تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     24-11-2014

جس کا کام اسی کو ساجھے

کاش کوئی انہیں سمجھا سکے کہ فکری ژولیدگی‘ فساد کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے اور فتنہ وہ چیز ہے‘ جسے اللہ کی کتاب قتل سے بھیانک تر قرار دیتی ہے! 
سراج الحق اعتدال کا پیغام لے کر اٹھے تھے اور ارادہ اس پر اظہارِ خیال کا تھا مگر بیچ میں منور حسن نمودار ہوئے اور اس شان کے ساتھ کہ ؎
یوں کودا ترے گھر میں کوئی دھم سے نہ ہو گا 
جو کام کیا ہم نے وہ رستم سے نہ ہو گا 
پچاس برس جماعت اسلامی سے وابستہ رہ کر‘ اگر کچھ انہوں نے سیکھا تو یہ کہ معاشرے میں قتال فی سبیل اللہ کا کلچر عام کرنے کی کوشش کی جائے۔ 
کس سے قتال؟ اپنی پولیس اور فوج سے؟ مخالف سیاسی جماعتوں سے؟ قبائلی علاقوں میں؟ ان کے ارشاد سے بظاہر کوئی نتیجہ اس کے سوا نہیں نکلتا۔ سراج الحق کا حال تو یہ تھا کہ ہیجان کی اس انتہا میں جب تحریک انصاف اور نون لیگ ایک دوسرے کے در پے تھے‘ مذاکرات پر وہ ڈٹے رہے اور اب تک ڈٹے ہوئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ اور مجلس شوریٰ کی تائید سے۔ سید منور حسن نے لٹیا ہی ڈبو دی۔ کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا؟ کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گلنار کریں؟ قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ افغانستان اور اس کے نتیجے میں قبائلی علاقوں میں پیدا ہونے والا بحران استعماری قوتوں کا کرشمہ ہے۔ اول سوویت اور پھر امریکہ بہادر کی یلغار۔ سوال یہ ہے کہ ہمیں بھی اپنے گریبان میں منہ ڈالنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟ کوئی غلطی ہم سے بھی سرزد ہوئی کہ نہیں؟
سفاک سوویت افواج نے تیرہ لاکھ افغان مسلمانوں کا قتل عام کیا اور تیرہ لاکھ کو اپاہج کر دیا۔ ایک خود رو تحریک اٹھی اور 
پاکستان نے اس کی تائید کا فیصلہ کیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق سے پہلے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی۔ گلبدین حکمت یار‘ استاد برہان الدین ربانی‘ احمد شاہ مسعود اور استاد عبدالرسول سیاف بھٹو کے دور میں پاکستان آئے تھے۔ 27 دسمبر 1979ء کو روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے ان کی مزاحمت کا ارادہ کیا تو دنیا کی 122 اقوام نے ان کی تائید کی۔ امریکہ کی اسلحی‘ عربوں کی مالی مدد اور پاکستانی فوج کی اعانت سے افغان عوام نے روسیوں کو شکست فاش سے دوچار کیا مگر اس کے بعد ایک مستحکم حکومت کیوں وجود میں نہ آ سکی؟ اس کا ایک پہلو‘ استعماری سازش اور دوسرا پاکستانی حکمرانوں کی کاسہ لیسی ہے مگر خود افغان جماعتوں نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کیا؟ 
