جب بھی کسی سیاست دان کا کوئی نامناسب بیان سامنے آتا ہے تو اُس کا پہلا دفاعی حصار یہ ہوتا ہے کہ اُس کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔ جب بی بی سی کے ایک نمائندے سے بات کرتے ہوئے سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان کو اُن دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کی ضرورت نہیں جو افغانستان میں سرگرمِ عمل ہیں اور وہ پاکستان کو اپنا ہدف نہیں بناتے تو اُنہیں اپنے بیان کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے بھی اسی ڈھال کا سہارا لینا پڑا۔ دراصل کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے بعض ادارے بھی ''اچھے طالبان‘‘ اور ''برے طالبان‘‘ کے درمیان تمیزکرتے تھے، لیکن اس وقت جبکہ پاکستان کی مسلح افواج قبائلی علاقوں میں انتہا پسندوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں، وزیراعظم کے مشیر برائے خارجہ امور کے اس بیان نے سنگین نوعیت کی ہلچل مچا دی۔ ان کے وضاحتی الفاظ کہ ا ن کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، کسی کو متاثر نہ کرسکے کیونکہ ان کا بی بی سی پر انٹرویو نہ صرف بہت سے افراد سن چکے تھے بلکہ مقامی چینلز نے بھی اُسے متعدد مرتبہ دہرایا۔
اس معاملے میں مزید پریشان کن بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی مختصر کابینہ میں سرتاج عزیزایک ایسے شخص ہیں جن کا دامن نسبتاً صاف ہے، لیکن ان کے غیر محتاط الفاظ ہمارے دفترِ خارجہ سے سرزد ہونے والی واحد بے احتیاطی نہ تھے۔ تقریباً ایک ہفتہ پہلے خبر آئی کہ ایف بی آئی ، رابن رافیل سے پاکستان کو خفیہ معلومات کی فراہمی کی بابت تحقیقات کررہی ہے۔ رپورٹس کے مطابق یہ تحقیقات ایک گفتگو کے پکڑے جانے سے شروع ہوئی جس میں ایک پاکستانی افسریہ کہتے سنا گیا کہ وہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں روابط کی وجہ سے بہت سی خفیہ امریکی دستاویزات سے آشنا ہے۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سفارت کار زمینی حقائق سے کس قدر بے خبر ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے ، جیسا کہ سنوڈن کے افشائے راز کے بعد ہر کسی کو علم ہو گیاتھا کہ امریکی نیشنل سکیورٹی دنیا بھر سے ای میلز اور ٹیلی فون کالزکو ریکارڈ کررہی ہے ؟ کسی افسر کی طرف سے ایسی حساس معلومات کا ٹیلی فون پر تبادلہ مجرمانہ غفلت سے کم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس وقت جبکہ واشنگٹن میں ہمارے دوستوں کی تعداد کم ہوتی جارہی تھی، مسز رافیل جیسے اہم سہارے کو کھو دینا ایک بڑا نقصان ہے۔ یقیناً بہت سے لوگ اس راز سے واقف نہیں ہوں گے ، اس لیے ہماری سکیورٹی ایجنسیاں بہت آسانی سے اُس افسر تک پہنچ سکتی ہیں جس کی وجہ سے مسز رافیل زیرِ عتاب آئیں۔
یہ دونوں واقعات ظاہر کرتے ہیں کہ حکومت میں ایک خلا موجود ہے۔ اٹھارہ ماہ گزر گئے ہیں لیکن ابھی تک وزارتِ خارجہ کسی وزیر کے بغیر کام چلا رہی ہے۔ اگرچہ خارجہ امور میں وزیرِ اعظم کی معاونت کرنے کے لیے سرتاج عزیز بطور مشیر اور طارق فاطمی بطور معاونِ خصوصی کام کررہے ہیں لیکن کچھ خبریں گردش میں ہیں(گو ان کی تصدیق ہونا باقی ہے) کہ ان دونوں میں رقابت پر مبنی تنائو پایا جاتا ہے۔ اس سے ایک بار پھر اسلام آباد میں چھائی ہو ئی غیر فعالیت کی فضا کی نشاندہی ہوتی ہے۔ یہ بات افسوس ناک ہے کہ اکثریتی ووٹوںسے منتخب ہونے والی ایک حکومت‘ تشکیل پانے کے ایک سال سے زائد عرصہ بعد بھی‘ غیر فعال ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اسے عمران خان کی پی ٹی آئی اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے پیش کردہ نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا لیکن اسے یقینی طور پرکچھ ''ہنی مون پیریڈ‘‘ بھی دیا گیا تھا جب
میڈیا کے بڑے حلقے نئی حکومت کے حامی تھے اور اپوزیشن کی توپیں بھی خاموش تھیں، لیکن وہ وقت تساہل میں گزر گیا اور حکومت کی صفوں میں کوئی فعالیت اور تحریک دکھائی نہ دی۔ انتخابی کامیابی کے بعد امورِ ریاست چلانے کے لیے کوئی فعال ٹیم سامنے نہ آئی۔ درحقیقت اس مرتبہ نواز شریف، جو بہت فعال رہنما نہیں سمجھے جاتے‘ اپنی سابق دو مدتوںکے دوران دکھائی جانے والی کارکردگی کو بھی نہیں دہر اسکے۔ گویا وہ اپنے ہی معیار پر پورا اترنے میں ناکام رہے۔
جب نواز شریف وزیر ِ اعظم منتخب ہوئے تو عمومی طور پر یہ امید باندھی گئی کہ چونکہ وہ بزنس مین ہیں، اس لیے وہ معقول حد تک ایک اچھے منتظم ثابت ہوںگے ؛ تاہم یہ ایک خواب ثابت ہوا۔ ہم بھول گئے کہ ان کی کاروباری کامیابی یا تو اُنہیں وراثت میں ملی تھی یا پھر بعد میں سیاسی حیثیت سے فائدہ اٹھایا گیا ہوگا۔ اس طرح کسی بھی موقع پر ان کی قوت ِ فیصلہ کی پرکھ نہیں ہوپائی تھی۔ اس مرتبہ جب ا س کی نوبت آئی تو قوم کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ دومرتبہ منصب سے ہٹائے جانے اور مشرف دور میں جلاوطنی پر مجبور ہونے کے بعد اب وہ ضرورت سے زیادہ
محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ یہی صورت ِحال ان کے قریبی ساتھیوں‘ جن میں ان کے برادر ِخورد شہبا ز شریف بھی شامل ہیں، کی ہے۔ ان کی جماعت کے اراکین ِ اسمبلی، حتیٰ کہ بہت سے وزرا کی بھی ان تک رسائی نہیں ۔ ا ن کے پاس اختیارات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
جب اس سال کے شروع میں پاکستان عوامی تحریک اور پی ٹی آئی نے احتجاجی تحریک شروع کی تو حکمرانوں کے ہاتھ پائوں پھول گئے تھے۔ اُنہیں گمان بلکہ یقین ہونے لگا کہ یہ کچھ مخصوص حلقوں کی طرف سے شروع کی گئی تحریک ہے اور اس کا مقصد امن وامان کی صورت ِحال پیدا کرتے ہوئے ملک کو عدم استحکام سے دوچارکرکے اُن کی حکومت کا تختہ الٹنا ہے۔ ممکن ہے سازش کی یہ تمام تھیوریاں یکسر غلط نہ ہوں۔ اگر اس میں کچھ حقیقت ہے تو ممکن ہے حکومت کوگرانا نہیں بلکہ کمزور کیا جانا مقصود ہو؛ تاہم ایک مرتبہ پھر یہ ذمہ داری وزیراعظم نواز شریف پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اہلیت ثابت کرتے ہوئے اپنے عہدے کو تقویت دیں۔ اگر وہ خوف میں مبتلا رہ کر کسی طور اپنی مدت پوری کرنے کی کوشش میں رہے تو وہ ماضی کے ایک ایسے حکمران ثابت ہوں گے جو پورے پانچ سال تک اپنا بچائو کرنے کی کوشش میں لگے رہے، لیکن انتخابی نتیجے نے بتا دیا کہ سیاست میں محض بچائو کرنا ہی کافی نہیں ہوتا۔