سوچ لیا گیا ہے کہ محشر بدوش رہنے میں زیادہ لطف ہے۔
طے کرلیا گیا ہے کہ اب اِس طور ہی جینا ہے کہ دنیا کی توجہ ہم پر مرکوز رہے۔
ٹھان لی گئی ہے کہ سُکون کو مکمل طور پر تج کر، یعنی اپنے دِل و دِماغ سے دیس نکالا دے کر ہر لمحے کو آفتِ جاں بناتے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے۔
اہل سیاست کی باہمی کشمکش نے پوری قوم کو تین چار ماہ سے عجیب مخمصے میں ڈال رکھا ہے۔ دِن گزرتے جاتے ہیں اور الجھنیں توانا تر ہوتی جاتی ہیں۔ آگے بڑھنے سے خوف آتا ہے اور کوئی پیچھے ہٹنے کو بھی تیار نہیں۔ سب نے اپنی اپنی سکت کے مطابق دائرے متعین کر رکھے ہیں اور اُنہی دائروں میں رہتے ہوئے قیامت برپا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حد سے گزرنے کا تاثر دینے میں بُخل سے کام نہیں لیا جاتا اور کوئی حد سے آگے بڑھتا بھی نہیں!
جمہوریت کو بچانے اور پروان چڑھانے کے نام پر رچایا جانے والا یہ ڈرامہ اہل پاکستان کو ایک بار پھر جمہوریت سے متنفر کرنے کا باعث بنتا جارہا ہے۔ جمہوریت جن اقدار کو پروان چڑھاتی ہے وہ تو جیسے ہم سے روٹھ گئی ہیں۔ جمہوری کلچر جس رواداری کا درس دیتا ہے وہ اب ہمارے اجتماعی ذہن کے کسی کونے میں نہیں ہے۔ سیاست کسی دور میں شجرِ ممنوعہ تھی، اب یہ تفنّنِ طبع کا گھنا درخت ہے۔ جو عمل ملک کو چلانے کا ذمہ دار ہے وہ اب قوم کے لیے دل بستگی کا سامان کر رہا ہے!
ہم بہت کچھ بھول چکے ہیں۔ یہ بھی یاد نہیں رہا کہ ہمیں ہر حال میں اور کچھ نہ سہی، اپنا مفاد تو یاد رکھنا ہے۔ بھولتے جانے کی بیماری نے ہمیں اُس مقام تک پہنچا دیا ہے جہاں ہمیں یہ بھی یاد نہیں رہا کہ زندگی حسین یادوں کے سہارے ہی ڈھنگ سے گزرتی ہے۔ اِس کائنات میں سب کا بنیادی خاکہ ایک سا ہے۔ فرد سے قوم تک سب کا ایک ہی پیراڈائم ہے، ایک ہی ساخت ہے۔ ہر شخص حسین یادوں کے سائے میں رہنا چاہتا ہے۔ قوموں کی بھی یہی نفسیات ہوا کرتی ہے۔ ہر قوم کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ حسین یادیں اُس کے اجتماعی ذہن کا حصہ بنیں۔ مگر یہ کیا؟ یہاں تو بھرپور کوشش کی جارہی ہے کہ جو تھوڑی بہت دل نواز قسم کی یادیں حافظے کا حصہ ہیں اُنہیں بھی تہس نہس کردیا جائے۔ دوسری طرف نئی خوشگوار یادوں کی راہ ہموار ہونے کا امکان بھی داؤ پر لگایا جارہا ہے۔
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ یا کیوں ہونے دیا جارہا ہے؟
ایسا کیوں ہے کہ ہم ہر مثبت چیز کو خیرباد کہتے جارہے ہیں، بلکہ بعض کیسز میں تو اُن پر فاتحہ پڑھ رہے ہیں؟ اور دوسری طرف ہر منفی چیز کو بخوشی گلے لگایا جارہا ہے۔ کبھی کبھی تو ہم منفی باتوں میں ایسی بھرپور دلچسپی لیتے ہیں جیسے خوف لاحق ہو کہ کہیں محروم نہ رہ جائیں!
