بحریہ ٹائون والے ملک ریاض حسین نے کراچی اور حیدرآباد میں الطاف حسین کے نام پر یونیورسٹیاں بنانے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے بھی لاتعداد رفاہی اقدامات موصوف کو زیب دے رہے ہیں جن سے ہر کوئی واقف ہے بلکہ انہوں نے اپنی دولت کا 75 فیصد پاکستان کے غریبوں کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ ہمارے حکمران جو کسی بھی لحاظ سے ملک ریاض سے کم دولتمند نہیں ہیں اور عرصۂ دراز سے عوام کی گردن پر بھی سوار ہیں‘ وہ اپنی بے پایاں دولت کا ایک فیصد بھی ملک کے ان غرباء پر خرچ کرنے کو تیار نہیں جو انہوں نے اسی بدقسمت قوم کا خون چوس کر اکٹھا کر رکھا ہے۔ وہ اس دولت کو عوام پر خرچ کرنا تو درکنار‘ اسے بیرون ملکی بینکوں سے واپس اپنے ملک میں لانے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ لوگ عوام کی اس غربت کے خود ذمہ دار ہیں جس نے ان کی دو وقت کی روٹی کو بھی خواب و خیال بنا رکھا ہے اور جن کی حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے اور یہ اپنی بادشاہی میں مست اور مطمئن ہیں۔
بھارت کا مثبت رویہ؟
بالآخر ہمارے وزیراعظم کو بھارتی وزیراعظم سے مصافحہ کرنے کی سعادت حاصل ہو ہی گئی جس پر ان کا تبصرہ ہے کہ مودی سے اچھی سلام دعا ہے‘ بلکہ حکومتی معتبرین میں سے ایک نے کہا ہے کہ بھارت کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینے کے لیے
ضروری ہے کہ وہ مثبت رویے کا مظاہرہ کرے‘ گویا کشمیر کا اس شرط میں کوئی ذکر اذکار نہیں ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران اب بھی بھارت سے بامقصد اور بامعنی مذاکرات کی امید لگائے بیٹھے ہیں حالانکہ کوئی احمق آدمی بھی یہ اندازہ لگانے میں غلطی نہیں کرے گا کہ ان تلوں میں کوئی تیل نہیں ہے اور بھارت حسب معمول محض وقت گزار رہا ہے بلکہ وہ تو کشمیر کو اپنا داخلی معاملہ قرار دیتا ہے اور دنیا کو بھی یہی باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ کٹھمنڈو اعلامیے میں سارک ممالک کو اشاروں اشاروں میں راستے دینے کا فیصلہ بھی کر لیا گیا ہے جس کی سب سے زیادہ ضرورت بھارت کو ہے‘ چنانچہ امید رکھنی چاہیے کہ بھارت کے مطلوبہ مثبت رویے کے بعد اسے سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بننے کے لیے ہمارا ووٹ بھی مل جائے گا جس کی راہ میں واحد رکاوٹ ہم ہیں۔ بہ بیں تفاوتِ راہ از کجاست تا بہ کجا۔
36 کم سن بچیاں
باجوڑ کے ایک مدرسے سے اغوا ہو کر کراچی پہنچ جانے والی 36 کم سن بچیوں کے اغوا کا قصہ ہمارے سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہونا چاہیے۔ مجرموں کو اس کی سزا ملتی ہے یا نہیں‘ یہ ایک الگ مسئلہ ہے لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ والدین غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے بچوں کو ان اداروں میں بھجواتے ہیں جہاں انہیں کھانے کو ملتا ہے جو ان کے والدین افورڈ نہیں کر سکتے؛ چنانچہ یہ بچے بالخصوص نوعمر لڑکے وہاں دینی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ان والدین کی غربت و افلاس کی ذمہ دار یہی نام نہاد اشرافیہ ہے جو گزشتہ 68 برسوں سے اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک ہیں اور جنہوں نے اس بدقسمت ملک اور عوام کو اس حالت تک پہنچا رکھا ہے اور جن سے گلوخلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی جو ان کے نام پر حکومت بھی کرتے ہیں اور محکوموں کا مکمل طور پر ستیاناس بھی کر رکھا ہے جبکہ ان کا طریقۂ واردات وہ نام نہاد جمہوریت ہے جسے یہ ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے اور اسے اپنا حق سمجھتے ہیں... دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات!
شمشیر حیدر کی شاعری
اس نوجوان کا تعلق واہ کینٹ سے ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے ان کی ایک چمکدار غزل رسالہ ''بیاض‘‘ میں دیکھی تھی اور جس کا نوٹس لیتے ہوئے اسے اپنے کالم کی زینت بھی بنایا تھا۔ اب اس کا مجموعۂ کلام شائع ہونے جا رہا ہے اور اس نے اپنی کچھ غزلیں رائے حاصل کرنے کے لیے مجھے بھیجی ہیں۔ یہ ان غزلوں سے کئی لحاظ سے مختلف ہیں جو ہمارے اردگرد منوں اور ٹنوں کے حساب سے تخلیق کی جا رہی ہیں۔ یہ شاعر اس راز کو بخوبی سمجھتا ہے کہ جدید غزل کہاں تک پہنچ چکی ہے اور اسے آگے کس طرح بڑھانا ہے۔ اس کی شاعری نے مجھے خوش کیا ہے کہ عمدہ شاعری ہر روز دیکھنے کو نہیں ملتی۔ اس میں جدید طرزِ احساس بھی ہے‘ تازگی اور تاثیر بھی۔ مجھے یقین ہے کہ اس کی کتاب شاعری میں اضافہ کرے گی‘ محض شاعری کی کتابوں میں نہیں۔ لگتا ہے کہ شاعری اس پر اُتری ہے اور خوب اُتری ہے! اس کے کچھ شعر دیکھیے:
دنوں سے کیسے شبوں میں ڈھلتے ہیں دن ہمارے
یہ ہم بدلتے ہیں یا بدلتے ہیں دن ہمارے
جو کٹ گیا ہے سفر ابھی تک نہیں ہمارا
خبر نہیں اور کتنا چلتے ہیں دن ہمارے
جہاں سے آتی ہے مسکراہٹ ترے لبوں کی
وہیں سے روتے ہوئے نکلتے ہیں دن ہمارے
جہانِ خوابِ مہرباں کی خیر ہو
مرے زمین و آسماں کی خیر ہو
جہاں ہے تیرگی وہاں ہو روشنی
جہاں ہے روشنی وہاں کی خیر ہو
تمہیں برباد کرنے کو تمہارا
خمارِ حکمرانی ہی بہت ہے
دل ملا ہے تری یادوں میں دھڑکنے والا
آنکھ پائی ہے تجھے دیکھنے والی میں نے
کسی غرض‘ کسی غایت سے لوگ دیکھتے ہیں
یہ مت سمجھ کہ عقیدت سے لوگ دیکھتے ہیں
نہ جانے تو نے یہ کیا اسم پڑھ کے پھونکا ہے
مری طرف بھی محبت سے لوگ دیکھتے ہیں
پیاس ایسی ہے کہ پانی سے جو بجھتی ہی نہیں
جو تعلق مرا دریا سے تھا اب تجھ سے ہے
یہ میری چھائوں‘ گھنی چھائوں بس یہیں تک ہے
میں پیڑ ہوں سو ترے ساتھ چل نہیں سکتا
سجے ہوئے بام و در سے آگے کی سوچتا ہوں
میں گھر بنا کر بھی گھر سے آگے کی سوچتا ہوں
آج کا مطلع
بھلے کرتا رہے، انکار سے بھی کچھ نہیں ہوتا
اب اپنی راہ کی دیوار سے بھی کچھ نہیں ہوتا