تحریر : اکمل علیمی تاریخ اشاعت     29-11-2014

وہ اب بیمار ماں کی شکل دیکھ سکے گا

صدر اوباما نے غیر قانونی غیر ملکیوں کے اخراج (deport) کو روکنے کے لئے ایک ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا اور یوں واشنگٹن میں ایک آئینی بحران کی بنیاد رکھ دی ہے ۔امریکی صدر کو نوے دن کے لئے ایسا آرڈر صادر کرنے کا آئینی اختیار ہے‘ جس سے پہلے کانگرس کو‘ جس کے دونوں ایوانوں پر اب ریپبلکن قابض ہیں‘ تارکین وطن کے بارے میں کوئی قانون منظور کرنا ہوگا ۔ صدر نے ایک سال پہلے یہ ارادہ ظاہر کیا تھا کہ جن غیر ملکیوں کے بچے اس ملک میں پیدا ہوئے‘ انہیں دیس نکالانہیں دیا جائے گا ۔ریپبلکن‘ جنہیں سینیٹ میں اکثریت حا صل نہیں تھی اور ان کے دوسرے تحفظات بھی ہیں‘ ایسے قانون کی تائید کرنے میں لیت و لعل کرتے رہے۔ صدر‘ جنہیں اب ووٹ حاصل نہیں کرنے ہیں‘ منصب کی دوسری مدت کے نصف ثانی کو قریب پاکر ایک بار پھر اس ارادے کا اعادہ کر رہے تھے ۔ہر چند کہ امریکہ میں غیر قانونی تارکین وطن کے تخمینے ایک کروڑ دس لاکھ تک جاتے ہیں‘ امریکہ نے صرف پچاس لاکھ کو قانون کا تحفظ دینے کا فیصلہ کیا ہے مگر ریپبلکن اس اقدام کو مقننہ کے اختیارات میں مداخلت سے تعبیر کر رہے ہیں اور ملک کی جنوبی سرحدوں کو‘ جہاں سے بیشتر اقتصادی پناہ گزین داخل ہوتے ہیں‘ مضبوط تر کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔اگرچہ غیر قانونی غیر ملکیوں میں پاکستانیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں مگر ہفتہ وار اردو پریس صدر کے اقدام کی تعریف کر رہا ہے ۔آخر امریکہ پناہ گزینوں کا ملک ہے ۔ 
اس سے پہلے 1986ء میں غیر قانونی تارکین کو عام معافی دی گئی تھی۔ یہ ریپبلکن صدر رونالڈ ریگن کا دور تھا اور تارکین کی تعداد کے اندازے صرف تیس لاکھ تھے ۔ اس وقت کسی ڈیموکریٹ نے مقبول عام صدر کے اقدام پر نکتہ چینی نہیں کی تھی اور بعد ازاں بیشتر نے ایک قانون کی منظوری میں ریپبلکن پارٹی کا ساتھ دیا تھا ۔نائن الیون برپا ہونے میں کئی سال باقی تھے اور اس وقت بہت سے پاکستانیوں نے نئے قانون سے استفادہ کیا تھا ۔صدر کے اقدام سے جو معدودے چند پاکستانی فائدہ اٹھائیں گے ان میں سے ایک لاہور کے ایک کالعدم انگریزی اخبار کے معاون مدیر کا بیٹا بھی ہے جس نے کوئی دس سال سے بیمار ماں کی شکل نہیں دیکھی اور جو خود تین بچوں کا باپ بن چکا ہے ۔اس کے بچے امریکہ میں پیدا ہونے کے بل پر امریکی شہری ہیں۔ انہوں نے امریکہ کے سوا کوئی کلچر نہیں دیکھا ۔امید کرنی چاہیے کہ اب اسے ڈیپورٹ نہیں کیا جا سکے گا اور وہ اس خوف کے سائے سے نکل آئے گا جو غیر قانونی غیر ملکی ہونے کی بنا پر اس کے شب وروز پر محیط تھا اور وہ واپسی میں مشکلات کے ڈر سے آبائی وطن نہیں جاتا تھا ۔ یاد پڑتا ہے کہ اس کے والد ایک بار امریکہ میںاس سے ملے تھے ۔انہوں نے غالباً ذاتی وقار کی خاطر دوستوں سے بیٹے کی حا لت زار کا کبھی ذکر نہیں کیا جو آرکنساس کے دیہی علاقے میں کسی پٹرول پمپ پر کام کرتا ہے ۔
جب مسٹر اوباما پندرہ منٹ کے نشریے میں نئی امیگریشن پالیسی کا اعلان کر رہے تھے تو وائٹ ہاؤس کے باہر ایسے لوگوں کا ہجوم تھا جو بالآخر راحت ملنے پر خوشیوں کا اظہار کر رہے تھے مگر ان کا تعلق براعظم جنوبی امریکہ کے ان ملکوں کے ساتھ تھا جہاں روزگار محدود ہیں۔ آدھے سے زیادہ تو میکسیکو سے داخل ہوئے جہاں امن و امان کی صورت حال مخدوش اور روزگار کے مواقع کم ہیں اور جس کی سرحدیں تین امریکی ریاستوں اری زونا‘ ٹیکسس اور کیلی فورنیا سے ملتی ہیں اور امیگرینٹ‘ خواہ وہ قانونی ہوں یا غیر قانونی‘ اس ملک کی سب سے بڑی اقلیت بن گئے ہیں۔ اس لئے یہ ایک سیاسی مسئلہ بھی ہے ۔ باقی ال سلواڈور‘ ہنڈوراز‘ پیرا گوئے‘ یورا گوئے‘ کولمبیا اور لاطینی امریکہ کے دوسرے ترقی پزیر ملکوں سے آئے ہیں اور ہسپانوی زبان بولتے ہیں۔انسان ازل سے مذہبی اور اقتصادی ضرورتوں کے تحت ہجرت کرتا آیا ہے۔ امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور اس کی پالیسیوں پر نکتہ چینی سے قطع نظر آج بہت سے لوگ کسب معاش کے لئے اس ملک کا سفر اختیار کرنے کے لئے بیتاب رہتے ہیں ۔ پاکستان سے بھی ہزاروں نوجوان سٹوڈنٹ یا وزیٹر ویزا پرامریکہ آئے‘ شادیاں کیں‘ ملازمتیں کیں یا اپنے کاروبا ر قائم کئے اور پھر یہیں کے ہو رہے ۔
اوباما غیر ملکی طلبا کے لئے STEM منصوبے کو بھی توسیع دے رہے ہیں ۔اگر وہ یہاں اپنا کاروبار شروع کرنے کے لئے قرض لے سکیں تو ان کے لئے سرمایہ کاری کے زیادہ مواقع ہوں گے مگر صدرH1-Bویزا پروگرام کو جوں کا توں رکھیں گے جو ایک طاقت ور لابی ٹیکنالوجی سیکٹر کے لئے بڑا صدمہ ہے۔ پاکستان اور بھارت کے بہت سے ہونہار نوجوان اس پروگرام سے استفادہ کرنے کے لئے امریکہ آتے ہیں اور آخر کار اپنے معاشروں کے لئے برین ڈرین کا سبب بنتے ہیں۔ تین سال پہلے اس پروگرام کا اعلان کرتے ہوئے صدر نے کہا تھا کہ جن لوگوں نے یہاں تعلیمی اور تربیتی ڈگریاں حاصل کی ہیں‘ انہیں گھر جانے کے لئے مجبور کرنا امریکہ کے مفاد میں نہیں ہو گا۔اگر ایسے لوگ کسی ایسے فرد سے بیاہے ہوئے ہیں جس کے پاس H1-B ویزا ہو گا تو انہیں آ سانی سے ورک پرمٹ ملے گا اور وہ ملازمتوں کی تبدیلی کر سکیں گے۔ 
نئی پالیسی سے‘ جسے کئی ریپبلکن غیر قانونی طریقے سے انتظامیہ کی قانون سازی سے تعبیر کرتے ہیں‘ تارکین وطن کے دو گروپ‘ جن کی لکھت پڑھت نہیں ہوئی یعنی وہ Undocumentedہیں زیادہ فائدہ اٹھا سکیں گے۔ وہ امیگرینٹ اس ملک میں رہ سکیں گے جو کم از کم پانچ سال سے یہاں مقیم ہیں اور ان کی اولاد امریکی شہری یا لیگل ریذیڈنٹ ہے۔ ایک تھنک ٹینک کے اندازے کے مطابق اس گروہ کی تعداد 37لاکھ ہے۔ امیدواروں کو پس منظر کی جانچ پڑتال اور ایک فیس کا سا منا ہو گا اور انہیں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ ان کا بچہ اوباما کی تقریر سے پہلے پیدا ہو ا تھا ۔دوسرا گروپ ان لوگوں کا ہے جنہیں ان کے والدین غیر قانونی طور پر امریکہ لائے اور اب تک اسی حالت میں رہ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو اقتصادی ترقی اور خوشحالی کے خواب دیکھنے والے کہا گیا۔ دونوں گروہ ریاستی ڈرائیونگ لائسنس کے علاوہ بالآخر بڑھاپے کی پنشن (سوشل سکیورٹی) حفظا ن صحت کے بیمے (میڈیکیئر) اور دوسرے وفاقی فوائد کے حقدار ہوں گے۔ اوباما بارہ لاکھ ایسے لوگوں کو 2012 ء میں اخراج سے مستثنیٰ کر چکے ہیں۔ نئی پالیسی کے مطابق اس زمرے میں ہر وہ فرد بھی آئے گا جسے 2009ء یا اس سے پہلے امریکہ لایا گیا‘ قطع نظر اس با ت کے کہ اس کی عمر کیا تھی ؟ اندازے کہتے ہیں کہ توسیع اس زمرے میں تین لاکھ افراد کا اضافہ کر دے گی ۔اس آرڈیننس کی بھنک پاکر سال کے شروع میں ہزاروں بچے‘ جن کے والدین چھوٹے موٹے کاموں کے لئے امریکہ میں تھے‘ اس ملک کی جنوبی سرحدوں پر دستک دے رہے تھے اور وہ انسانی سمگلروں کی امداد سے پیدل‘ بس‘ ریل اور پانی کے طویل سفر کر کے یہاں تک پہنچے تھے ۔
باسٹھ لاکھ اب بھی نکالے جانے کے قابل ہیں کیونکہ ان میں سے بیشتر کے ہاں کوئی بچہ نہیں۔ یہ اقدام ''خواب دیکھنے‘‘ والوں کے والدین پر بھی محیط ہے ۔اسی طرح کھیت مزدوروں کے لئے‘ جو کیلی فورنیا اور فلوریڈا کاترشاوہ پھل توڑتے ہیں‘ کوئی نیا پروگرام نہیں‘ جو لیبر انجمنوں کے لئے بڑا دھچکا ہے۔ سیزن شروع ہو نے پر یہ لوگ وسطی امریکہ یا میکسیکو سے شمال کا رخ کرتے ہیں اور کام کاج ختم ہونے پر واپس چلے جاتے ہیں ۔حکومت ہر سال کم و بیش چار لاکھ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ افراد کو دیس نکالا دے رہی ہے ''لیکن میں بچوں کو ان کی ماؤں کے سینے الگ نہیں کر سکتا‘‘۔ صدر تو کانگرس کے ارکان سے کہہ رہے ہیں کہ ''میں آپ کی کار دھوئوں گا اور آپ کا باتھ روم صاف کروں گا‘‘۔ اگر میرا ایگزیکٹو آرڈر پسند نہیں تو اپنا قانون پاس کر دیجئے‘ میں اسے واپس لے لوں گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved