وزیراعلیٰ کے استعفے کے بغیر جے
آئی ٹی قبول نہیں... طاہرالقادری
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کہا ہے کہ '' وزیراعلیٰ کے استعفے کے بغیر جے آئی ٹی قبول نہیں‘‘ تاہم اگر اس کے بغیر خاکسار نے دھرنا ختم کردیا تھا تو اس بارے بھی سوچا جاسکتا ہے تاہم اس سے بڑی زیادتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ حکومت نے دھرنا بھی ختم کرادیا اور اپنے وعدے بھی پورے نہیں کررہی، کیا حکومت کو آئندہ مجھ سے کام نہیں پڑنا؟ انہوں نے کہا کہ '' رپورٹ پٹیالہ ہائوس والی ہی ہوگی‘‘ حالانکہ ملک میں لاتعداد ہائوس اور بھی ہیں جن میں سے کسی ایک سے منسوب کرکے اسے جاری کیاجاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ '' دراصل پٹیالہ ہائوس میں ریہرسل کے بعد پوری رپورٹ پہلے ہی تیار کی جاچکی ہے‘‘ اوریہ بات مجھے پٹیالہ ہائوس والوں نے خود بتائی ہے کیونکہ میرے مرید وہاں پر بھی موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''یہ نوٹیفکیشن فوری طور پرمنسوخ کیاجائے ‘‘ ورنہ دھرنا دوبارہ شروع کردیاجائے گا اور حکومت کو نئے سرے سے سارے معاملے کو نمٹانا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ '' میری اس پریس بریفنگ کو باقاعدہ اعلان سمجھا جائے‘‘ کیونکہ میں بار بار دھوکہ نہیں کھا سکتا جبکہ مومن کو ایک ہی سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاسکتا۔ آپ اگلے روز لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کررہے تھے۔
بھٹو کا نعرہ لگاکر غریب کی نجات کا انقلاب لائیں گے... بلاول بھٹو زرداری
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ '' بھٹو کا نعرہ لگاکر غریب کی نجات کا انقلاب لائیں گے‘‘ اگرچہ سابق دور حکومت میں غریب کی نجات کا انقلاب کافی حد تک آچکا تھا کیونکہ جملہ اکابرین کرام کو اپنی غربت سے مکمل طور پر نجات مل چکی تھی حالانکہ اس وقت بھٹو کا نعرہ بھی لگانے کی ضرورت نہیں پڑی تھی، کیونکہ پارٹی اس وقت تک اپنے پائوں پر کھڑی ہوچکی تھی البتہ اب اس کے پائوں ذرا اکھڑ گئے ہیں اس لیے اب بھٹو کا نعرہ لگانا ضروری ہوگیا ہے، اگرچہ وہ نسل ہی ختم ہوچکی ہے جس کے لیے بھٹو کا نعرہ کارگر ہوسکتا تھا اور اب جو نوجوان سامنے نظر آرہے ہیں انہیں عمران خان پہلے ہی گمراہ کرچکے ہیں اور بھٹو کا نعرہ ان پر اثر ہی نہیں کرتا جبکہ ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بھی لگا کر دیکھ لیا ہے اور لوگ سمجھ رہے ہیں کہ ان کی صرف جیب بھاری ہوئی ہے جس کی وجہ سے یہ نعرہ ایجاد کیاگیا تھا حالانکہ ان کی جیب تو کافی عرصہ پہلے ہی سے اس قدر بھاری ہوگئی تھی کہ اسے اٹھانے کے لیے ساتھ ایک دو آدمی رکھنا پڑتے تھے اس لیے اب کوئی نیا ہی نعرہ ایجاد کرنا پڑے گا۔ آپ اگلے روز ٹویٹر پر پیغام نشر کررہے تھے۔
لاڑکانہ پیپلزپارٹی کا قلعہ ہے
اور رہے گا... یوسف رضا گیلانی
سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ '' لاڑکانہ پیپلزپارٹی کا قلعہ ہے اور رہے گا‘‘ اگرچہ اب اس کا استعمال یہی ہوگا کہ مخالفین کے خوف سے اس میں محصور اور محفوظ ہوکر باقی عمر یاد خدا میں گزار دی جائے حالانکہ ہم عوام کی بے پناہ خدمت کرکے اپنی عاقبت پہلے ہی کافی سنوار چکے ہیں لیکن افسوس کہ عوام کی مزید خدمت کا کوئی چانس آگے نظر نہیں آتا اور ہم سوچتے ہیں کہ عوام اب کہاں جائیں گے کیونکہ قلعے میں تو سارے عوام سما ہی نہیں سکتے، بلکہ اگر آ بھی گئے تو خیمے کے اونٹ کی طرح ہمیں باہر کر دیں گے اور خود اندر۔ انہوں نے کہا کہ '' عمران خان کا جلسہ لاڑکانہ نہیں، کسی اور تحصیل میں تھا‘‘ اور برخوردار بلاول کو یہ بات بتا کر تسلی دے دی گئی ہے کہ وہ زیادہ پریشان نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ''مشرف ٹرائل 1999ء سے شروع کیاجائے‘‘ کیونکہ ہماری سیاست اب ایسی ہی باتوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے۔ آپ اگلے روز ملتان میں میڈیا سے گفتگو کررہے تھے۔
اور اب اقتدار جاوید کی یہ تازہ نظم:
سرخ مینار پر نصب
زمانے میں ہے اک گھڑی/آخری کھونٹ میں / سرخ مینار پر نصب/ کوئی بھی اس سمت جاتا نہیں ہے/ کئی راز ہیں اس جگہ کے / مگر کوئی رازوں سے پردہ اٹھاتا نہیں ہے/ زمانے کی آنکھوں سے اوجھل کھڑی/ دائمی وقت پر اک گھڑی/ میں جڑا ہوں/
اسی دائمی وقت سے / جوزمانے سے اوجھل کھڑے/ سرخ مینار والی گھڑی پر کھڑا ہے/ مگر کون جانے / گھڑی کون سے وقت پر/ منجمد ہوگئی تھی/ وہ کیسی پراسرار طاقت تھی/ جو وقت آگے بڑھاتی تھی/ اور سوئیوں کی پراسرار ٹک ٹک / زمانوں میں رستے بناتی تھی/ ماضی کو ماضی بھرے غار میں ڈالتی تھی/ اجالوں میں لاتی تھی دن/ چپ درختوں کے تاریک سائے میں / گم صم کھڑی / کچھ بتاتی نہیں ہے/ وہ کیسی نگاہوں کو بھرتی ہوئی/ صبح خنداں تھی/ کیسی سیہ رات تھی / کس پہاڑی کے پیچھے/ افق لال کرتے ہوئے شام اتری تھی/ جب وہ گھڑی رک گئی تھی / کوئی تو بتائے/ کوئی تو زمانوں کے بوجھل، سیہ رنگ/ پردے اٹھائے/ ہوا کوئی آئے، اڑائے/ مجھے لے کے جائے/ درختوں کے پیچھے کھڑے / سرخ مینار کے پاس / کہنہ گھڑی سے ملائے مرا وقت/ میں خود ہوں بچھڑا ہوا وقت سے/ جاکے خود کو گھڑی سے ملائوں/ گھڑی بھر گھڑی کو میں دیکھوں / میں لَے میں اترتے ہوئے/ خود کو / طاقت بھری سوئیوں سے ملائوں / میں خود چل پڑوں / میں گھڑی کو چلادوں۔
آج کا مطلع
یک سو بھی لگ رہا ہوں بکھرنے کے باوجود
پوری طرح مرا نہیں مرنے کے باوجود