آئندہ الیکشن میں مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مفاہمت کے حامی ہیں۔ جماعت اسلامی والوں کے پاس اپنی نیک نامی کے سوا رکھا کیا ہے؛ اگر وہ بھی انہوں نے کھو دی تو بچے گا کیا؟ سراج الحق کا خطاب ایک طرح سے انتخابی مہم کا آغاز تھا‘ جلد ہی اس پر بات ہوتی ہے۔ 
سماج بدلتا رہتا ہے۔ اس میں برپا ہونے والے تغیّرات کا ادراک ہی صحت مند اور نتیجہ خیز سیاست کی اساس بنتا ہے‘ مگر افسوس‘ مگر افسوس! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved