اقتدار کی یہ جنگ ہماری جنگ نہیں۔ وحشت اور حرص و ہوس کے مارے ہوئے لیڈر اور ان کے خوشہ چیں۔ قوم کو وہ سب فریب دیتے ہیں۔ ہمیں ان سے کیا واسطہ؟
کہا جاتا ہے کہ سچّائی میدانِ جنگ کی پہلی مقتول ہے۔ تحریکِ انصاف اور نون لیگ کی لڑائی کا معاملہ بھی یہی ہے۔ شریف خاندان پر عمران خان کے تمام الزامات درست نہیں ہوتے۔ ادھر کسی نے کپتان کے کان میں سرگوشی کی اور ادھر انہوں نے وہ ''بریکنگ نیوز‘‘ نشر کر دی۔ رہے پرویز رشید تو بیچارے کی ڈیوٹی ہی یہ ہے۔ آدمی جب برہمی کا شکار ہوتا ہے اور برہمی جب وحشت میں ڈھلتی ہے تو آدمی وہ کہاں رہتا ہے۔
پندرہ برس ہوتے ہیں، پشاور کے سفر میں میرے خالہ زاد بھائی طارق چوہدری نے نمک منڈی جانے پر اصرار کیا۔ سینیٹر صاحب خوش لباس واقع ہوئے ہیں۔ ایک سے ایک خوبصورت کرتا اور کھسّہ۔ فیصل آباد کے نواح میں ایک درزی انہوں نے ڈھونڈ نکالا ہے، جو ہاتھ سے لباس سیتا ہے۔ اس کی چھب ہی دوسری ہوتی ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ اس پر کچھ زیادہ خرچ نہیں اٹھتا۔ طارق صاحب یوں بھی کفایت شعار ہیں، روپیہ کبھی ضائع نہیں کرتے۔ اس باب میں وہ اپنے لیڈر عمران خان کے ہم پلّہ ہیں۔
رحیم یار خان جانا ہو تو اپنے بھائیوں کے ساتھ کبھی کبھار میں بھی بہادر پور چوک کا چکر لگا لیتا ہوں‘ جہاں ہندو کاریگر اس کمال کا جوتا بناتے ہیں کہ اس کا وزن ایک آدھ چھٹانک سے زیادہ نہیں ہوتا۔ صدیوں سے نسل در نسل وہ اس ہنر کے امین ہیں۔ پائوں میں گویا آپ ریشم پہن لیتے ہیں۔ قیمت معمولی سے کچھ زیادہ۔ پہنتا میں خال ہی ہوں۔ ایسا زرق برق جوتا مجھے کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ برسوں پہلے ایک درویش نے مجھ سے کہا: رنگوں کے باب میں تمہاری پسند بالکل محدود ہے۔ سفید یا آس پاس کے رنگ۔
طارق چوہدری مصر ہوئے تو بیزاری کے ساتھ میں نمک منڈی گیا۔ دکاندار جس تپاک کے ساتھ پیش آیا، اس سے اندازہ ہوا کہ ایک دوسرے کو وہ خوب پہچانتے ہیں۔ ایک عدد پشاوری چپل میں نے بھی خریدی اور گاڑی کی ڈگی میں پھینک دی۔ اسی کاریگر نورالدین کی بنی ہوئی، جس کا کل ٹی وی پر چرچا رہا۔ پشاور کا قصد ہمیشہ سابق صدر غلام اسحٰق خان سے ملاقات کے لیے ہوتا اور میں اس کے لیے بے چین تھا۔ اس چپل کو میں بھول گیا ہوتا‘ مگر ایک روز پہننا پڑی تو میں حیرت زدہ رہ گیا۔ ایسا آرام دہ جوتا! نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ گرمیوں کے اس موسم میں ایک بار بھی پتلو ن پہننے کی نوبت نہ آئی۔ شلوار قمیض اور پشاوری چپل۔ بارہا میں نے سوچا اور شاید ایک آدھ بار طارق چوہدری سے کہا بھی کہ اگر یہ شخص بوٹ بنائے تو اٹلی کی مشہور کمپنی ''بالی‘‘ کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ اسے چاہیے کہ دوسروں کو تربیت دے اور ملک بھر میں اپنی برانچیں کھولے۔
عمران خان اسی نورالدین کی بنائی ہوئی چپل پہنتے ہیں مگر ہمیشہ سے نہیں، ادھر چند سال سے۔ اب تو خیر گاہے وہ ذرا سی احتیاط کرتا ہے وگرنہ لباس کے باب میں ایسا غیر محتاط آدمی شاذ ہی دیکھا۔ خاص طور پر لیڈروں میں۔ رنگ کی پروا ہوتی ہے اور نہ سلائی کی۔ بارہا ایسی چپل میں نے اسے پہنے دیکھا ہے کہ ایڑی کے دھاگے لٹک رہے ہوتے۔ کوٹ کا حال اس سے بھی بدتر۔ پہلے میزائل حملے کے بعد، اور غالباً یہ 2004ء کی بات ہے، ایک احتجاجی جلوس کے ساتھ وہ وزیرستان روانہ ہوا۔ قبائلی ایجنسی کے دروازے پر مظاہرین کو روک دیا گیا۔ میں نے دیکھا کہ کندھے سے اس کا کوٹ ادھڑا ہوا ہے۔ ''کوئی دوسرا پہن لیا ہوتا‘‘ میں نے کہا۔ ''باقی بھی تو ایسے ہی ہیں‘‘۔
کبھی کبھی اسے چڑانے کے لیے میں اپنے ڈرائیور منظور سے پوچھتا: تمہارا لباس اچھا ہے یا خان کا؟ بالآخر وہ کچھ نئے لباس سلوانے پر آمادہ ہو گیا۔ درزی کا کہنا تھا کہ کپتان کا سوٹ سینے میں دشواری ہوتی ہے۔ سینہ بہت فراخ ہے اور کمر بہت پتلی۔ دامن جھولنے لگتا ہے۔ عمران اسے تاکید کرتا رہا کہ وہ ذرا جی لگا کر کام کرے۔ درزی بیچارے نے وعدہ کیا مگر اس کے چہرے پر یہ لکھا تھا: ریاضت سے حاصل کیا، تمہارا جسم اس طرح کے کرتے شلوار کے لیے موزوں ہی نہیں۔ بر سبیلِ تذکرہ، اقبالؔ گھر میں تہبند اور تقریبات کے لیے کرتا شلوار پہنا کرتے۔ اس کے ڈیزائن پر مگر ہمیشہ انہیں اعتراض رہا۔ ایک بار چڑ کر کہا: کوئی اسے بہتر بنانے کی کوشش کیوں نہیں کرتا؟ شلوار اصلاً ایرانی لباس ہے، جو تین ہزار برس سے مستعمل ہے۔ رسولِ اکرمؐ کی خدمت میں پیش کی گئی تو آپؐ نے پسند فرمائی۔ کچھ دیر پہنی بھی۔ ایران کی فتح کے بعد مدینہ کے بعض مکین اپنے ساتھ لائے تو یہ عمر فاروقِ اعظمؓ کا عہد تھا۔ آپؓ نے اس کی حوصلہ شکنی کی کہ عربوں کو اپنے لباس سے دستبردار نہ ہونا چاہیے۔ لمبا کرتا اور تہبند۔ سرکارؐ یہی پہنا کرتے... اور پگڑی۔ کرتا اور تہبند اکثر سفید رنگ کا ہوتا۔ اسے پاکیزہ رنگ قرار دیا۔
ازل سے آدمی تنوّع کا قتیل ہے۔ دو سو سال بعد ہارون الرشید کے عہد تک تہبند سے عرب اکتا چکے تھے۔ پاجامہ پہننے لگے۔ سر پہ عمامہ مگر اس کا رنگ شوخ نہ ہوتا۔ ہارون کے پاس چار ہزار عمامے تھے۔ پائوں میں البتہ عربوں کی مخصوص چپل پہنتا، پائوں کا بیشتر حصہ جس میں کھلا رہتا ہے۔ تخت پر براجمان، کبھی وہ اپنے پائوں قدرے نمایاں کر دیتا کہ اس کی عرب شخصیت آشکار ہو۔
پرویز رشید کی ذہنی حالت اچھی نہیں کہ اب وہ حریف کی چپل کے بارے میں بات کرنے لگے۔ عمران خان کے مکان کے بارے میں بھی نون لیگ کے لیڈر سفید جھوٹ بولتے ہیں۔ 280 کنال زمین ہے، جو ایک لاکھ بیس ہزار روپے فی کنال کے حساب سے خریدی گئی۔ مکان زیادہ سے زیادہ اڑھائی کروڑ روپے میں بنا۔ فرش کی ٹائلیں 100 روپے مربع فٹ کے حساب سے خریدی گئیں۔ دروازوں کی لکڑی ناقص ہے۔ پہلی ہی برسات کے بعد بعض دروازے متاثر ہوئے تھے۔
عمران خان کے برعکس میاں محمد نواز شریف کروڑوں روپے کی گھڑی پہنتے ہیں۔ کپتان کے پاس زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو درجن سوٹ ہوں گے، وزیرِ اعظم کے پاس کم از کم اڑھائی تین سو۔ ایک سے ایک زیادہ قیمتی اور کیوں نہ ہو، ڈالروں میں وہ ارب پتی ہیں۔
میری پشاوری چپل اس قدر آرام دہ تھی کہ نیو یارک جانا ہوا تو پندرہ دن وہی پہنے رکھی۔ وہاں سے حجاز کا قصد تھا، جہاں ایک دن مسجدالحرام کے باہر سے وہ چرا لی گئی۔ واپسی پر لاہور کے ایک مسخرے نے مجھ سے کہا: خانہ کعبہ کے قریب سے تمہاری چپل چرا لی گئی، اس کے باوجود تم اسے مقدس مقام سمجھتے ہو۔ مسخرہ تو میں نے کہا، ویسے یہ دانشور ہیں، بہت بڑے، بہت ہی مشہور دانشور!
عمران خان اب دوسرے لیڈروں ایسے ایک لیڈر بن چکے۔ ان کی پارٹی اب دوسری پارٹیوں ایسی ہے۔ جماعت کی بجائے ایک انبوہ۔ انسانی اہرام کی چوٹی پر، الّا ماشاء اللہ، خوشامدیوں کا ایک چرب زبان ٹولہ۔ تین باتیں البتہ یقین سے کہی جا سکتی ہیں۔ اوّل یہ کہ وہ بدعنوان ہرگز نہیں۔ ثانیاً مسرفانہ طرزِ زندگی کا عادی نہیں۔ ٹیکس چور بھی ہرگز نہیں۔ ثالثاً تحریکِ انصاف کے کارکنوں کی بڑی تعداد مخلص ہے۔ آخری تجزیے میں کپتان ایک سادہ سا آدمی ہے، نمودِ ذات کی بے قابو تمنا اور غلبے کی وہی قدیم جبلّت۔ عوامی مقبولیت نے جسے غیر معمولی تحرّک عطا کر دیا ہے۔ پرویزرشید اور ان کے آقائوں کی پریشانی کا سبب یہی تحرّک ہے۔ دوسروں سے نہیں، آدمی اپنے تضادات سے خوفزدہ ہوا کرتا ہے... اور تضادات ان کے بہت ہیں۔
اقتدار کی یہ جنگ ہماری جنگ نہیں۔ وحشت اور حرص و ہوس کے مارے ہوئے لیڈر اور ان کے خوشہ چیں۔ قوم کو وہ سب فریب دیتے ہیں۔ ہمیں ان سے کیا واسطہ؟