حکومت ہی نہیں‘ سرکاری مشینری بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی دن رات خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ سرکاری کام ہوتا ہی اس طرح ہے‘ مثلاً عمران خان کبھی اقتدار میں نہیں رہے‘ وہ آزاد شہری ہیں۔ اپنی ذاتی آمدنی و اخراجات کا حساب رکھنے کے خود ذمہ دار ہیں۔ اس کے باوجود‘ سرکاری اہلکار دن رات‘ ان کے حسابات پر عرق ریزی کر کے‘ بتاتے ہیں کہ وہ ماضی میں کیا خرچ کرتے رہے؟ ان کے اثاثے کتنے ہیں؟ وہ سفر کیسے کرتے ہیں؟ کھاتے کیا ہیں؟ پہنتے کیا ہیں؟ خریدتے کیا ہیں؟اتنی دیکھ بھال‘ تو کوئی اپنے پیاروں کی بھی نہیں کرتا۔ وزیراعظم‘ عمران کی تقریروں کو سنتے ہی نہیںبلکہ اچھی طرح چھان پھٹک بھی کرتے ہیں۔ کل انہوں نے قوم کو یہاں تک بتا دیا کہ عمران کی تقریروں میں جھوٹ کتنا ہوتا ہے اور سچ کتنا؟ اگر وہ اتنی توجہ سے قوم کا حساب کتاب بھی دیکھ لیا کریں‘ تو ہمارے وارے نیارے ہو جائیں۔ انہوں نے اپنے وزیروں کو ڈیڑھ سال پرکھنے کے بعد‘ پتا چلا لیا ہے کہ کون کس لائق ہے ؟ مثلاً انہیں اپنے ایک دیرینہ درباری کی یہ صلاحیت اب معلوم ہوئی کہ وہ تہمت طرازی‘ افسانہ گوئی اور کردار کشی میں کتنی مہارت رکھتا ہے؟ جو وزارت اسے دی گئی‘ اس کے دفتر میں تو وہ شاذو نادر ہی گیا ہو گا لیکن جب سے عمران پر ڈیوٹی لگی ہے‘ اوقات کار کے علاوہ اوور ٹائم بھی شوق سے لگاتا ہے۔دن میں آٹھ دس مرتبہ‘ عمران کے خلاف ہرزہ سرائی کرتاہے۔ ذرا نہیں تھکتا بلکہ ہر نئی ہرزہ سرائی کے بعد‘ ا س کے چہرے پر مزید تازگی‘ آنکھوں میں مزید چمک اور جسم میں نئی پھرتیاں آجاتی ہیں۔عمران خان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے‘ وہ یوں جھومتا ہے جیسے عمران کی عزت پر پنجے مار کے‘ اسے نشہ ہو رہا ہو۔
گزشتہ دنوںایک درباری‘ ٹی وی اینکرز سے یہ شکایت کرتا پایا گیا کہ وہ عمران خان کو زیادہ وقت کیوں دیتے ہیں؟ یہ بات سمجھنا اس کے لئے واقعی مشکل ہے۔ کیونکہ جو ٹی وی سٹیشن وہ خود چلاتا ہے‘ اس پر عمران خان کو شاذو نادرہی موقع دیا جاتا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس چینل کو وہی ناظرین دیکھتے ہوں گے‘ جنہیں اس کام کی سزا ملی ہو۔ مرضی سے اسے کوئی نہیں دیکھتا۔ پیپلز پارٹی کے زمانے میں سرکاری ٹی وی کو تھوڑی بہت آزادی دے دی گئی تھی‘ جس کی وجہ سے ناظرین کا ایک حصہ یہ چینل بھی دیکھنے لگا تھا۔ جب سے موجودہ حکومت آئی ہے‘ ناظرین نے دوسرے چینلز کا رخ کر لیا ہے۔ سرکاری چینلز دکھانے کے لئے‘ دو ہی طریقے استعمال کئے جاتے ہیں‘ دیگر تمام چینلز بند کر دئیے جائیں جیسا کہ ہمارے ہاں برسوں ہوتا رہا ہے ‘ یا ا یسی آزادی دے دی جائے جیسی سابق صدر‘ آصف زرداری کے زمانے میں دی گئی تھی۔ اب سرکاری چینل دونوں سہولتوں سے محروم ہیں۔والدین بچوں کو سزا دینے سے جلد سلانے کی خاطر‘ یہ چینل ضرور دکھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ‘ سرکاری چینل کا شاید ہی کوئی مصرف رہ گیا ہو۔ نجی چینلز اپنی پالیسیاں ‘ناظرین کی پسند نا پسند کو دیکھ کر‘ مرتب کرتے ہیں۔ شام سات اور شب گیارہ بجے تک‘ کے نشریاتی وقت کو پرائم ٹائم سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد‘ باقی اوقات کی نسبت کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ مشتہرین انہی
اوقات میں بڑھ چڑھ کر اشتہارات دیتے ہیں اور ہر چینل اپنے سب سے عمدہ پروگرام پیش کرتا ہے۔ جن دنوں‘ عمران خان نے دھرنا شروع کیا تھا‘ ان کے برابر ڈاکٹر طاہر القادری بھی اپنا چھابہ لگا کرڈٹ گئے تھے۔ انہوں نے حکومت کو بہت کام دیا۔ سب سے پہلے تو یہ کہ عمران خان کی تقریروں کے لئے‘ پرائیویٹ چینلز کے پاس کسی اور پروگرام کا وقت ہی نہیں بچتا تھا کیونکہ ان دنوں ناظرین وقت سے پہلے‘ کام کاج مکمل کر کے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے اور جب تک عمران کی تقریر ختم نہ ہوتی‘ کوئی اور پروگرام نہیں لگاتے تھے۔ظاہر ہے یہ بات حکومت کے لئے ‘ پریشان کن تھی۔حکومت نے درپردہ کوششیں کیں کہ اس میں زیادہ سے زیادہ وقت ‘ ڈاکٹر طاہر القادری حاصل کر لیں۔ حکومت‘ نشریاتی وقت چھیننے میں تو کامیاب ہو گئی لیکن تمام ناظرین کو‘ ڈاکٹر صاحب کی تقریریں سننے پر مجبور نہ کر سکی۔ ناظرین نے اس کا حل یہ نکالا کہ جیسے ہی ڈاکٹر صاحب کی تقریر شروع ہوتی‘ ناظرین کی اکثریت دوسرے پروگرام لگا کر‘ دل بہلاتی اور درمیان میں جائزہ لیتی رہتی کہ عمران خان کی تقریر‘ کب شروع ہو گی؟ عوامی مقبولیت ایسی چیز ہے‘ جو نہ سرکاری طاقت سے حاصل کی جا سکتی ہے اور نہ چالاکیوں سے۔ عوام جسے چاہتے ہیں‘ ٹوٹ کر چاہتے ہیں اور جسے نہیں چاہتے تو ان کی زبان پر‘ مختلف نعرے آجاتے ہیں جیسے آج کل ایک ہی نعرہ زبان زدِ عام ہے۔ مجھے حوالہ دینے کی ضرورت نہیں ۔قارئین میرے لکھنے سے پہلے سمجھ گئے ہوں گے کہ میں کیا لکھنے والا ہوں؟ میں نے اسی لئے نہیں لکھا کہ جو بات قارئین لکھنے سے پہلے‘ سمجھ لیتے ہوں‘ اسے دہرانے کی کیا ضرورت ہے۔ٹی وی اینکرز سے یہ مطالبہ تو انتہائی مضحکہ خیز اور بد حواسی کا ثبوت ہے کہ جتنا وقت عمران کو دیتے ہو‘ اتنا ہی حکومت کو بھی دیا جائے۔ٹی وی ٹائم نہ تو راشن کا مال ہوتا ہے اور نہ ایسی چیز جس کا‘ ہر ایک دیکھنے والے تک پہنچانا لازمی ہو۔عمران کی تقریریں‘ پرائم ٹائم میں ہوتی ہیں۔ ہر ٹی وی چینل کی کوشش ہوتی ہے کہ جب عمران کی تقریر شروع ہو تو اسے فوری طور پر‘ ناظرین کے سامنے پیش کر دیا جائے۔ سرکاری ٹی وی پر مسلط چند نا سمجھ اور نالائق لوگوں کا خیال ہے کہ اگر طاقت استعمال کر کے‘ حکومت کو عمران کے برابر وقت دلوا دیا جائے تو عوام‘ وزیراعظم اور وزیروں کو بھی دیکھنے لگیں گے۔ انہیں یہ پتہ نہیں کہ مقابلے کی منڈی میں ہر چینل پرائم ٹائم میں زیادہ سے زیادہ ناظرین کی دلچسپی کے پروگرام چلاتا ہے۔ عمران کی تقریریں‘ اپنے وقت کا مقبول ترین پروگرام ہے۔ اس کی وجہ سے‘ ہر چینل کی ریٹنگ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور جو چینل عمران کو زیادہ وقت دیتا ہے‘ اسے اشتہارات بھی زیادہ ملتے ہیں۔ یہ کاروباری مقابلے کی بات تھی‘ جس میں کوئی بھی پیچھے رہنا پسند نہیں کرتا۔ حکومت ڈنڈے کے زور سے اگر اس وقت کسی نجی چینل کو زبردستی سرکاری لیڈروں کی تقریریں دکھانے پر مجبور کرے اور بدلے میں اشتہارات معمول سے زیادہ کر دے‘ تو بھی ناظرین کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ عمران کا پروگرام بند کر کے‘ سرکاری چہرے دیکھنے کی سزا بھگتیں ۔ اور ایسا ہوتا رہا ہے۔ حکومت نے جب بھی دبائو ڈال کر‘ کسی نجی چینل پر عمران کے مقابلے میں ‘ سرکاری پروگرام نشر ہونے کا بندوبست کیا ‘ اس کی ریٹنگ ماری گئی۔ یہ بات جی حضوریوں کی سمجھ میں نہیں آتی۔ان کا یہی خیال ہوتا ہے کہ عمران اور ان کا لیڈر ‘ دونوں یکساں مقبول ہیں اور یہ چینلز ان کے ساتھ‘ امتیازی سلوک کر کے‘ زیادتی کر رہے ہیں۔
ایک وقت تھا‘ نوازشریف کی وزارت عظمیٰ کے دور میں‘ جب قوم سے ان کے خطاب کے وقت کا اعلان کیا جاتا تو عوام ‘ ان کی تقریر سننے کے لئے‘ وقت سے پہلے تیار ہو جاتے تھے اور ٹی وی دیکھنے والوں میں نوے فیصد ناظرین‘ نوازشریف کی تقریریں سنا کرتے۔ اس وقت نہ تو حکومت کرپشن میں اتنی بدنام تھی اور نہ ہی نوازشریف پر دھاندلی سے انتخابات جیتنے کا الزام تھا۔ان کی کارکردگی بھی عوام کو صاف دکھائی دیا کرتی۔ اب ایسی کوئی بات نہیں رہ گئی۔ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصے میں‘ حکومت نے کوئی ایسا کام نہیں کیا‘ جس سے عوام کو راحت اور خوشی ملی ہو۔پہلے نوازشریف‘ اقتدار میںآتے ہی دھڑادھڑ عوامی مفاد کے کام شروع کر دیا کرتے تھے اور سال ڈیڑھ سال میں تو عوام واضح طور سے محسوس کرنے لگتے کہ حکومت کیا کچھ کر رہی ہے؟ نوازشریف کا موجودہ دور حکومت‘ عدم کارکردگی کی وجہ سے‘ بیزار کن ہی نہیں‘ افسوس ناک بھی ہے۔ میں نے ابھی تک پاکستان میںکوئی ایسا حکمران نہیں دیکھا‘ جس کے خلاف دوسرے ہی سال میں مخالفانہ نعرے لگنا شروع ہو چکے ہوں۔ حتیٰ کہ اقتدار کے ایک دوسال تو آمر بھی اچھی طرح گزار لیا کرتے اور عوام ان سے بیزاری پر مبنی نعرے نہیں لگاتے تھے ۔ عوام جب تک کسی انتظامی سربراہ سے بیزار نہ ہوں‘ کسی دوسرے لیڈر کی مقبولیت کی گنجائش نہیں ہوتی۔ بھٹو صاحب اس وقت مقبول ہوئے جب ایوب خان‘ غیر مقبول ہو چکے تھے۔ نوازشریف اس وقت مقبول ہوئے ‘جب بی بی شہید کی حکومت کو ان کے حاشیہ برداروں نے بدنام کر دیا تھا اور عمران خان کو مقبولیت اس وقت ملی‘ جب پیپلز پارٹی کے دونوں وزرائے اعظم کی کرپشن زبان زدِ عام ہو گئی۔2013ء کے انتخابات میں‘ عمران خان کو گیلانی اور راجہ کی رسوائیوں سے فائدہ ہوا۔جس کے سبب عمران کی پارٹی‘ دوسرے نمبر پر آگئی اور موجودہ حکومت نے ڈیڑھ سال میں‘ عدم مقبولیت میں‘ اتنا کمال حاصل کیا کہ آج عمران خان‘ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں۔پاکستان میں اپنی ذاتی صلاحیتوں‘ لیاقت اور ذہانت کی وجہ سے مقبولیت حاصل کرنے والے‘ واحد لیڈر ذوالفقار علی بھٹو ہیں۔ باقی جتنے بھی لیڈر مقبول ہوئے‘ وہ اپنے مدمقابل کی بری کارکردگی اور عدم مقبولیت سے فائدہ اٹھا کر‘ عوام کی توجہ کا مرکز بنے۔عوام‘ بھٹو صاحب اور نوازشریف کے اقتدار کا پہلے بھی تجربہ کر چکے تھے۔ عمران کو یہ امتیازحاصل ہے کہ اقتدار میں ان کی کارکردگی ابھی تک نہیں دیکھی گئی۔اسی لئے ان سے عوام کی توقعات بھی بہت زیادہ ہیں۔حکومت انہیںجتنا دبائے گی‘ عوام سے دور نہیں کر سکتی۔ہر پابندی ‘ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بنے گی اور جو ان کے خلاف الزام تراشیاں کرے گا‘ اسی طرح لافنگ سٹاک بنے گا ‘ جیسے آج کل چند وزیر بنے ہوئے ہیں۔