حکومتی اقدامات کے فوائد
آنے لگے ہیں... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''حکومتی اقدامات کے فوائد آنے والے ہیں‘‘ اور یہ بات مجھے مصدق ملک صاحب نے خود بتائی ہے اور ان کی اطلاع غلط نہیں ہو سکتی‘ اس کے علاوہ ان حضرات کا بھی یہی کہنا ہے جنہیں میگاپروجیکٹس کے ٹھیکے وغیرہ دیے جا رہے ہیں۔ عوام کو ان نام نہاد فوائد کی ہرگز ضرورت نہیں جو حال مست بھی ہیں اور کھال مست بھی۔ انہوں نے کہا کہ ''بجلی 47 پیسے سستی کردی گئی ہے‘‘ جس پر عوام خوشی سے بھنگڑے ڈال رہے ہیں جبکہ ان کی خدمت کے لیے گیس کی لوڈشیڈنگ بھی تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آئی ایس آئی دفاعی لائن کا پہلا حصار ہے‘‘ جبکہ دماغی لائن کا پہلا حصار کوئی اور ہے‘ اسی لیے ہمارے ہر کام اور فیصلے میں دیر ہو جاتی ہے کیونکہ سوچنے سمجھنے کا کام ذرا مہلت طلب ہوتا ہے‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''آئی ایس آئی کی قربانیاں قابل فخر ہیں‘‘ جن میں اگر ہماری قربانیاں بھی شامل کر لی جائیں تو قربانیوں کا ایک پہاڑ کھڑا ہو سکتا ہے جس کا نام کوہِ قربانی رکھا جا سکتا ہے جبکہ ہم نے سارا کچھ عوام پر قربان کر کے ملک سے باہر بھیج رکھا ہے۔ آپ اگلے دن ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر سے ملاقات کر رہے تھے۔
جو لوگ ہمیں کمزور سمجھ رہے ہیں
وہ غلطی پر ہیں... جہانگیر بدر
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما جہانگیر بدر نے کہا ہے کہ ''جو لوگ ہمیں کمزور سمجھ رہے ہیں وہ غلطی پر ہیں‘‘ کیونکہ ہم کمزور نہیں بلکہ انتہائی کمزور ہیں کیونکہ اپنی ساری توانائیاں سابق دورِ حکومت میں عوام کی خدمت پر صرف کر چکے ہیں جبکہ سابق وزرائے اعظم‘ مخدوم امین فہیم‘ رحمن ملک اور دیگر اکثر حضرات تو دیوالیہ ہونے کے نزدیک پہنچ چکے ہیں جن کی‘ بینظیر سپورٹ پروگرام سے مدد کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی عمران خان کو مدمقابل نہیں سمجھتی‘ بلکہ انتخابات کے موقع پر ہمارے مقابل کوئی کھمبا کھڑا ہوا تو وہ بھی جیت جائے گا کیونکہ اب ہم صرف اخلاقی فتح پر یقین رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی کو کچھ نہیں ہوا‘‘ بلکہ ہماری وجہ سے جو کچھ بھی ہوا ہے‘ عوام کو ہی ہوا ہے جن کی صحت یابی کے لیے ہم دعاگو رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پیپلز پارٹی کے سوا تاریخ میں کسی اور کا ریکارڈ ہی نہیں ہے‘‘ کیونکہ ہم جب بھی اقتدار میں آتے ہیں‘ اپنا ہی قائم کیا ہوا ریکارڈ توڑتے اور نئے ریکارڈ قائم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی کی قیادت اپنے جیالوں کے پاس جا رہی ہے‘‘ اور جیالے خوفزدہ ہو کر کہیں اور جانے کی سوچ رہے ہیں۔ آپ اگلے روز ایک نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شریک ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
مجھے قدرت ہی ہٹا سکتی ہے یا
پارٹی چیئرمین... قائم علی شاہ
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے کہا ہے کہ ''مجھے قدرت ہٹا سکتی ہے یا چیئرمین‘‘ بلکہ سچ پوچھیں تو چیئرمین ہی؛ کیونکہ قدرت کو سارے کام چھوڑ کر مجھے ہٹانے کی کیا ضرورت پڑی ہے کیونکہ میں تو ویسے بھی قدرت کی خدمت میں حاضری دینے کو تیار بیٹھا ہوں اور اس میں اس قدر مگن ہوں کہ کہنا کچھ چاہتا ہوں اور منہ سے کچھ اور نکل جاتا ہے۔ اسمبلی میں اور دیگر اجلاسوں کے دوران سویا ہوا پایا جاتا ہوں تو دراصل اس وقت میرا قدرت سے رابطہ قائم ہو چکا ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''فاٹا سے بھاگنے والے دہشت گرد کراچی آ کر یہاں چھپ رہے ہیں‘‘ اور‘ ہم ان کے خلاف کوئی کارروائی اس لیے نہیں کرتے کہ پناہ میں آئے ہوئے شخص کی حفاظت کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ''پارٹی میں میرے بارے مختلف آرا ہو سکتی ہیں‘‘ کیونکہ بزرگی کی وجہ سے میں خود بھی روز بروز مختلف ہوتا جا رہا ہوں۔ آپ اگلے روز کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
