تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     24-11-2014

رو عمران‘ رو

جب نسل اور زبان کی بنیاد پرگردنیں کاٹی جائیں، جب مساجد عصبیت کی بنیاد پر تقسیم ہوکر رہ جائیں، جب اﷲ جل شانہ‘ اور رسولﷺ کے نام پر حاصل کئے گئے ملک کی مساجد میں بندوق برداروں کی موجودگی میں نمازوںکی ادائیگی ممکن ہو توکون ہے جو اس حالت پرغم و اندوہ میں ڈوب نہیں جائے گا؟
بیوہ اور معذور عورت بھوک سے بلکتے بچوں کی چیخیں سننے کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنے تین بچوں سمیت نہر میں چھلانگ لگا کر جان دے دے اور رحیم یار خان میں ایک چھوٹے سے گھرکا بجلی کا بل 29 ہزارروپے آنے پرکوئی نادار خاتون خوف سے خود کشی کرلے تواس پر جشن تو نہیں منایا جائے گا بلکہ یہ روح فرسا خبر سن کر(عمران خان سمیت) ہرانسان روئے گا۔ جب کوئی باپ بھوک ، مفلسی اور بے چارگی کی آگ میں جلتے ہوئے پورے گھرانے کو ذبح کرنے کے بعد اپنے بازواور ٹانگوں کی نسیں کاٹ کر خود کشی کر لے تو کون سی آنکھ ہے جو اس پر اشک بار نہیں ہوگی؟ جب ملک کنگال ہو رہا ہو اور قرضوں کے انبار تلے سسک رہا ہو تو ایک نہیں‘ اس ملک کا ہر عمران روئے گا۔ جب ملک کے وسائل لوٹ لوٹ کر باہر لے جائے جائیں اور ملک میں سرمایہ کاری کرنے والے ممالک منہ موڑنے لگیں اور جب بھارت کی فوجیں چار ماہ سے مسلسل گولہ باری کرتے ہوئے پاکستانی قوم کے محافظوں کے ساتھ ساتھ مائوں، بہنوں ، بچوں اور بوڑھوںکو قتل کر رہی ہوں اور حکمران قاتلوں کے خلاف آواز نہ اٹھائیں بلکہ ان کا ہاتھ روکنے کی بجائے ان سے تجارت کرنے کا ورد الاپیں تو اس سنگدلی پر عمران آنسو نہ بہائے توکیا کرے؟ جب بہاولنگرکے سرکاری ہسپتال میں ایک ماہ میں آکسیجن کے سلنڈر نہ ہونے کے باعث 54 بچے موت کے منہ میں چلے جائیں تو عمران ہی کیا‘ یہ حالت دیکھنے اور سننے والا ہر شخص روئے گا۔ 
جب سرگودھا کے سرکاری ہسپتال میں دعائوں اور منتوں مرادوں سے مختلف گھروں میں جنم لینے والے 25 بچے انکوبیٹر کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے مرنے لگیں توکیا اس وطن کا ہر باپ اور ماں قہقہے لگائے؟ آخر آدمی یہ دیکھ کرکیوں نہ روئے کہ راولپنڈی اور لاہورکی میٹرو بس پر90 ارب روپے خرچ کرنے والے سرگودھااور بہاولنگرکے ہسپتالوں میں نومولود بچوں کو بچانے کیلئے آکسیجن اور انکوبیٹر خریدنے کیلئے پانچ کروڑ بھی خرچ نہ کر سکیں؟ اجڑی گودیں لئے مائیں یہ پوچھنے کا حق رکھتی ہیں کہ لوہے کے سریے کو ننھی منی زندگیوں پرکیوں ترجیح دی جا رہی ہے؟
جب ہسپتالوںکو ضروری سہولیات مہیا کرنے کے ذمہ داراور ان کے ساتھی مرنے والے بچوںکے خاندانوںکا غم بانٹنے کے بجائے ان کے حقوق بارے آواز اٹھانے والے عمران پر آوازے کسیں کہ ''رو عمران رو‘‘ تو ہر ذی ہوش اور حساس فرد کی آنکھیں بھیگ جاتی ہیں، انسانیت کے لئے ہمدردی اوراحترام کے جذبات رکھنے والا ہر صاحب اولاد تڑپنے لگتا ہے مگر حکمران بڑی دانائی اور ڈھٹائی سے ان اموات کی توجیہات پیش کر کے پھر سے اپنے اپنے دھندوں میں لگ جاتے ہیں اور مستقبل میں ایسے حوادث کی روک تھام کے لئے کچھ بھی نہیں کرتے۔اس صورت حال پر دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کرنے والا ہر شخص ۔۔۔۔جو آپ بھی ہو سکتے ہیں‘ میں بھی اور ہماری طرح عمران بھی، اپنے آنسو ضبط نہیں کر سکتا۔ 
عمران تب بھی روتا ہے جب وہ تھر کے بھوکے پیاسے بچوں کے ہڈیوں کے ڈھانچوں جیسے وجود زمین پر رینگتے دیکھتا ہے۔ وہ تب بھی روتا ہے جب دیکھتا ہے کہ تھر میں ہر روز ایک بچہ صرف غذائی قلت کے باعث دم توڑ دیتا ہے۔ وہ تب بھی روتا ہے جب ہر جانب ظلم و نا انصافی کے اژدہے غریب اور لاچار عوام کو نگلتے دکھائی 
دیتے ہیں۔ عمران اکیلا نہیں بلکہ ہر حساس دل روتا ہے کیونکہ کوئی بے حس ہی ہو گا جس کی آنکھ اس وقت نم نہ ہو جب وہ گندے جوہڑوں سے انسان، مویشی اورکتوںکو ایک ساتھ پانی پیتے دیکھے۔ پنجاب اور سندھ کی خواتین جب اپنے گوٹھ اور دیہات کے جوہڑوں کاپانی کھانا پکانے کے لئے استعمال کریں اور وہاں سے چند قدم دور صاف پانی کی بھری ہوئی دو لاکھ سے زائد بوتلیں کوڑے کے ڈھیر میں تبدیل ہوکرگل سڑ رہی ہوں تو اس ظلم اور بد دیانتی پر نہ رونے والے کوکس طرح انسانیت کے درجے پر رکھا جا سکتا ہے؟ 
یہ وطن خدا نے ہمیں لا الٰہ الا اللہ کے نام پر دیا تھا۔ جب بھارت سے مسلمانوں کے قافلے پاک سر زمین پر پہنچے اور یہاں پہنچ کر جب ان کے بچے فاقے اور سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھرکر مرتے رہے اور سیا ستدان ان سے جھوٹے وعدے کرتے رہے اور ان کی اولادوں اور نسلوں کو کیڑوں مکوڑوں کی طرح گلیوں کی غلاظت میں رینگ رینگ کر مرتے دیکھتے رہے تو اس دورکا ہر عمران اس وقت بھی روتا تھا۔ جب یتیموں ، بیوائوں اور محتاجوں کے گھروں، دکانوں اور زمینوں پر قانون کے رکھوالوں کی نگرانی میں قبضے کئے جاتے تھے‘ عمران اس وقت بھی روتا تھا۔ جب اس ملک کی بیٹیاں اپنے ماں
باپ کے علاج اور انہیں دو وقت کی روٹی مہیا کرنے کے لئے اپنی عزتیں بیچنے پر مجبور ہوں، قیامت کی مہنگائی کے سبب کھانے پینے کی بنیادی اشیا مفلوک الحال انسانوں کی پہنچ سے دور ہو جائیں تو ایسے میں کون ہے جو بے اختیار رونا نہ شروع کر دے؟ دیہات اور گوٹھوں میں رہنے والے لاکھوں انسان جب کتوں اور جانوروں کے ساتھ گندے جوہڑوں کا پانی پیتے ہیں، شہروں میں ننھے منھے بچے جب بالٹیاں اور برتن اٹھائے پانی کے خشک نلوں کے سامنے کئی کئی گھنٹے دھوپ میں قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں ، ان کے ننگے پائوں جب تپتی دھوپ میں جلتے ہیں اور جب مائیں اپنے بچوں کے پائوں میں پڑنے والے چھالے دیکھ کر روتی ہیں تو عمران (انسان) بھی روئے بغیر نہیں رہ سکتا۔۔۔!! جب میری قوم لباس کے ایک ایک تارکو ترسے ، جب اس ملک کے نوجوان روزگار کے لئے دھکے کھاتے پھریں، جب میرے ملک کا سبز پاسپورٹ دنیا بھرکے ہوائی اڈوں پر حقارت کی نظر سے دیکھا جانے لگے، جب اس قوم کے نوجوان اور ان کے والدین ملک کو اس حالت تک پہنچانے والوں کے مقابلے میں اکٹھے ہو نے لگیں اور ان حالات میں حکمرانوں کی زیادتیوں اور سنگ دلی پر آنسو بہانے والے عمران (انسان) پر یہ آوازے کسے جائیں کہ ''رو عمران رو‘‘ تو ایسے بے حس لوگوں کے بارے میں مظلوم و مقہور انسان کس قسم کے جذبات کا اظہار کریں ؟ آفرین ہے عمران پر کہ وہ آوازے کسے جانے پر افسردہ نہیں ہوتا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved