تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     29-11-2014

’’بولتے رہو، مزا آرہا ہے!‘‘

19 نومبر کی صبح کراچی کے ایک مشہور تعلیمی ادارے کی انیلہ ندیم کے فون نے جگادیا۔ ہم معمول کے مطابق روزنامہ دُنیا میں نائٹ شفٹ کرکے صبح پانچ بجے سوئے تھے۔ دو سال پہلے کی طرح انیلہ ندیم نے ایک بار پھر ہمیں تقریری مقابلے میں گیسٹ آف آنر کے طور پر مدعو کیا۔ پہلے کی طرح پھر جاں بخشی چاہی کہ ہم کہاں اور یہ ''منصبِ جلیلہ‘‘ کہاں! بات یہ ہے کہ نوجوانوں کی محفل میں جاتے ہوئے اب دِل دُکھتا ہے۔ طلباء و طالبات کی نوجوانی کے مقابل اپنی no-jawani پر نظر پڑتی ہے تو کئی گزرے ہوئے زمانے دِل و دِماغ کی پیالی میں طوفان اُٹھانے لگتے ہیں! 
ہم نے انیلہ صاحبہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ گیسٹ آف آنر بننا بہت ذمہ داری کا کام ہے‘ اور اگر بولنا بھی پڑے تو مزید اُلجھن ہوتی ہے کیونکہ اہلیہ سامنے نہ ہوں تب بھی مجمع کو دیکھ کر ہماری آواز بیٹھ جاتی ہے! 
ذمہ داری کا ذکر ہم نے صفیر اللہ عرف لہری مرحوم کی مناسبت سے کیا۔ کئی سال پہلے ایک ملاقات میں لہری صاحب نے بتایا تھا کہ کبھی وہ بھی مضمون نگاری کیا کرتے تھے۔ ایک مضمون اُنہوں نے ہسپتال میں اپنے علاج کے حوالے سے لکھا تھا۔ لہری صاحب لکھتے ہیں کہ جب بھی نرس کمرے میں آتی تو وہ کہتے نرس! فلاں دوا لاؤ، نرس! انجیکشن لگاؤ، نرس! پانی لادو۔ تھوڑی ہی دیر میں نرس چڑ گئی اور کہنے لگی: ''آپ نرس نرس کیوں بُلا رہے ہیں، مجھے سِسٹر کیوں نہیں کہتے؟‘‘ اِس پر لہری صاحب نے کہا: ''ہم تمہیں سِسٹر نہیں کہہ سکتے۔‘‘ نرس نے سبب پوچھا تو لہری صاحب نے کہا: ''بھئی سمجھا کرو، یہ بہت ذمہ داری کا کام ہوتا ہے!‘‘ 
ہم نے بھی انیلہ صاحبہ کو یہی سمجھانے کی کوشش کی کہ ہمیں گیسٹ آف آنر نہ بناؤ، یہ بہت ذمہ داری کا کام ہوتا ہے مگر وہ نہ مانیں اور حکم دیا کہ کل صبح حاضر ہوں‘ اور ہمیں سرِ تسلیم خم کرتے ہی بنی۔ 
تقریری مقابلے میں خود کو انعام کا حقدار ثابت کرنے کے لیے طالبات ہی نہیں طلبا نے بھی ایڑی کے ساتھ ساتھ چوٹی کا زور بھی لگا دیا۔ نئی نسل کو روسٹرم پر زورِ خطابت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھ کر اپنا ''دورِ خطابت‘‘ یاد آجاتا ہے۔ اللہ بخشے، ہماری جوانی خطابت کے فن سے مُزیّن ہوتے ہوتے رہ گئی۔ جس زمانے میں ہمارے ساتھیوں کے دِل محبت کے جذبات اور سُریلی آوازیں سُن کر دھڑکا کرتے تھے، ہمارا دل تقریر کی دعوت ملتے ہی ریلوے انجن کی طرح دھک دھک کرنے لگتا تھا! جب کبھی اساتذہ نے بے حد اِصرار کے ساتھ ہمارا نام تقریری مقابلے کے شرکا کی فہرست میں شامل کیا، روسٹرم کی طرف جاتے ہوئے ہمیں اپنے پاؤں من من بھر کے یعنی بہت ہی بھاری محسوس ہوئے! بھرے مجمع کو مخاطب کرتے ہوئے ہمارے چَھکّے ایسے چُھوٹتے تھے کہ پھر اُنہیں پکڑنے پر خاصا وقت ضائع ہوتا تھا! ایک بار ہمیں تحریک دینے کی غرض سے کہا گیا کہ لڑکیاں عمدہ بولنے والے لڑکوں پر مرتی ہیں۔ ہم نے یہ کہتے ہوئے معذرت چاہی کہ بھائی! مری ہوئی لڑکیوں کا ہم کیا کریں گے! 
