پوری دنیا میں جہاں جہاں جمہوریت قائم ہے، واضح طور پر اس نظام حکومت کے فوائد دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ ایران جیسے ملک میں جہاں جمہوری حکومت کے اوپر ایک مقتدر شخصیت موجود رہتی ہے وہاں بھی جمہوری نظام اس ملک کو اس قدر مضبوط کرچکا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں کئی فوجی ملک مشترکہ طور پر اس ملک کو دبانے میں ناکام رہے ہیں۔
سرد جنگ کے زمانے میں اشراکیت کے دائرۂ اثر میں اکثر ملکوں میں جمہوریت نہیں تھی جبکہ سرمایہ دارانہ نظام کی حامل معیشتوں میں جمہوری نظام تھا۔ نتیجہ کیا ہوا کہ غیر جمہوری ممالک اس قدر پیچھے رہ گئے کہ ان کو باقاعدہ ہار ماننا پڑ گئی۔
گویا جمہوریت کی گائے ہمیں ہر جگہ دودھ دیتی نظر آتی ہے مگر معلوم نہیں ہمارے ہاں جمہوریت کو کیا ہوجاتا ہے۔ یہاں اس نظام حکومت سے ہمیں دودھ کے بجائے زہر ہی ملتا رہا ہے۔ آج بھی یہی صورتحال ہے۔
مجبوری ہماری یہ ہے کہ جب جمہوریت کا نعرہ لگایا جاتا ہے تو ہم اس کی نفی کر ہی نہیں سکتے۔ اس وقت دنیا میں جتنے بھی حکومت کرنے کے طریقے رائج ہیں ان میں جمہوریت ہمارے لیے بھی سرفہرست یوں آجاتی ہے کہ ہمارے مذہب میں جس نوعیت کی حکمرانی کی ترغیب موجود ہے وہ بھی جمہوریت ہی کے قریب تر ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر جمہوری نظام ہو تو لازماً معاشرے کو اس کے فوائد حاصل ہوتے ہیں اور اگر آپ کو دکھائی دے کہ معاشرہ روز بروز گڑھے میں گرتا جارہاہے تو پھر اس نظام حکومت کو جو جمہوری ہونے کا دعوے دار ہو، جمہوری تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔
اس اخذ کردہ نتیجے کی روشنی میں آپ اپنی موجود صورتحال پر غور کریں۔ آپ کو دکھائی دے گا کہ جمہوریت کے نام پر جو طرز حکومت ہم پر نافذ ہے‘ وہ ہمیں مسلسل تباہی کی طرف لے کر جارہا ہے۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اس طرز حکومت کو ہم کیا کہیں؟ حکمران تو جمہوریت جمہوریت کی رٹ لگاتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے میثاق جمہوریت پر دستخط کرکے قوم پر ایک احسانِ عظیم کررکھا ہے۔
ہمارے ایک دوست کو سیاسی تجزیے کرنے کا بڑا شوق ہے۔ ان کا میثاق جمہوریت کے بارے میں کہنا ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد بقیہ پاکستان پر صوبہ پنجاب کی حکومت قائم ہوگئی تھی جو کچھ برسوں بعد کمزور پڑنے لگی تو سوچا گیا کہ کیوں نہ سندھ کو بھی اقتدار میں شامل کرلیاجائے۔میرے اس دوست کے کہنے کے مطابق میثاق جمہوریت دراصل پنجاب اور سندھ کا مل کر پورے پاکستان پر حکومت کرنے کا عہد نامہ ہے جو مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادتوں نے کررکھا ہے تاکہ ملک کے بقیہ دونوں صوبوں ، قبائلی علاقے ، شمالی علاقے اور آزاد کشمیر کا استحصال جب تک ہوسکتا ہے کیا جائے۔
مجھے اپنے دوست کے اس تجزیے سے ہمیشہ اختلاف رہا مگر جب سے عمران خان کے احتجاج کے بعد محترم آصف زرداری اور میاں نوازشریف یکجا ہوکر قومی منظر پر ابھرے ہیں‘ میں اس تجزیے سے کچھ کچھ اتفاق کرنے لگا ہوں۔مجھے نظر آرہا ہے کہ ملک کی ان دونوں بڑی جماعتوں کو سب سے زیادہ فکر پنجاب اور سندھ ہی کی رہتی ہے اور یہ فکر بھی محض اس حد تک رہتی ہے کہ کہیں یہ دونوں صوبے ان کے ہاتھ سے نہ نکل جائیں۔ اگر یہ جماعتیں صحیح معنوں میں ان صوبوں میں عوام دوست پالیسیاں اپنائیں، اقتدار نچلی سطح تک منتقل کریں ، غربت دور کریں، کسانوں کی دعائیں لیں تو پھر ممکن ہے ان اصلاحات کا اثر ملک کے دوسرے حصوں تک بھی پہنچ جائے اور مجموعی طور پر ملک کا بھلا ہوجائے۔ مگر یہ دونوں جماعتیں تو بس دکھاوے کے کام کرکے ادھر تم ادھر ہم ، یعنی پنجاب میں تم اور سندھ میں ہم کی پالیسی چلاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان جماعتوں نے اٹھارہویں ترمیم میں جو بے پناہ اختیارات صوبوں کو منتقل کیے ہیں اس کی وجہ بھی یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہ دونوں جماعتیں مرکز کے پاس اتنے وسائل چھوڑنا ہی نہیں
چاہتیں کہ وفاق پاکستان دیگر دو صوبوں، فاٹا، شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر کو خوشحال بنانے کی کوئی کوشش کرسکے۔ ان دونوں جماعتوں نے قصداً مرکزی حکومت کو بے اختیار کردیا ہے۔دکھائی یہ دے رہا ہے کہ جمہوریت کے نام پر دو جماعتیں دو صوبوں پر قابض ہیں‘ اور باقی ملک کا کھل کر استحصال کررہی ہیں۔ ان حالات میں یہ جمہوریت نہیں ہے۔ یہ تو برائی ہے جس کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔
برائی کا لفظ میرے قلم سے نکلا تو میرا دھیان اس طرف گیا کہ ہمارا مذہب ہمیں برائی روکنے کے بارے میں کیا کہتا ہے۔ اپنے دین سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ برائی کو اگر دیکھو تو اس کو اولاً ہاتھ سے روکو، اگر ایسا نہ کرسکو تو زبان سے اس کی مذمت کرو، اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کم از کم دل میں اسے برا کہو۔ دل میں برا کہنے کو ایمان کی کمزور ترین حالت کہا گیا ہے۔ اس وقت جمہوریت کے نام پر جو برائی ہمارے ملک پر طاری ہے‘ اس کو اکثریت تو دل ہی میں برا کہتی ہے۔ گویا ہماری آبادی کی اکثریت ایمان کی کمزور ترین حالت کا مظاہرہ کررہی ہے۔ زبان سے اس برائی کی مذمت کرنے میں اس وقت تحریک انصاف آگے آگے ہے۔ کچھ ہفتے قبل البتہ پاکستان عوامی تحریک اور اس کے سربراہ طاہرالقادری نے بڑے بھرپور انداز میں اس برائی کی مذمت کی مگر پھر اچانک موصوف کے رویے میں تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اگرچہ وہ اب بھی اپنا پرانا موقف دہراتے ہیں مگر وہ بات کہاں جو پہلے دیکھنے میں آتی تھی۔
تو بہرحال اب عمران خان ہی اس میدان میں رہ گئے ہیں کہ کم ازکم زبان سے اس برائی کی مذمت کررہے ہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ زبان سے آپ کتنی بھی مذمت کرلیں‘ اس سے یہ برائی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ جو طاقت اس برائی کو ہاتھ سے روک سکتی ہے‘ وہی اس وقت پاکستان کی ضرورت معلوم ہوتی ہے۔ وگرنہ عمران خان جتنی چاہے مذمت کرلیں، برا بھلا کہہ لیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کچھ حاصل اگر ہوسکتا ہے تو اس کے دو ہی طریقے ہیں۔ ایک تو یہی کہ برائی کو ہاتھ سے روکنے والی طاقت آگے بڑھے اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں کی اکثریتی آبادی جو کمزور ایمان کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمہوریت کے لبادے میں ملک پر طاری اس برائی کو محض دل میں برا کہتی ہے‘ وہ کم از کم کھل کر زبان سے اس برائی کی مذمت کرنے لگے اور پھر ضرورت پڑنے پر اس برائی کو ہاتھ سے روکنے کے لیے بھی آگے بڑھے۔
پہلا طریقہ‘ جو برائی کو ہاتھ سے روکنے والی طاقت کے اقدام سے متعلق ہے اس میں بہت سے مسائل ہیں اور ماضی میں اس طریقے سے ہم نے فوائد کم اور نقصان زیادہ اٹھائے ہیں لہٰذا قابل عمل صرف دوسرا طریقہ ہے کہ عوام اپنے ایمان میں مضبوطی پیدا کرتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوں۔ اکثریتی آبادی جب ایمان کی مضبوطی کا اظہار کرے گی تو پروردگار یقینا اس قوم کی حالت بدل دیں گے۔ لہٰذا قوم کا جاگنا ضروری ہے۔ عمران خان دعویٰ کررہے ہیں کہ قوم جاگ چکی ہے۔ 30نومبر کو معلوم ہوجائے گا کہ موصوف کا دعویٰ درست ہے یا ابھی ہمیں جمہوریت کے نام پر اس کھیل کو مزید برداشت کرنا ہوگا۔