طوفان کی آنکھ میں زندگی بسر کرنے کا شوق اب جادو کی طرح سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جسے دیکھیے وہ زیادہ سے زیادہ خرابی کو گلے لگانا، اپنانا چاہتا ہے۔ لوگ ہر معاملے میں گنجائش اور سکت کو بھولنے کی عادت اپنا بیٹھے ہیں۔ اور اِس کا نتیجہ؟ صرف بربادی، اور کیا؟ جس راہ پر ہم بخوشی گامزن ہیں وہ بربادی کے سِوا کس منزل لے جاسکتی ہے؟
ایک بار پھر اسلام آباد کے قلب میں شدید احتجاج کا پروگرام تیار کیا گیا ہے۔ حکومت کی بنیادوں کو مزید ہلانے کی ایک اور سَر توڑ کوشش کی جانے والی ہے۔ معاملہ ایسا زوردار دکھائی دے رہا ہے جیسے کوئی جنگ چِھڑنے والی ہے۔ کیا واقعی؟ جلسوں میں تقریروں اور چینلز پر انٹرویوز میں قوم کو باور کرایا جارہا ہے کہ ''ابھی نہیں تو کبھی نہیں‘‘ اور ''مارو یا مر جاؤ‘‘ والا دن آیا چاہتا ہے۔ سبھی کے ذہن میں یہ تصور ٹھونسا جارہا ہے کہ 30 نومبر حتمی معرکے کا لمحہ ہے۔
تحریک انصاف عوام کے ذہنوں پر اپنا نقش مزید گہرا کرنے کی ایک اور سَر توڑ کوشش کرنے والی ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی نئی احتجاجی لہر سے نمٹنے کی بھرپور تیاری کا دعویٰ کیا ہے۔ آبی توپوں اور اشک آور گیس کے گولوں کا اہتمام کیا جاچکا ہے۔ پولیس کی بھاری نفری الرٹ ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا گیا ہے کہ اِس بار اسلام آباد پولیس دوسری دفاعی لائن میں ہوگی۔ سب سے آگے فرنٹیئر کانسٹیبلری اور دیگر پیرا ملٹری فورسز کے دستے ہوں گے۔ عمران خان کہتے ہیں کہ تشدد ہوا تو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ حکومت کہتی ہے کہ کسی کو حد سے آگے بڑھنے نہیں دیا جائے گا۔ وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان بھی یومیہ بنیاد پر انتباہ کر رہے ہیں کہ ریڈ زون میں داخل ہونے یا اہم ترین سرکاری عمارتوں پر دھاوا بولنے کی کوشش کا نتیجہ اچھا نہ ہوگا۔
30 نومبر کا غلغلہ اِس قدر بلند کیا گیا ہے کہ امریکہ اور چین کے سفیر نے عمران خان سے ملاقات کرکے وضاحت چاہی ہے۔ عمران خان نے اُنہیں بتایا ہے کہ احتجاج نئے مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔ یعنی بعض مطلوبہ اقدامات نہ کئے جانے پر 30 نومبر کے جلسے کے ذریعے حکومت سے شدید ناراضی کا اظہار مقصود ہے۔ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ دو بڑے ممالک کے سفیر ہمارے کسی اپوزیشن لیڈر سے کُھلّم کُھلّا ملاقات کرکے اپنے ''تحفظات‘‘ دور کریں! کسی بھی ملک کے معاملات میں مداخلت اور کیا ہوتی ہے؟ ساتھ ہی یہ امر بھی انتہائی شرمناک ہے کہ ہمارے حالات اِس قدر غیر یقینی ہوجائیں کہ بڑی طاقتوں کو ملاقاتیں کرکے وضاحت طلب کرنے کی ضرورت پیش آئے۔
چار ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کے دوران احتجاج کرنے والوں کا رویّہ مثالی نہیں رہا۔ اُنہوں نے معاملات کو اُلجھانے کا کوئی موقع ضائع نہیں کیا۔ اُن کے چند مطالبات جائز ہیں۔ گڈ گورننس کا مسئلہ خوب اٹھایا گیا ہے۔ ساتھ ہی سرکاری وسائل کی لُوٹ مار کی طرف بھی قوم کو متوجہ کیا گیا ہے۔ یہ سب ٹھیک ہے مگر انداز ایسا ہے کہ بہت کچھ اُلجھ کر رہ گیا ہے۔ دوسری طرف حکومت نے بھی اب تک اصلاح احوال کا بھرپور اشارا نہیں دیا۔ حکومتی اُمور کے چمن سے اقرباء پروری کے کانٹے نکالنے پر اب تک آمادگی ظاہر نہیں کی جارہی۔ وزیر اعظم کو اپنے عمل سے ثابت کرنا ہے کہ وہ گڈ گورننس پر یقین رکھتے ہیں، اقرباء پروری پر نہیں۔ وفاقی کابینہ کی اب تک کی کارکردگی ایسی نہیں کہ نواز شریف سُکون کا سانس لے سکیں۔ ابھی بہت کچھ کیا جانا ہے۔ اگر وہ اصلاحِ احوال کی طرف متوجہ نہیں ہوں گے تو اُن کی پوزیشن مزید کمزور ہوتی جائے گی۔ احتجاجی تحریک نے اُنہیں خاصا کمزور کیا ہے۔ احتجاجی تحریک نے گڈ گورننس کو بہت حد تک ناگزیر بنادیا ہے۔
دُکھ اگر ہے تو صرف اِس بات کا کہ اِس دھماچوکڑی میں وفاقی دارالحکومت کا سُکون اور استحکام داؤ پر لگ گیا ہے۔ اسلام آباد کے حسّاس ترین علاقے میں تین ماہ سے جاری دھرنا عالمی برادری میں ہمارے نام کے جھنڈے گاڑ چکا ہے! دُنیا سوچ رہی ہے کہ یہ کیسا ملک ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں بھی احتجاجی تحریک کو چلنے دیا گیا ہے۔ حکومت کی جہاں نشست ہو وہاں یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ اور نہیں ہونا چاہیے۔
اقرباء پروری کے خاتمے اور گڈ گورننس کے لیے آواز بلند کرنے والوں کے عزائم چاہے کتنے ہی نیک ہوں، نتیجہ منفی برآمد ہو رہا ہے۔ اسلام آباد کی صورت حال کا جائزہ لینے کے بعد کئی ممالک نے پاکستان میں سرمایہ کاری سے ہاتھ کھینچا ہے۔ سب سے بڑا دھچکا تو چینی صدر کے دورے کا منسوخ کیا جانا تھا۔ عمران خان اور طاہرالقادری آخر چاہتے کیا ہیں یہ تو ہم نہیں جانتے مگر ہاں، یہ بات قابل غور ہے کہ اُن کے لگائے ہوئے میلے میں پریشانی کے تماشے زیادہ ہیں۔ طاہرالقادری تو الگ راہ پر چل پڑے ہیں۔ خدا کرے کہ عمران خان 30 نومبر کو ایسا کچھ نہ کریں جس سے انتشار کی کیفیت توانا ہو۔ ایسا ہوا تو اُن کی اپنی تین چار ماہ کی محنت پر پانی پِھر جائے گا اور قوم ایک بار پھر نئے طوفان میں پھنس جائے۔