تاریخی قوتیں بے لگام ہو جائیں تو کوئی بھی حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ نوازشریف اور عمران خان ایک دوسرے کی تباہی کے درپے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ دونوں!
ایسا لگتا ہے کہ ہنگامہ ہو کر رہے گا۔ غصّے میں بھرے مظاہرین کو وہ روکنے پر تلے ہیں اور ہر حال میں بروئے کار آنے کو۔ ضربِ عضب شروع ہونے کے بعد عمران خاں نے بہاولپور کا جلسہ منسوخ کر دیا تھا، جہاں وہ ایجی ٹیشن کا پروگرام دینے والا تھا۔ علّامہ طاہرالقادری نے بھی۔ صورتِ حال سے فائدہ اٹھا کر شریف حکومت نے طاقت کا مظاہرہ کرنے اور مخالفین کو سبق سکھانے کا فیصلہ کیا۔ آخرِ شب ہزاروں پولیس والوں کے ساتھ وہ منہاج القرآن یونیورسٹی پہ چڑھ دوڑے اور لگ بھگ ایک سو لوگوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ اس کے نتیجے میں، ہاں اسی کے نتیجے میں وہ تحریک اٹھی، تین ماہ سے ملک جسے بھگت رہا ہے۔ چین کے صدر سمیت کئی غیرملکی سربراہوں کے دورے منسوخ ہوئے اور معیشت مجروح ہونے لگی۔ چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم نے براہِ راست رانا ثناء اللہ کو حکم دیا تھا کہ علّامہ کی پارٹی کو سبق سکھایا جائے۔ بار بار ٹی وی پر دہرائے جانے والے اس الزام کی تردید نہیں کی گئی۔
ایک بار پھر وہی صورتِ حال ہے۔ انتقام کے جذبے سے سرشار، نتائج و عواقب سے بے پروا، عمران خان ایک بار پھر دارالحکومت پر یلغار کرنے والے ہیں اور ایک بار پھر حکومت وہی حربے آزمانے والی ہے۔ مبصرین نے نوٹ کیا ہے کہ روزِ گذشتہ صوبائی حکومت کا جو اجلاس ہوا، وزیرِ قانون کی بجائے رانا ثناء اللہ اس میں شریک ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی واپسی کا فیصلہ ہو چکا۔ وہ شخص، جو وزیرِ اعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری کے ساتھ اس سانحے کا ذمہ دار ہے، جس نے ملک کو بدامنی کی راہ پر ڈال دیا۔ وزیرِ اعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ اگر ان کے ملوّث ہونے کا ذرا سا ثبوت بھی مل جائے تو وہ اپنے منصب سے الگ ہو جائیں گے۔ ان کے اپنے قائم کردہ عدالتی کمیشن کی رپورٹ سرد خانے میں پڑی ہے، جو وزیرِ اعلیٰ کو قصوروار ٹھہراتی ہے... اور وفاقی وزرا ایک بار پھر اشتعال پیدا کرنے والے بیانات داغ رہے ہیں۔
30 نومبر میں دو دن باقی رہ گئے۔ اسلام آباد ایک بار پھر کنٹینروں کا شہر ہے۔ شہر کو پولیس کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہو چکا۔ اس امر کا ادراک کرنے کے لیے افلاطون کے دماغ کی ضرورت نہیں کہ نتیجہ کیا ہو گا۔ سرکار تسلیم کرتی ہے کہ احتجاج ایک جمہوری حق ہے۔ پھر وہ تحریکِ انصاف کے لیڈروں سے بات کیوں نہیں کرتی کہ جلسہء عام کے لیے کسی خاص علاقے کا تعین کر دیا جائے۔ اپنے طور پر اگر وہ اعلان کر دے کہ مظاہرین کو روکا نہیں جائے گا؟ اگر ان کے لیے ایف نائن پارک یا نمائش گرائونڈ کا علاقہ مخصوص کر دیا جائے؟
عاقبت نااندیشی! پرویز رشید تو تھے ہی اور ظاہر ہے کہ محض اپنی مرضی سے نہیں بلکہ وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ کی آشیرباد سے۔ محمد زبیر بھی اس کھیل میں شامل ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ سینیٹر اور پھر وزیر بننے کے لیے بے تاب ہیں۔ آسان ترین نسخہ اس کا یہ ہے کہ حکومت کے مخالفین کا مذاق اڑایا جائے۔ دنیا بھر میں ہوش مند اور شائستہ حکومتیں اشتعال کی آگ ٹھنڈی کرنے کی کوشش کیا
کرتی ہیں۔ سیاسی کارکنوں کو چڑانے کا نتیجہ ہمیشہ خطرناک ہوا کرتا ہے مگر شریف حکومت کا نسخہ مختلف ہے۔ ایک طرف گھبراہٹ کا عالم یہ تھا کہ وزیرِ اعظم نے براہِ راست چیف آف آرمی سٹاف سے مدد مانگی تھی۔ دوسری طرف اب یہ عالم ہے کہ دھرنا کے سوکھ جانے سے نون لیگ کے دھانوں پر پانی پڑا ہے اور ایک بار پھر طاقت آزمانے کا تہیہ ہے۔ جی نہیں حضور، جلالِ شاہی نہیں، ایسے میں ہوش مندی کی ضرورت ہوا کرتی ہے۔
اللہ کے آخری رسولؐ نے ارشاد کیا تھا: بنی اسرائیل کے انبیاؑ سیاست کیا کرتے تھے۔ اجتماعی حیات اگر سیاست کی احتیاج مند ہے اور یقینا ہے تو اسے ایک آرٹ کی طرح ہونا چاہیے۔ بالکل برعکس، ایک کے بعد ہم گنوار پن کا دوسرا مظاہرہ دیکھتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف امریکہ کے دور ے پر تھے تو خارجہ امور کے جہاندیدہ مشیر سرتاج عزیز نے ایسا زہر گھولا کہ سننے اور دیکھنے والے دنگ رہ گئے۔ بعد میں وضاحتیں مگر سانپ گزر جانے کے بعد یہ لکیر پیٹنے والی بات تھی۔ قومی اور بین الاقوامی پریس میں ابھی اس بیان کی بازگشت باقی تھی کہ خواجہ آصف نے اسلام آباد کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاک امریکہ تعلقات کے بارے میں کم و بیش اسی طرح کی گفتگو کی۔ کوئی بات ان کی غلط نہیں تھی۔ امریکہ ہرگز ایک قابلِ اعتبار حلیف نہیں اور جس طرح بھی ممکن ہو، اس پیرِ تسمہ پا سے نجات پانی چاہیے؛ با ایں ہمہ ہر چیز کا ایک وقت اور ایک قرینہ ہوتا ہے۔ بے وقت کی راگنی سے تاثر یہ پیدا ہوا کہ سول حکومت ان اقدامات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے، ملک کو دلدل سے نکالنے کے لیے عسکری قیادت نے جن کی منصوبہ بندی کی ہے۔
خدا خدا کرکے افغانستان کے محاذ پر ایک بڑی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ خوش بختی سے حامد کرزئی سے کابل کو نجات ملی اور خوش بختی سے اشرف غنی ایسا شخص افغانستان کا صدر منتخب ہو گیا‘ جسے ادراک ہے کہ پاکستان کی خوش دلانہ شرکت کے بغیر اس دیار میں امن قائم نہیں ہو سکتا۔ خوش بختی سے امریکیوں نے اس خطہء ارض میں چین کی اہمیت کو تسلیم اور بھارت کا کردار محدود کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ تلخی کے ایک طویل دور کے بعد، جس میں حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک اٹھی اور غیرملکیوں نے جس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی، بالآخر افغانستان اور بھارت کے باب میں سول اور فوجی قیادت میں قدرے ہم آہنگی کے آثار نمودار ہوئے۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری پر آگ برسانے والے قاتل مودی نے اپنے تکبر سے راہ ہموار کی اور میاں محمد نواز شریف کو زمینی حقائق کا ادراک ہوا۔ ان کا حال تو وگرنہ یہ تھا کہ حامد کرزئی اور من موہن سنگھ کو اپنی تقریبِ حلف برداری میں بلانے کے لیے بے چین تھے۔
سیاست ایک آرٹ ہے اور تقاضا کرتا ہے کہ حالات کے تمام پہلوئوں کو خوب اچھی طرح سمجھ کر، پھونک پھونک کر قدم اٹھایا جائے۔ جس تہہ در تہہ بحران میں ملک مبتلا ہے، اس میں احتیاط اور ہوش مندی کی اور بھی زیادہ ضرورت ہے۔ اتنی ہی مگر بے احتیاطی ہے، اتنی ہی لاپروائی اور اتنا ہی گنوار پن۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ مسلم قوم پرست لیڈروں، کانگریس اور انگریز حکمرانوں کے مقابلے میں مسلم لیگ بہت کمزور تھی... مگر قوم کے اتحاد اور قائد اعظم کی سیاسی بصیرت نے ان تمام حریفوں کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ ایک زمانہ یہ ہے کہ تمام وسائل ہمارے پاس موجود ہیں، جو ایک قوم کو سرخرو کرنے کے لیے کافی ہوں؛ بشرطیکہ وہ دانائی سے کام لے۔ ہم مگر خود شکنی پر تلے ہیں۔ بازاری زبان میں بات کرنے والے لیڈر اور پاگلوں کی طرح ایک دوسرے کے گریبان نوچنے پر تلے ہوئے بے قابو گروہ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
انتخابی دھاندلی بس کی گانٹھ ہے۔ کوئی نہ کوئی اہتمام کرنا ہی پڑے گا کہ اس تنازعے کو سلجھایا جائے۔ دھوپ میں رکھی برف کی طرح پیپلز پارٹی تحلیل ہو جانے کی راہ پر گامزن ہے۔ اور بھی سیاسی پارٹیاں ہیں اور ان کا کردار باقی رہے گا۔ قومی سطح پر مگر اب دو ہی بڑی جماعتیں ہیں۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف۔ آج نہیں تو کل انہیں ایک دوسرے سے بات کرنا ہو گی‘ وگرنہ جو خلا پیدا ہو گا، اس میں کوئی اور نمودار ہو گا کہ خانہء خالی را دیو می گیرد۔ عدالتِ عظمیٰ یا عسکری قیادت، فی الحال یہ کہنا مشکل ہے۔ عمران خان اور میاں محمد نواز شریف، ایک دوسری کی تباہی کے وہ درپے ہیں اور پورا امکان ہے کہ واقعی ایک دوسرے کو برباد کر کے رکھ دیں۔
تاریخی قوتیں بے لگام ہو جائیں تو کوئی بھی حادثہ رونما ہو سکتا ہے۔ نوازشریف اور عمران خان ایک دوسرے کی تباہی کے درپے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں وہ کامیاب رہیں گے۔ دونوں!