جون ایلیا کو ہم سے رُخصت ہوئے بارہ برس گزر گئے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ جون بھائی اب بارہ سال کے ہوئے ہیں! بھائی ناصر طفیل نے جون بھائی کی بارہویں برسی پر اپنے گھر ایک محفل کا اہتمام کیا جس میں اُن کے (جون بھائی کے) چاہنے والے شریک ہوئے۔ برادرم عارف انصاری کی وساطت سے ہم بھی گئے۔ محفل کا رنگ یوں تو ایک ہی تھا یعنی جون بھائی سے محبت اور عقیدت کا اظہار مگر اور بھی کئی رنگ دکھائی دیئے۔ متنوع مزاج رکھنے والوں کو جمع کیا گیا۔ کہنہ مشق شاعر افتخار عالم سے بھی ملاقات ہوئی۔ بھائی عبداللہ فرحت اللہ بھی جلوہ گر ہوئے۔ فنکاروں میں یاسر اور وحید سعید بھی تھے۔ خضر نے بڑی ایل سی ڈی اسکرین کا اہتمام کیا تاکہ جون بھائی کو ''ایکشن‘‘ میں دیکھا جاسکے!
ہم یہ سوچ کر گئے تھے کہ جون بھائی پر ذرا مُنظّم انداز سے بات ہوگی مگر وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ تقریب کا مزاج وہی تھا جو جون بھائی کا مزاج تھا یعنی خالص غیر مُنظّم۔ بات کہیں سے چلتی اور کہیں پہنچتی رہی۔ جون بھائی پر بولتے ہوئے بیشتر کا زور اُن کی شخصیت کے اُن پہلوؤں پر رہا جو کچھ زیادہ قابل تقلید نہیں۔ جون بھائی جس طرح کے واقع ہوئے تھے وہ طرح اب متروک سی ہے۔ اُن کے ذہن میں جو کچھ پنپتا اور اُبلتا رہتا تھا اُس کا بوجھ اُٹھانا خود اُن کے بس کی بھی بات نہ تھی۔ وہ جس مزاج کے واقع ہوئے تھے اُس کی روشنی میں اُن سے کسی بھی سطح پر ترتیب اور نظم و ضبط کی توقع عبث تھی۔
جون بھائی کی شخصیت اور فن میں بڑپّن مطالعے اور خالص ادبی و سنجیدہ ماحول سے پروان چڑھا تھا۔ لوگ اُن کی طرح عمیق مطالعے سے دُور بھاگتے ہیں اور ادبی ماحول میں زندگی گزارنا بھی اُن سے برداشت نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں وہ جون بھائی کی شخصیت سے ٹپکنے والے انتشار اور بَلا نوشی ہی کو شعر گوئی کی بُنیاد یا معراج سمجھ بیٹھتے ہیں۔
بے نیازی اور لا اُبالی پن میں تو بہت فرق ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ لوگ شُعراء کے بارے میں طرح طرح کے تصورات اور گمان پالتے تھے۔ شُعراء کے مزاج کو دیکھ کر لوگ اُن سے الرجک رہا کرتے تھے۔ عام آدمی کے ذہن میں صرف یہ تصور پروان چڑھتا رہتا تھا کہ جو شخص شعر کہتا ہے وہ کام کاج نہیں کرتا، گھر کی ذمہ داریوں کو نبھانے پر یقین نہیں رکھتا، ازواجی زندگی کے جھمیلوں میں پڑنے کا یارا نہیں رکھتا اور رات دن اپنی ہی دُنیا میں گم یا غرق رہتا ہے۔ تب شراب سمیت بہت سی عِلّتیں بھی شُعراء کے شب و روز بلکہ وجود کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ لوگ یہ سوچا کرتے تھے کہ شعر کہنے کے لیے لازم ہے کہ کچھ اور نہ کیا جائے، معاش کی فکر سے دور رہا جائے۔ جس کا ذہن ایک مصرع کہنے کے بعد دوسرے مصرع کی تلاش میں بھٹکتا پھرے وہ پھر کہاں کسی اور کام کا رہ سکتا ہے؟ غالبؔ نے بھی شِکوہ کیا تھا ؎
فکرِ دُنیا میں سَر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں!
جون بھائی مکمل شاعر تھے۔ اُنہوں نے زندگی بھر کوئی بھی لگا بندھا کام نہ کیا۔ ملازمت اُن کے مزاج سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ سچ یہ ہے کہ وہ شعر کہنے کے لیے پیدا ہوئے تھے اور شعر کہتے کہتے ہی اِس دُنیا سے رخصت بھی ہوئے۔ اُن سے نالاں رہنے والوں کی بھی کمی نہ ہوگی مگر ایسی کسی بھی شخصیت سے لوگ کس طرح کی توقعات رکھتے ہیں؟ اور کیوں؟
جون ایلیا یا کسی اور حقیقی شاعر کو مال و زر اور منصب کے پیمانوں سے ناپا یا تولا نہیں جاسکتا۔ تخلیق کار کو اُس کے فن کی کسوٹی پر پرکھا جانا چاہیے۔ کسی بھی فنکار کے فن پر بات کرتے ہوئے اس بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی کہ وہ کس عِلّت میں مُبتلا ہے۔ شاعر سمیت کسی بھی قلم کار یا فنکار کو اُس کی عادات کے نہیں بلکہ فن کے آئینے میں دیکھنا درست ہوگا۔
جون بھائی کا معاملہ عجیب تھا۔ آپ نے بھی سُنا یا پڑھا تو ہوگا ؎
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جُنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں!
ایک طرف جون بھائی کے مزاج کا انتشار۔ اور پھر اُن کے قریب ترین حلقے کا اندازِ دل نوازی۔ یعنی ع
دونوں طرف ''تھی‘‘ آگ برابر لگی ہوئی!
جون بھائی کے مزاج میں موجود انتشار کو احباب کی نوازش نے دو آتشہ کردیا۔ ہر دور میں ہمارے اہلِ ادب یا اہل قلم کو بزم آرائی کی عِلّت نے تباہ کیا ہے۔ کسی کافی ہاؤس میں بیٹھ کر کچھ دیر باتیں کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرنے میں اور یومیہ معمول کی حیثیت سے دن دن بھر یا رات رات بھر کی محفل سجاکر اپنا وقت اور صلاحیتیں ضائع کرنے میں تو بہت فرق ہے۔ قمر جمیلؔ، عُبیداللہ علیم، جمال احسانی وغیرہ کی طرح جون بھائی کو بھی مجلسی مزاج کی شِدّت نے خاصی اندرونی شکست و ریخت سے دوچار کیا۔ نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ وہ انتہائی غیر مُنظّم ہو رہنے کے باعث ایسا بہت کچھ نہ دے پائے جو دے سکتے تھے۔ جون بھائی بسیار گو تھے۔ اُن کی بہت سی بیاضیں خاصی تلاش کے بعد بھی ہاتھ نہ آئیں۔ یہ سب مزاج کے انتشار کا نتیجہ تھا۔
زندگی کا سارا کاروبار نظم و ضبط کے تابع اور مرہونِ مِنّت ہے۔ انتشار کی حالت صرف تباہی کو جنم دیتی ہے۔ فرد ہو یا کائنات، نظم ہے تو سب کچھ ہے۔ ترتیب گئی تو سمجھیے سب کچھ گیا۔ مزاج کی تہذیب کیے بغیر کوئی کچھ کرسکتا ہے نہ بن پاتا ہے۔
جون بھائی منفرد لہجے کے انتہائی باکمال شاعر تھے مگر، جیسا کہ امام شامل نے تاکید کی، ہمیں یہ بات کسی بھی مرحلے پر نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ آخرش انسان تھے۔ جون بھائی کو اُن کے خواص کے دائرے میں رکھ کر پرکھنا چاہیے۔ اُن کی شخصیت کو پُوجنے کے بجائے ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ اُنہوں نے اپنے عہد کے بُنیادی مسائل کو کس طور اپنے فن کی لڑی میں پرویا اور آنے والوں کے لیے کیا توشہ چھوڑا۔ جون بھائی سے محبت کرتے کرتے کئی قدم آگے جاکر اُن سے عقیدت کا معاملہ کرنا اُن سے سخت نا انصافی ہی پر محمول ہوگا۔ اگر جون بھائی کو اُن کے فن کی مختلف جہتوں سے ہٹ کر کہیں تلاش کیا گیا تو تلاش ختم نہیں ہو پائے گی اور وہ ہمارے ہاتھ نہیں آ پائیں گے۔