جولائی 1992ء میں گلبدین حکمت یار کی دعوت پر سڑک کے راستے کابل جانے کا موقعہ ملا۔ راستے ادھڑے ہوئے اور اس طرح ادھڑے ہوئے کہ چار پانچ گھنٹے کا فاصلہ بارہ گھنٹے میں طے ہوا۔ سڑک کے دونوں طرف ہزاروں برس پرانے دیہات ملبے کا ڈھیر تھے اور کابل شہر‘ جہاں گندم کے کھیت ابھی سبز تھے‘ متحارب گروہوں کے قبضے میں۔ شہر کے ایک حصے پر ازبک مسلط تھے‘ دوسرے پر مولوی یونس خالص کی افواج اور تیسرے پر استاد سیاف کا قبضہ‘ جن کی افواج شیعہ لشکر سے پیہم برسرِ جنگ تھیں۔ نواحِ شہر میں گلبدین حکمت یار کی سپاہ ڈیرے ڈالے ہوئے تھیں۔ ان کے پاس روسی میزائلوں کا اتنا بڑا انبار تھا کہ پہلی نگاہ ہی میں ہیبت طاری ہو جاتی۔ ٹپّہِ نادر پر حزب اسلامی کے جنگجوئوں نے کھانے کی دعوت دی تو یہ دیکھ کر جھرجھری سی آ گئی کہ بوریوں سے نکالی جانے والی 
روٹیاں‘ کئی دن پرانی تھیں۔ شہر میں روزانہ دھماکے ہوا کرتے۔ ایک سے زیادہ بار کرفیو لگتا اور سڑکیں سنسان ہو جاتیں۔ 
خوش فہمی نے تب ادراک ہونے نہ دیا۔ یہ اقتدار کی جنگ تھی۔ بعدازاں قاضی حسین احمد نے جسے جہاد کی بجائے فساد کا نام دیا۔ خانہ جنگی جاری رہی اور ایسی خانہ جنگی‘ جس نے باقی ماندہ آبادیوں کو بھی کھنڈر کر دیا۔ دیوانگی کے ایسے مناظر افغانستان کے طول و عرض میں دیکھے گئے کہ بیان کو الفاظ نہیں ملتے۔ آدمی درندے ہو گئے اور اسلام کے نام لیوائوں نے حصول اقتدار کی وحشت میں وہ کچھ کیا‘ جو دشمن بھی نہیں کیا کرتے۔ رفتہ رفتہ پوری طرح یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ اسلام کی نہیں یہ قوم پرستی کی جنگ تھی اور اقتدار کی۔ بے نظیر بھٹو کے حکمت کار نصیراللہ بابر کی طے کردہ حکمتِ عملی کے تحت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت جسے حاصل تھی‘ طالبان کی نمود ہوئی تو خانہ جنگی کے خونیں باب کو انہوں نے بااندازِ دگر لکھا۔ ملک کے بڑے حصے میں امن انہوں نے قائم کر دیا مگر حریفوں کے ساتھ وہ سلوک انہوں نے کیا‘ جو تاتاری کیا کرتے تھے۔ دنیا کی تو وہ کیا سنتے‘ اپنے مددگاروں پاکستان اور سعودی عرب کی بھی کبھی نہ سنی۔ عاقبت نااندیشی کی انتہا تھی کہ اسامہ بن لادن کی قیادت میں ان عرب جنگجوئوں کی سرپرستی کی‘ جو دنیا بھر میں دہشت گردی کے مرتکب تھے۔ 
افغانستان کے المیے کا بنیادی سوال یہ نہیں کہ امریکہ نے کیا کیا اور اس کے زیر اثر پاکستانی حکمرانوں نے کیا گل کھلائے۔ اقتدار کے بھوکے نواز شریف‘ بے نظیر بھٹو اور جنرل پرویز مشرف کو یہی کرنا تھا۔ سب سے زیادہ غور طلب یہ ہے کہ جہاد اور اسلام کے علمبردار افغان لیڈروں نے ہر بنیادی اسلامی‘ اخلاقی اصول کو اس بے دردی سے کیوں پامال کیا؟ یاد ہے کہ احمد شاہ مسعود اور حکمت یار میں مصالحت کرانے جنرل حمید گل کابل کے دورے پر گئے تو واپسی پر بتایا کہ حزب اسلامی نے ان کا سواگت احمد شاہ مسعود کے علاقے میں میزائل داغ کر کیا۔ افغانستان کے فرسٹ سیکرٹری فوزی ملنے آئے تو مشورہ دیا کہ امریکی دبائو کم کرنے کے لیے وہ پاکستان کے ممتاز لیڈروں پر مشتمل کل جماعتی کانفرنس بلائیں۔ عمران خان سے ان کی ملاقات کا اہتمام بھی کیا۔ فوزی نے کہا: اور تو سبھی کو بلا سکتے ہیں مگر قاضی حسین احمد کو نہیں۔ امیرالمومنین اجازت عطا نہ فرمائیں گے۔ زچ ہو کر میں نے ان سے کہا: کس طرح کے لوگ ہیں آپ۔ تائید کرنے والوں پر بھی شرائط عائد کرتے ہیں۔ ان کا بھی حسب نسب دیکھتے ہیں۔ ملاّ عمر کو مولانا سمیع الحق اور مولانا فضل الرحمن عزیز تھے۔ قاضی حسین احمد اس لیے گوارا نہ تھے کہ ان کی پارٹی دیوبند کو نظریاتی قبلہ کیوں تسلیم نہیں کرتی۔ 
جماعت اسلامی پاکستان سمیت‘ عالم اسلام کی اکثر اسلامی تحریکیں‘ جہاد افغانستان کا تجزیہ کرنے میں ناکام رہیں۔ ''دین ملا فی سبیل اللہ فساد‘‘ اقبالؔ نے ایک صدی پہلے کہا تھا۔ امان اللہ خان کی دعوت پر بیسویں صدی کے تیسرے عشرے میں افغانستان کا دورہ کرنے کے بعد‘ ہمیشہ یاد رہ جانے والی درجن بھر نظمیں انہوں نے لکھیں۔ ایک مصرعہ یہ ہے ع 
ہزار پارہ ہے کہسار کی مسلمانی 
افغانستان اور اس سے ملحق پاکستانی علاقوں میں‘ قبائلی روایات کو اسلامی تعلیمات سے کبھی الگ کر کے نہیں دیکھا گیا۔ فقہی مباحث ہمیشہ سے چلے آئے تھے مگر اس کی بنا پر افواج اور جماعتوں کی تشکیل؟ جزیرہ نمائے عرب میں محمد بن عبدالوہاب کی تحریک اٹھی تو اقبالؔ نے اس کا خیر مقدم کیا تھا۔ صدمہ انہیں تب ہوا‘ جب وہ ایک فرقے میں ڈھل گئی۔ 
جولائی 1992ء میں‘ کابل سے واپسی کے فوراً بعد جہاں جماعت اسلامی کے رہنما موجود تھے‘ ایک سیمینار میں عرض کیا تھا کہ اڑھائی سو برس پہلے احمد شاہ ابدالی کے عہد میں برپا ہونے والا عمرانی معاہدہ ٹوٹ گیا ہے۔ اب ایک نئے قومی سمجھوتے کی ضرورت ہے۔ خوش فہمی باقی تھی۔ خیال تھا کہ یہ معاہدہ ممکن ہو گا۔ اس کی بجائے ہم نے کشت و خون کا ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا‘ جو اب تک جاری ہے۔ سید منور حسن کیا اسے جاری رکھنے کی تاکید کر رہے ہیں؟ کیا ان کی آرزو یہ ہے کہ پاکستان بھی افغانستان‘ شام اور عراق ہو جائے؟ کیا وہ اسے ایران بنانے کی امید رکھتے ہیں‘ جہاں پورے ملک میں‘ کسی چہرے پر مسکراہٹ دکھائی نہیں دیتی؟ شاہ اسمٰعیل صفوی‘ سید احمد شہید‘ 1857ء کی جنگ آزادی کے ہنگام‘ بعض شہروں پر علماء کا اقتدار‘ طالبان اور ایران۔ مسلم عوام نے علماء کا اقتدار کبھی خوش دلی سے قبول نہیں کیا اور نہ کبھی کریں گے۔ جس کا کام اسی کو ساجھے! 
کاش کوئی انہیں سمجھا سکے کہ فکری ژولیدگی‘ فساد کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے اور فتنہ وہ چیز ہے‘ جسے اللہ کی کتاب قتل سے بھیانک تر قرار دیتی ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved