تحقیق اگر اس غرض سے کی جائے کہ نتائج سے انسانوں کو فائدہ ہو سکتا ہو تو ایسی تحقیق کی ہر کوئی قدر کرتا ہے۔ اس ضمن میں واضح مثال سائنسی تحقیق کی ہے۔ آج کے دور کا موازنہ محض چند عشرے پہلے سے کرکے دیکھ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ سائنسی میدان میں ہونے والی تحقیق نے ہماری روزمرہ زندگی کو کس قدر بدل دیا ہے۔ ہم لوگ سائنسی تحقیق کے میدان میں بہت پیچھے ہیں بلکہ سچی بات یہ ہے کہ اس میدان میں ہمارا وجود ہی نہیں ہے مگر فضول قسم کی بے مقصد تحقیق میں عمریں صرف کرنے والے البتہ ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں اور کافی تعداد میں پائے جاتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ برسوں پہلے ہمارے ایک رشتے دار کو یہ تحقیق کرنے کا شوق ہوا کہ ان کا خاندان کہاں کہاں سے نقل مکانی کرتا ہوا جنوبی ایشیا پہنچا تھا۔ موصوف کے پاس تھوڑی سی جائیداد تھی۔ اسے بیچ کر گزر بسر کرتے اور اپنی ریسرچ بھی کرتے رہے۔ ایک مرتبہ اسی سلسلے میں لندن میں واقع برٹش امپریل میوزیم تک چلے گئے تھے۔ تحقیق کے میدان میں تو کچھ ہاتھ نہ آیا لیکن دو وقت کی روٹی کے محتاج ہوگئے تھے۔ وہ تو قسمت اچھی تھی ان کے بڑے بیٹے کو اس دوران میں سرکاری نوکری مل گئی اور خاندان کی عزت بچ گئی وگرنہ پتا نہیں کس کس کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑتا۔
اسی طرح ہمارے ایک دوست سرائیکی زبان میں موجود ادب پر تحقیق کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ان کو سرائیکی زبان میں ڈرامے کی روایت کے ضمن میں ریڈیو پر ہونے والے ایک پروگرام میں مدعو کیاگیا تو فرمانے لگے کہ ہمیں سرائیکی زبان میں پہلا ڈرامہ '' رگ وید‘‘ میں ملتا ہے اور اس کے بعد ہم تاریخ کے مختلف ادوار سے گزر کر ریڈیو پاکستان ملتان آجاتے ہیں جہاں سرائیکی ڈرامے کی مضبوط روایت ملتی ہے۔
سرائیکی میری زبان نہیں ہے لیکن مجھے اس میٹھی اور انتہائی پراثر زبان سے بہت محبت ہے۔ 1975ء میں جب بہاولپور میں ریڈیو سٹیشن قائم ہورہا تھا تو مجھے ریڈیو پاکستان کی طرف سے ایک ٹیم کے ہمراہ وہاں اس غرض سے بھیجا گیا تھا کہ میں وہ پروگرام تیار کروں جو ابتدائی دنوں میں بہاولپور ریڈیو سے نشر ہوں ، وہاں فنکاروں کے آڈیشن کروں اور بہاولپور ریڈیو کے پروگراموں میں جو لوگ حصہ لینے کے لیے موزوں ہوں ان کی ایک فہرست مرتب کروں۔ میں ٹیم لے کر لاہور سے گیا تھا اور ایک دوسری ٹیم کراچی سے آئی تھی اور ہم سب دو ہفتے بہاولپور ، احمد پور شرقیہ ، اوچ شریف اور دیگرشہروں میں اس پراجیکٹ پر کام کرتے رہے تھے۔
اس دوران میں سرائیکی زبان کے جن لوک فنکاروں کو ہم نے ریکارڈ کیا، ان میں حسینہ ممتاز اور پارٹی ، حسین بخش خان ڈاہڈی جیسے فنکاروں کے نام مجھے اب بھی یاد ہیں۔ ہم نے ضاحی بہاولپوری کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ جہانباز جتوئی کی کافیاں ریکارڈ کیں۔ خواجہ فرید کا کلام تو تقریباً سب فنکار گاتے تھے۔ سرائیکی ایسی جادوئی زبان ہے کہ میں دعوے سے کہتا ہوں ،آپ ایسے ماحول میں ،جہاں ہر طرف سرائیکی بولی جاتی ہو‘ جاکر رہیں تو محسوس ہوگا کہ آپ کسی طلسماتی ماحول میں رہ رہے ہیں۔
سرائیکی زبان سے اتنی محبت کے باوجود مجھے اس سرائیکی محقق کی یہ بات ہضم نہ ہوسکی کہ سرائیکی زبان میں پہلا ڈرامہ '' رگ وید‘‘ میں موجود ہے۔ رگ وید ہندومت کی مقدس کتاب ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کس نوعیت کی ریسرچ موصوف نے کی ہوگی کہ اس کو سرائیکی ڈرامے سے جوڑ دیا۔پھر موصوف کی تحقیق کو رگ وید کے بعد صدیوں تک کوئی سرائیکی ڈرامہ کہیں نہیں ملا اور آکر بات ختم کی تو ریڈیو پاکستان ملتان پر جو محض نصف صدی کا قصہ ہے۔میری رائے میں سرائیکی‘ ڈرامے کی زبان نہیں ہے۔ جتنی عظیم شاعری اس زبان میں موجود ہے اس پر جتنی ریسرچ کی جائے وہ جائز بھی ہوگی اور فائدہ مند بھی اور امکان غالب ہے کہ ہو بھی رہی ہوگی۔
مجھے اس موضوع پر کالم لکھنے کا خیال ایک ای میل کی وجہ سے آیا، جو ایک علم دوست شخصیت راشد اشرف نے اردو تحقیق سے متعلق ڈاکٹر معین الدین عقیل کی ایک تصنیف کے حوالے سے بھجوائی ہے اور اس ای میل میں موصوف نے مشفق خواجہ مرحوم کی تحریروں سے سے دو اقتباسات درج کیے ہیں جو انتہائی دلچسپ ہیں۔ یہ دونوں اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش ہیں۔
'' یادش بخیر، مشفق خواجہ مرحوم نے ایک مرتبہ اسی تعلق سے لکھا تھا کہ : ایک صاحب نے اپنی عمر عزیز کے دس سال اس مسئلے کو حل کرنے میں صرف کردیے کہ میرؔ نے لکھنؤ سے دہلی کا سفر پا پیادہ طے کیا تھا یا گاڑی کے ذریعے ، لیکن وہ کسی نتیجے تک نہ پہنچ سکے۔ ہم نے ان سے کہا: میر خوامخواہ دہلی سے لکھنؤگئے ۔'' اپنا وقت بھی ضائع کیا اور آپ کا بھی‘‘ انہوں نے فرمایا: میر کا وقت ضائع ہوا ہوگا لیکن الحمدللہ میرا وقت ضائع نہیں ہوا، اس تمام عرصہ میں مجھے یونیورسٹی گرانٹس کمشن سے تحقیقاتی وظیفہ ملتا رہا۔
مشفق خواجہ اہل تحقیق سے گھبرایا کرتے تھے۔ ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں: ہم اہل تحقیق سے بہت ڈرتے ہیں کیوں ؟ ایک واقعہ سن لیجیے۔
ایک مرتبہ لکھنؤ کے مشہور محقق کاظم علی خان صاحب سے ہماری ملاقات ہوئی۔ ہم نے غلطی سے پوچھ لیا کہ آج کل آپ کس موضوع پر تحقیق کررہے ہیں انہوں نے بتایا کہ وہ میر تقی میر کے بیٹے میر کلو عرش کے سال وفات پر تحقیق کررہے ہیں۔ اس کے بعد وہ دو گھنٹے تک ہمیں اپنے نتائج تحقیق سے آگاہ فرماتے ر ہے۔ آخر میں انہوں نے ہم سے پوچھا۔ اس معاملے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ہم نے عرض کیا: '' آپ کی علمی گفتگو سے میر کلو عرش کا سال وفات ہی نہیں بلکہ ہمارا زمانہ وفات بھی متعین ہوگیا ہے‘‘
یہ تھے دو دلچسپ اقتباسات مشفق خواجہ مرحوم کی تحریروں سے‘ بشکریہ راشد اشرف صاحب! 1968ء میں جب ریڈیو پاکستان کراچی میں بطور پروڈیوسر فرائض انجام دے رہا تھا تو اپنے کچھ سینئر ساتھیوں کے ہمراہ مجھے مشفق خواجہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع بھی ملتا تھا۔ کیا باغ و بہار شخصیت تھی ان کی اور کس قدر تنگ تھے وہ ان وقت ضائع کرنے والے محققین سے۔ لیکن کیا کریں ہمارے ہاں آج بھی ایسی ہی تحقیق ہوتی ہے جبکہ سائنس کے میدان میں تحقیق نام کو نہیں۔ مجھے یاد ہے آئی ایچ عثمانی، جب اٹامک انرجی کمشن کے چیئرمین ہوتے تھے تو کراچی میں ایک تقریب میں ایک شخص‘ عثمانی صاحب سے کہنے لگا کہ ایٹمی انرجی کی باتیں تو ہمیں زیادہ سمجھ میں نہیں آتیں مگر ٹھیک ہی ہوں گی لیکن آپ سے کہتا ہوں کہ آپ کے سائنسدان ایسا کچھ نہیں کرسکتے کہ Ketch Upکی بوتل ایسی بنادیں کہ جتنی چٹنی کی ضرورت ہو اتنی آسانی سے نکل آئے یا پھر رکشوں کے میٹر ایسے بنادیں جو ٹھیک چلتے ہوں۔
قارئین کو یاد دلا دوں کہ ساٹھ کے عشرے میں واقعتاً رکشوں کے میٹر عذاب تھے اور رکشا مالکان ان میٹروں کو اپنی مرضی سے جتنا چاہیں تیز کرلیتے تھے اور پھر سواریوں سے جھگڑا ہوتا تھا۔ اب تو میٹر والے رکشے ماضی کا قصہ ہوگئے ہیں۔ Ketch Upکی بوتل بھی اس دور میں ایک عذاب ہوتی تھی۔ اکثر بوتل سے نکالتے وقت چٹنی کپڑوں پر گرجایا کرتی تھی۔
تو آئی ایچ عثمانی اس شخص کی گفتگو خاموشی سے سنتے رہے اور اس وقت تو کچھ نہ کہا تاہم جب تقریب ختم ہورہی تھی تو جاتے وقت جب اس شخص کا ذکر ہوا تو عثمانی صاحب بولے '' ویسے سُسرا ٹھیک کہتا ہے‘‘
اب ہم نے ایٹم بم تو بنالیا ہے مگر ہمارے سائنسدان تاحال کوئی ایسی ایجاد نہیں کرپائے جس سے زندگی گزارنے میں آسانی پیدا ہو۔پانی سے گاڑی چلانے والے البتہ ہمارے ہاں موجود ہیں اور ساتھ ہی دیگر شعبوں میں بے مقصد تحقیق کرنے والے بھی آپ کو ہر جگہ مل جائیں گے۔ مگر سائنسی تحقیق‘ نہ اس کے لیے حکومت مالی وسائل دیتی ہے، نہ نجی شعبہ آگے بڑھتا ہے مگر خواب ہم لوگ دیکھتے ہیں کہ ایک روز تمام دنیا کو پیچھے چھوڑ جائیں گے۔