30 نومبر کو امن برقرار رکھنے کے لیے عمران
کو تحریری ضمانت دینا ہوگی... سعد رفیق
وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ ''30 نومبر کو امن برقرار رکھنے کے لیے عمران خان کو تحریری ضمانت دینا ہوگی‘‘ اگرچہ ایسی ضمانت تو ان سے پہلے بھی لی گئی تھی لیکن اس پر صرف ان کے دستخط تھے جبکہ اس دفعہ ان کے انگوٹھے بھی لگوائے جائیں گے اور وہ بھی مخصوص سیاہی سے‘ تاکہ مُکر نہ سکیں‘ اگرچہ انتخابات میں استعمال ہونے والی سیاہی سے کچھ ثابت ہی نہیں ہوتا اور جتنے بھی جعلی نشان انگوٹھا ہوتے ہیں اتنا ہی باعث برکت ثابت ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''ریڈ زون میں داخلے کی اجازت انتظامیہ نے دینی ہے‘‘ اور انتظامیہ کو اس سلسلے میں پوری ہدایات جاری کردی گئی ہیں؛ البتہ پولیس کا کوئی اعتبار نہیں کہ وقت پڑنے پر کوئی ایکشن لیتی ہے یا نہیں؛ کیونکہ وہ ابھی سے عمران خان کو وزیراعظم سمجھے بیٹھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران خان عوام کو گمراہ کر رہے ہیں‘‘ حالانکہ یہ کسی اور کا حق ہے جس میں سراسر مداخلت کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''دھرنوں سے معیشت کو نقصان پہنچا ہے‘‘ اگرچہ اس کے لیے ہم خود ہی کافی تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ دھرنوں کی بجائے آئی ڈی پیز پر توجہ دیں‘‘ کیونکہ ہم ذرا دیگر مفید اور خفیہ کاموں میں مصروف ہیں۔ آپ اگلے دن لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔
چیف الیکشن کمشنر کا معاملہ
اگرچہ سپریم کورٹ نے 5 دسمبر کے بعد اپنے ایک جج کو‘ جو یہ خدمات سرانجام دے رہے تھے‘ واپس بلانے کے فیصلے کا اعلان کردیا ہے لیکن ایسے آثار نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن مقررہ وقت تک یہ کام کر گزریں گی؛ کیونکہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اب وہ خیرسگالی نہیں رہی جو ماضی قریب تک موجود رہی ہے اور ان کے لیے اسی سلسلے میں کسی ایک شخصیت پر متفق ہو جانا کچھ ایسا آسان نہیں رہا۔ انتخابات سے پہلے کی بات کچھ اور تھی جب دونوں پارٹیوں نے اپنے اپنے مفاد کے تحت ایک فرد پر اتفاق کر لیا تھا اور سندھ اور پنجاب کی حد تک اس کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا لیا تھا جبکہ اب ایسی سودے بازی آسان نہیں رہی؛ تاہم جہاں تک موجودہ چیف الیکشن کمشنر کو بطور جج اپنے عہدے پر واپس لے آنے کا تعلق ہے تو اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ ایک آئینی عہدہ ہے اور آئین کے مطابق اگر یہ عہدہ کسی وجہ سے خالی ہوتا ہے تو سپریم کورٹ کے لیے لازمی ہے کہ وہ اپنے کسی جج کو یہ ذمہ داری سونپ دے۔ چنانچہ سپریم کورٹ آئینی طور پر اپنے کسی جج کو اس عہدے پر رکھنے کے لیے مجبور ہے جب تک یہ عہدہ کسی وجہ سے خالی ہو جاتا ہے۔ اس لیے اگر 5 دسمبر تک حکومت کی طرف سے یہ عہدہ پُر نہ کیا گیا تو یا تو عدلیہ کو یہ حکم واپس لینا پڑے گا یا اپنا کوئی اور جج وہاں بھیجنا پڑے گا! بصورت دیگر یہ آئین کی کھلی خلاف ورزی ہوگی۔
آج کا مطلع
کیا خبر یاد رہا کون، کسے بھول گئے
تو ہمیں بھول گیا ہم بھی تجھے بھول گئے