کالج کے زمانے میں ایک بار دوستوں نے بہت اِصرار کرکے ہمیں بین الکلیاتی تقریری مقابلے میں کھڑا کردیا۔ وہ (سامعین کے لیے بھی) قیامت کی گھڑی تھی۔ تب تک شادی نہیں ہوئی تھی اِس لیے تھوڑی بہت ہمت باقی تھی جس کی مدد سے ہم کسی نہ کسی طور روسٹرم تک پہنچ تو گئے مگر الفاظ کہیں پیچھے رہ گئے۔ الفاظ کو ہم تک پہنچنے میں چند لمحات لگے مگر اِتنی دیر میں تو لوگ بے صبرے ہوگئے اور شور مچانا شروع کردیا۔ ہم نے بولنا شروع کیا تو پورے جسم کا خون سمٹ کر سَر میں سماگیا اور پھر آنکھوں کے آگے اندھیرا چھاگیا۔ ہم گھبراگئے مگر دو تین سیکنڈز کے بعد اندازہ ہوا کہ بجلی چلی گئی ہے! بجلی کی فراہمی بحال ہونے میں دس سیکنڈ لگے۔ تب تک ہم ذہن بناتے رہے کہ کن کن جُملوں سے آڈینس کو متاثر کرنا ہے۔ دوسری طرف لوگ غالبؔ کے پُرزے اُڑتے ہوئے دیکھنے کو بے تاب تھے! 
جب ہم نے بولنا شروع کیا تو پورے ہال پر سنّاٹا سا چھاگیا۔ یہ دیکھ کر ہم میں کچھ ہمت پیدا ہوئی اور ہم نے ساری ''تیاری‘‘ ایک طرف ہٹاتے ہوئے ''فی البدیہہ‘‘ بولنا شروع کیا۔ مجمع کی خاموشی مزید گہری ہوگئی۔ اپنی ہی دُھن میں بولتے بولتے خیال آیا کہ ہر مُقرر کو زیادہ سے زیادہ تین منٹ بولنا ہے۔ تین منٹ گزر گئے مگر گھنٹی نہ بجی۔ ہم سمجھے شاید گھنٹی بجانے والا بھی ہمارے ''مسحور کُن‘‘ جُملوں کی تاب لانے سے قاصر ہے! مزید دو منٹ گزر گئے مگر گھنٹی نہ بجی۔ مجمع خاموش، مہمان خصوصی خاموش، منصفین خاموش۔ ہم حیران تھے کہ یہ سب کو ہوا کیا ہے۔ ساتواں منٹ ختم ہونے پر جب ہم نے متعلقین کو یاد دلایا کہ گھنٹی بجائیں تو صدرِ محفل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا۔ ''گھنٹی ونٹی بھول جاؤ۔ بولتے رہو، مزا آرہا ہے!‘‘ 
یہ سُننا تھا کہ پورا ہال قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ ہم ذہین تو تھے ہی، فوراً سمجھ گئے کہ ہمیں اُلّو بنایا جارہا ہے! ہمارے انٹ شنٹ جُملوں سے لوگ محظوظ ہو رہے تھے اور اپنی دُھن میں یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم سے خطاب سَرزد ہو رہا ہے! فلک شگاف قہقہوں سے ہم نے اندازہ لگایا کہ ہمارا خطاب دراصل کامیڈی کا ارتکاب تھا! ہم نے روسٹرم چھوڑا، اسٹیج سے اُترے اور منتظمین سے شکایت کی کہ یہ تو سَفّاکی ہے، کسی کے ''بھولپن‘‘ کا یُوں فائدہ نہیں اُٹھانا چاہیے! 
ہال سے کچھ ہوٹنگ نُما صدائیں بلند ہوئیں تو ہم نے ناراض ہوکر دوبارہ اسٹیج کی طرف قدم بڑھائے۔ ہمیں انتقام کے موڈ میں دیکھ کر حاضرین کو سانپ سُونگھ گیا! ہم نے اِتنے ہی پر اکتفا کیا اور وہاں سے چُپ چاپ نکل لیے۔ 
بولنے کا مرحلہ ہم پر ہمیشہ ہی گراں گزرا ہے۔ شادی سے بہت پہلے بھی ہم کم کم ہی بولا کرتے تھے! خاندان کے بُزرگوں سے سُنا ہے کہ ہم نے خاصی بڑی عمر میں بولنا سیکھا تھا۔ گویا دُنیا میں شادی شدہ آئے تھے! چند برس قبل جب ایک ٹی وی چینل سے وابستہ ہوئے تو مارننگ شو کے لیے ایکسپرٹ کی حیثیت سے بولنے کو کہا گیا۔ ہم نے معذرت چاہی مگر پروڈیوسر نہ مانے اور بولے کہ اچھا ہے، ناظرین صبح کی تازہ ہوا کے ساتھ تھوڑی سی کامیڈی کا بھی لطف پائیں! یہ سلسلہ دو تین ماہ چلا۔ پھر فریق ثانی نے معذرت کرلی۔ ہم نے سبب پوچھا تو بولے ناظرین کی طرف سے شکایت آئی ہے کہ آپ سوچ سوچ کر بولتے ہیں! ہم نے وضاحت کی کہ ہم انسان ہیں، کوئی اینکر نہیں! 
طلباء و طالبات اپنی تقریر کو موثر بنانے کے لیے اُن میں اشعار ٹُھونس دیتے ہیں۔ ایسی ہر تقریر پر کھچا کھچ بھری ہوئی منی بس کا گماں ہوتا ہے! چند ایک طلبا چاہتے ہیں کہ تین یا چار منٹ میں تیس چالیس منٹ کا مواد بول جائیں۔ ایسی تقریر سُن کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی بہت سا چارا لے کر باڑے میں آئے اور ہر بھینس یہ سمجھے کہ سارا چارا اُسی کو کھانا پڑا ہے! 
اگر طلبا تقریر کا فن سیکھنا چاہتے ہیں تو اپنے والد کو دیکھیں۔ وہ گھر میں کتنا بول پاتے ہیں؟ بس یہی مَردوں میں تقریر کا فن ہے! ''معذور سہی، مجبور نہیں‘‘ قسم کے موضوعات پر بولنے والے طلبا و طالبات ہیلن کیلر کا حوالہ ضرور دیتے ہیں جو پیدائشی طور پر قوتِ گویائی و سماعت اور بصارت سے محروم تھیں۔ ہماری ذاتی رائے یہ ہے کہ اسکول اور کالج کے زمانے میں تمام لڑکوں کو تقریری مقابلے میں ضرور حصہ لینا چاہیے۔ اُن کے پاس بولنے کے لیے یہی تین چار سال تو ہوتے ہیں۔ اِس کے بعد تو اُنہیں ہیلن کیلر کی طرح زندگی بسر کرنی ہوتی ہے! 
لڑکیوں کو تقریر کے فن پر کوئی کتاب نہیں پڑھنی چاہیے۔ یہ فن تو اُن میں built-in ہوتا ہے! اگر ہوسکے تو لڑکیاں کبھی کبھار
" Why and When not to Speak "ٹائپ کی کوئی کتاب پڑھ لیا کریں! 
مہمان خصوصی ڈاکٹر شکیل الرحمن فاروقی نے اپنے پُرمغز خطاب میں خطابت کے حوالے سے چند سنجیدہ مشورے دیے۔ خیر گزری کہ ہمیں اُن سے پہلے خیالات کے اظہار کا موقع عنایت کیا گیا۔ ہم چند ہلکے پھلکے جُملے حاضرین کی نذر کرنا چاہتے تھے مگر تقریری مقابلے کے شُرکا نے اچھی خاصی کامیڈی فرماکر ہمارا کام مشکل کردیا۔ پھر بھی ہمارے چند ہلکے پُھلکے جُملوں سے حاضرین کے ہونٹوں کو تھوڑی بہت مُسکراہٹ مل گئی۔ اگر ڈاکٹر شکیل الرحمن فاروقی پہلے خطاب کر جاتے تو سب سنجیدگی میں ڈوبے رہتے اور ہماری باتوں کا اُتنا ہی اثر ہوتا جتنا گھر میں ہوتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved