تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     29-11-2014

پیڑ پرندے‘پھول‘ پھل اوریادداشت

جاڑا آ گیا ہے۔ آپ اگر اس کا استقبال نہ بھی کریں تو یہ بن بلائے مہمان کی طرح خود ہی آ دھمکتا ہے ۔ پہلے میں صبح صبح شبنمی گھاس پر ننگے پائوں واک کیا کرتا تھالیکن اب میں سات ساڑھے سات بجے کمرے سے نکلتا ہوں۔ کافی دیر تازہ ہوا کے مزے لیتاہوں۔ اس سے یاد آیا کہ ہوا کھانا‘ بھی کسی نے بالکل درست محاورہ بنایا تھا۔ دھوپ نکلتی ہے تو ٹیرس اور راہداری کے چکر لگا کر واک کا کوٹہ پورا کرتا ہوں۔ آج ناشتہ بھی باہر ہی بیٹھ کر کیا ہے۔ ڈیڑھ انڈے کا آملیٹ یعنی ایک انڈا پورا اور ایک کی سفیدی۔ جوس آفتاب نے بند کر دیا ہے کہ اس سے آپ کو کھانسی آتی ہے حالانکہ اس عمر میں کھانسنا تو میرا حق ہے!
گلاب کے پھول بجائے خود ایک عجوبہ چیز ہیں۔ ان کے رنگ یعنی شیڈ ہی گنتی میں نہیں آتے۔ سرخ‘ سفید‘ سبز اور زرد تو ہیں ہی ‘ پھر آگے ان کے لاتعداد شیڈ ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی پتیوں والے بھی جن پر آڑی ترچھی لکیریں ہوتی ہیں؛ پھر ان کی مختلف قسمیں ہیں۔ کبھی مکمل طور پر مرجھا جاتے ہیں‘ پتوں سمیت اور کچھ پودے ایسے ہیں جن پر برابر پھول آتے رہتے ہیں۔ پھول کھلنے کے بعد آٹھ دن تک اپنی بہار خوب دکھاتا ہے۔ اس کے بعد مرجھانا اور بکھرنا شروع ہوتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ یہ سارے رنگ اس خاک سے ہی نکلے ہیں جس کا اپنا کوئی رنگ ہی نہیں۔ زیادہ سے زیادہ خاکی یا بھورا کہہ لیجیے۔ کبھی یہ شعرکہا تھا ؎
میں خوابِ سبز تھا دونوں کے درمیاں میں، ظفر 
کہ آسماں تھا سنہرا‘ زمین بھوری تھی
پھر پرندوں کی اپنے انواع و اقسام ہیں۔ آج ایک پرندہ نظر آیا جس کا سارا پیکر گہرے نسواری رنگ کا تھا۔ سینے پر ایک بڑا سفید دھبہ اور دم سمیت ‘ پیر فیروزی رنگ کے تھے۔ موسم بدلا ہے تو پرندوں کی تعداد اور شور شرابا بھی کم ہو گیا ہے۔ تلیئروں کا ایک آدھ پرّہ کبھی سر سے گزر جاتا تھا لیکن اب وہ بھی نہیں۔ ان کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک پورا سیاہ اور ایک گہرے نسواری اور بسکٹی رنگ کا۔
پھولوں کے ساتھ ساتھ کچنار اور پھلدار درخت اور بیلیں بھی ہیں مثلاً انگور‘ انار‘ جامن‘ شہتوت ‘ چیکو ‘ انجیر اور ترشاوہ پھلوں کے پودے جن میں مالٹا‘ موسمی اور کنوں قابل ذکر ہیں۔ کئی پودوں پر زیادہ پھل آیا ہے اور کچھ پر کم۔ کنوں کی ایک ہی شاخ پر 19کنوں تھے۔ حیرت ہوئی کہ اس اکیلی شاخ نے یہ سارا بوجھ کیونکر اٹھا رکھا ہے۔ اسی پیڑ پر ایک عجیب بات اور بھی دیکھی کہ جہاں تمام تر پھل پک کر تقریباً تیار ہو چکے تھے اور ان کا رنگ بھی پورا تبدیل ہو چکا تھا‘ ایک شاخ ایسی تھی جس پر گہرے سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے کنوں لگے ہوئے تھے اور جس کا مطلب یہ ہے کہ اس شاخ پر پھول ہی بعد میں آئے اور پھلوں کی شکل اختیار کی۔ اگرچہ یہ پودے نمائشی نہیں ہیں۔ تاہم فیصلہ یہی کیا ہے کہ یہ شاخوں پر ویسے بھی بہت خوبصورت لگتے ہیں‘ انہیں توڑا نہ جائے۔
ان میں ایک پودا ایسا بھی ہے جس پر غیر معمولی طور پر زیادہ پھل آیا ہوا ہے لیکن پھل کا سائز کنوں سے چھوٹا ہے۔ آفتاب نے بتایا کہ یہ نارنگی ہے اس پر بھگت کبیر کا یہ شعر یاد آیا ؎
رنگی کو نارنگی کہیں‘ دودھ کا بنے کھویا
چلتی کو یہ گاڑی کہیں‘ دیکھ کبیرا رویا
میں چونکہ ماہر نباتات نہیں ہوں اس لیے یہ سب کچھ دیکھ کر حیران ہی ہوتا رہتا ہوں کہ ماہر نباتات لوگوں کی تو بات ہی اور ہے ۔ منقول ہے کہ ایک بار ہمارے ایک وزیر زراعت کسی ملک میں لیکچر دینے کے لیے گئے۔ لیکچر کے بعد انہیں پھلدار پودوں کے ایک باغ میں لے جایا گیا جہاں انہوں نے ایک پودے کو دیکھ کر کہا۔ ''اگر سیب کے اس درخت کو آپ صحیح طور پر ٹریٹ کریں تو یہ دگنا پھل دے سکتا ہے‘‘ جس پر انہیں بتایا گیا کہ وہ سیب کا نہیں ناشپاتی کا درخت ہے! اسی طرح ہمارے ایک وزیر حیوانات کسی ملک میں دورے پر گئے جہاں انہوں نے ایک چراگاہ میں ایک بڑا سا ریوڑ چرتے دیکھا، جسے دیکھ کر وہ رک گئے اور چرواہے کو ان کی پرورش کے بارے میں متعدد مفید مشورے بھی دیے۔ چرواہا ان کی باتیں سن کر مرعوب بھی ہوا اور مشکور بھی اور اظہار تشکر کے طور پر کہا کہ ان میں سے جو بکرا آپ کو پسند ہو‘ وہ ہماری طرف سے تحفتاً ساتھ لے جائیں۔ چنانچہ انہوں نے ایک بکرا پسند کر کے اپنی گاڑی میں رکھوا لیا۔ جب انہوں نے چرواہے سے واپسی کی اجازت چاہی تو چرواہا بولا: ''آپ کے آنے کی بہت خوشی ہوئی لیکن جانے سے پہلے میرا کتا اپنی گاڑی سے نکال کر دیتے جائیں!‘‘
شکار کا یہاں پر کوئی چانس نہیں ہے۔ تلیئروں کا ذکر پہلے آ چکا ہے۔ کبھی کبھار کبوتر بھی نظر آجاتے ہیں لیکن گھر کے علاوہ چونکہ کوئی عمارت قریب نہیں ہے‘ اس لیے ان کے بیٹھنے کی جگہ ہی نہیں ہے جبکہ اپنی چھت کھپریل کی ہے جس پر کبوتر ویسے ہی نہیں بیٹھ سکتے۔چنانچہ آفتاب اپنا شکار کا شوق حجرہ شاہ مقیم وغیرہ میں اپنے دوستوں کے پاس جا کر پورا کر لیتا ہے جس میں تیتر اور بٹیر شامل ہوتے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ اسے آتشیں ہتھیار جمع کرنے کا شوق بھی جنون کی حد تک ہے چنانچہ کلاشنکوف سے لے کر انواع و اقسام کے پستول اور نہایت عمدہ اور جدید شاٹ گنیں بھی اس نے اکٹھی کر رکھی ہیں، حتیٰ کہ خوفناک قسم کے خنجر بھی۔
جب ہم اوکاڑہ میں ہوا کرتے تھے تو میں بھی شکار کا اپنا شوق گاہے بگاہے پورا کر لیا کرتا تھا۔ ایئر گن سے فاختہ ‘ کبوتر ‘ تلیئر اور ہریل تک کا شکار کیا اور شاٹ گن سے تیتر ‘ بٹیر ‘ مرغابی اور بھٹیڑ کا بھی۔ اس کے علاوہ ہم نے وہاں پر ایک شکاری بھی رکھ رکھا تھا جو تیتر بٹیر وغیرہ شکار کر کے لایا کرتا۔ اس کے پاس تیتروں کے بچے بھی ہوا کرتے تھے جس وجہ سے اس کا نام بابا بچوں والا پڑ گیا میرا منجھلا بیٹا اویس جو چھ سات سال کی عمر تک باقاعدہ توتلا ہوا کرتا تھا، اسے بابا بتوں والا کہا کرتا۔ مجھے اس زمانے کی اکثر باتیں اب تک یاد ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ مجھے زیادہ تر اسی کی باتیں یاد ہیں۔ میں اس زمانے کی ان سب کی باتیں اپنے چھوٹے بیٹے جنید سے بڑے شوق سے سنا کرتا ہوں کیونکہ میری یادداشت تیزی سے ساتھ چھوڑتی جا رہی ہے۔ لکھتے لکھتے بعض اوقات کسی لفظ کے معنی تو پورے کے پورے ذہن میں ہوتے ہیں لیکن وہ لفظ کچھ دیر کے بعد یاد آتا ہے۔ ناموں کے سلسلے میں اکثر ایسا ہوتا ہے اسی سلسلے کے کچھ اشعار: 
میں چلتے چلتے اپنے گھر کا رستہ بھول جاتا ہوں
جب اس کو یاد کرتا ہوں تو کتنا بھول جاتا ہوں
کہاں تک جائیں گے دونوں‘ کہاں سے واپسی ہو گی
وہ کیا کچھ یاد رکھتا ہے ‘ میں کیا کیا بھول جاتا ہوں
مقرر کر بھی دوںکوئی جو مجھ کو یاد دلوائے
تو میں اس آدمی کو ساتھ رکھنا بھول جاتا ہوں
بھلا دیتا ہوں گر وہ روکتا ہے پاس آنے سے
دوبارہ روکتا ہے میں دوبارہ بھول جاتا ہوں
ظفر ضعفِ دماغ اب اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا
کہ جاتا ہوں وہاں اور واپس آنا بھول جاتا ہوں
اور ایک شعریہ بھی ؎ 
شہر میں کوئی اگر ہے مرا ہوتا سوتا
راستہ بھول گیا ہوں‘ مجھے گھر لے جائے
آج کا مقطع 
برباد ایک دن اِسے ہونا ہی تھا، ظفرؔ 
یہ شہر جو کہ اہلِ وفا کے بغیر تھا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved