تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     24-11-2014

تحریکِ انصاف‘ سندھ میں!

لاڑکانہ کے قرب میں تحریکِ انصاف کا جلسہ، استحکام ِ پاکستان کے لیے نیک شگون ہے۔
ملک گیر سیاسی جماعتیںقومی وحدت کا سب سے موثراظہار ہیں۔ملک کے تمام حصوں میں ان کی مو جود گی سے یک جہتی کا جو تاثر ابھرتا ہے، اس کا کوئی متبادل نہیں۔ کوئی فوج اپنی تمام تر طاقت کے با وجود کسی ملک کو متحد نہیں رکھ سکتی اگرعوام اس کے لیے آ مادہ نہ ہوں۔عوام کو سیاسی جماعتیں مجتمع کر تی ہیں۔مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا اصل سبب، کسی ایسی سیاسی جماعت کا نہ ہو نا تھا جو پاکستان کے ہر حصے میں مو جود ہوتی اور موثر بھی ہوتی۔ پیپلزپارٹی اور عوامی لیگ، دونوں صوبائی جماعتیں تھیں۔انتخابات میں ان کی کامیابی نے 'اِ دھر ہم، اُدھر تم‘کی سیاست کو جنم دیا۔یوں ملک دو لخت ہو گیا۔موجو دہ پاکستان یا بھٹو صاحب کے الفاظ میں'نیا پاکستان‘ اگر متحد ہے تو اس میں یقینا پیپلزپارٹی کا کردار سب سے اہم ہے۔سندھ میں قوم پرستی کی سیاست،بھٹو صاحب کی پھانسی اور بے نظیر بھٹوصاحبہ کے المناک قتل کے با وجود، اگر سندھ کے عوام نے علیحدگی کی کسی تحریک کاساتھ نہیں دیا تو اس کی وجہ پیپلزپارٹی کی وفاقی سیاست ہے۔پیپلزپارٹی اگر سندھ تک سمٹ جاتی تو یہ حادثہ وفاق کے لیے بڑی آ زمائش ہو تا۔
ن لیگ جس طرح قومی سے ایک صوبائی جماعت میں ڈھلی ہے، وہ غیر معمولی محنت اور ریاضت کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ اقتدار میں آنے کے بعد، ن لیگ نے نہ صرف یہ کہ سندھ میں کوئی پیش قدمی نہیں کی، بلکہ اس کا خصوصی اہتما م کیا کہ جو لوگ کسی وجہ سے ن لیگ میں تھے، وہ بھی نہ رہیں۔ کوئی سیاسی قیادت بقائمی ہوش و حواس ایسا کر سکتی ہے،میں یہ باور نہیں کر سکتا۔قیاس ہے کہ یہ طرزِ سیاست، پیپلزپارٹی کے ساتھ کسی مفاہمت کا نتیجہ ہے۔مفاہمت کی اساس، یہ معلوم ہوتا ہے کہ بقائے باہمی کے اصول پرہے۔یعنی ن لیگ سندھ میں پیپلزپارٹی کو نہ چھیڑے اورپیپلزپارٹی مرکز میں ایک'فرینڈلی اپوزیشن‘کاکردار ادا کر تی رہے۔اگر ایسا ہے تویہ وفاق کے لیے نیک شگون ہے نہ جمہوریت کے لیے۔وفاق کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے کہ پیپلزپارٹی پنجاب اور ن لیگ سندھ میں اپنی موثرمو جو دگی کا احساس دلا تی رہے۔اسی طرح دوسری جماعتیں بھی۔
اس پس منظر میں،اگر تحریکِ انصاف نے اندرونِ سندھ میں جلسہ کیا ہے تویہ قومی یک جہتی کے لیے ایک خوش کن خبر ہے۔یہ سوال زیادہ اہم نہیں کہ جلسے میں کتنے افراد شریک تھے۔اہم یہ ہے کہ ایک قومی سیاسی جماعت پورے ملک میں متحرک ہورہی ہے۔عمران خان نے ماضی میں، کوئٹہ میں بھی ایک اچھا جلسہ کیا تھا۔اگر تحریکِ انصاف سارے ملک میں اپنی مو جو دگی ثابت کرے گی تو اس سے علاقائی اور مقامی سیاسی قوتیں کمزور ہوں گی۔آ مریت نے ہمارے قومی وجود پرجو چرکے لگائے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے قومی سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا۔ ان کی جگہ لینے کے لیے لسانی، علاقائی اور مسلکی جماعتوں کو ابھارا۔اس طرح قوم کی تقسیم میں سیاسی قوت تلاش کی گئی۔واقعہ یہ ہے کہ آ مریت کے لگائے ہوئے یہ گھاؤ اب اتنے گہرے ہو چکے کہ ان سے مسلسل خون رستا رہتا ہے۔قومی سیاسی جماعتیں ہی، اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود، ان زخموں کا مرہم ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیاتحریکِ انصاف سندھ کے سیاسی کلچر میںکوئی جوہری تبدیلی لا سکے گی؟میرا خیال ہے کہ سرِدست اس کا کوئی امکان نہیں۔اس کے چنداسباب ہمارے سامنے ہیں۔ ایک یہ کہ تحریکِ انصاف نے ابتدا میں ان ہی لو گوں کو مخاطب بنا یا ہے جوزرداری صاحب کے مخالف اور اپنی سیاسی بقا کے لیے کسی سیاسی فورم کی تلاش میں تھے۔ن لیگ اگر پہلے متحرک ہوتی تو یہ سب لوگ اس میں چلے جاتے۔یہ وہی گروہی سیاست ہے جس نے پنجاب میں ظہور کیا ہے۔یہاں ایک دھڑا ن لیگ میں تھا تو دوسرے کو کسی متبادل کی تلاش تھی۔پیپلزپارٹی جب یہ کردار ادا نہیں کر سکی تو تحریکِ انصاف نے اس کی جگہ لے لی۔یہی کچھ اب سندھ میں بھی ہو رہا ہے۔ جن لوگوں نے تحریکِ انصاف کو جلسے کے لیے سہولتیں فراہم کیں،اِن کی میزبانی کی،وہ سندھ کے محروم طبقات یا ہاری نہیں،وہ موثر سیاسی خاندان ہیں جوسندھ پر زرداری صاحب کے اقتدار کو چیلنج کرتے ہیں۔
دوسرا سبب یہ کہ سندھ میں تحریکِ انصاف کی باگ اصلاً شاہ محمودقریشی صاحب کے ہاتھ میں ہے۔سب جانتے ہیں کہ وہ پاکستان میں'سٹیٹس کو‘کی کم از کم تین قوتوں کے تنہا نمائندہ ہیں۔یہ اعزاز کم لوگوں کوحاصل ہو سکا ہے۔انہوں نے حسبِ توقع سندھ میں جو مہم چلائی،اس میں انہوں نے وہاں کے ہاریوں سے نہیں، 'سٹیٹس کو‘ کے لوگوں سے رابطہ کیا۔یہاںان کے اپنے مریدوں کا حلقہ ہے ۔یہ طبقہ نسلوں سے انہیںاپنی عقیدت اورسال بھر کی جمع پونجی کا نذرانہ پیش کرتا آرہاہے۔سندھ میں ان طبقوں کو اٹھانا ، خود کو مریدوں سے محروم کر نا ہے۔شاہ صاحب اپنے پاؤں پر کلہاڑی کیوں ماریں گے؟پھر یہ کہ ایک پیرکسی دوسری استحصالی قوت کو کیوں یہ پیغام دے گا کہ وہ اس کا مخالف ہے؟ رہی بات خطبوںکی تو بھٹو صاحب سے بڑھ کر کوئی انقلابی تقریریں نہیں کر سکتا۔بھٹوصاحب کی تیسری نسل برسر اقتدار ہے لیکن سندھ میںابھی تک'پاؤں ننگے ہیں بے نظیروں کے‘۔
پھرروایتی سیاست کے حوالے سے بھی، کوئی بڑی کامیابی اس دورے سے منسوب نہیں ہے۔ایک دور میں کہا جاتا تھاکہ فاطمہ بھٹوتحریکِ انصاف کی طرف مائل ہیں۔ان کا تازہ بیان واضح کر رہا ہے کہ عمران خان کے بارے میں انہیں کوئی خوش گمانی نہیں۔ اس دورے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ عمران خان نے عملی سیاست کے مطالبات سے ہم آہنگ ہونا سیکھ لیا ہے۔انہیںاب معلوم ہے کہ قومی مفاد جو تقاضا کرتا رہے، سیاست کا تقاضاپہلی ترجیح ہوتاہے۔اس لیے وہ سندھ میں، کالا باغ ڈیم کے اعلانیہ موقف کے برخلاف وہاں کے ماحول کے مطابق اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔ان سب اسباب کی شہادت یہ ہے کہ اس دورے سے سندھ میں کسی جوہری تبدیلی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔تاہم سندھ میں اگر پیپلزپارٹی سے مایوس لوگ ،ایک دوسری قومی جماعت کا رخ کرتے ہیں تویہ بھی کم اہم پیش رفت نہیں۔قانونِ فطرت کے تحت، خلا تو نہیں رہ سکتا۔اگر کوئی قومی جماعت ،پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر موجود نہیں ہو گی تو اندیشہ ہے کہ لوگ قوم پرست جماعتوں کی طرف دیکھیں اور یہ پاکستان کے لیے کوئی نیک شگون نہیں۔تحریکِ انصاف کی مو جودگی کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ پیپلزپارٹی کی مو جودہ قیادت دباؤ محسوس کرے اوریہ دباؤاس کو رویے کی تبدیلی پر مجبور کرسکتا ہے۔ جمہوریت کا ایک ثمر یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں نہ چاہتے ہوئے بھی، عوامی ردِ عمل سے بے نیاز نہیں ہو سکتیں۔ انہیں خوف رہتا ہے کہ کوئی ہے جو ان کی جگہ لے سکتا ہے۔
ہمارے ہاں،اہلِ سیاست کو گالی دینے کا چلن عام ہے لیکن ایک قومی ریاست میں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کو صحیح تناظر میں نہیں سمجھا جا تا۔اہلِ سیاست کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ان کی کمزوریوں کی تلافی مضبوط جمہوری روایت ہی میں ہوسکتی ہے۔روایت تسلسل چاہتی ہے۔یہ اسی روایت کی وجہ سے ممکن ہوا کہ تحریکِ انصاف سندھ کے دیہی علاقے تک پہنچی ہے۔پی ٹی آئی نے کراچی کو ایک متبادل دیا ہے۔اگر وہ دیہی سندھ میں بھی ایک متبادل بن کر ابھرتی ہے تویہ قومی وحدت اور جمہوریت کے لیے نیک شگون ہوگا۔اس لیے سندھ میں تحریکِ انصاف کی اس پیش قدمی کا خیر مقدم ہو نا چاہیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved