انسان کا دل مختلف طرح کے جذبات کی آماجگاہ ہے جن میں سے بعض منفی اور بعض مثبت ہیں ۔ منفی جذبات میںسے حسد ایک ایسا جذبہ ہے جو انسان کو تباہی کے دہانے تک لے جاتا ہے ۔ حسد کی وجہ سے انسان اپنی دنیا اور عاقبت تباہ کر بیٹھتا ہے ۔ حاسد محسود کے نقصان سے خوش ہوتا اور اس کو پہنچنے والی مصیبتوں پر راحت محسوس کرتا ہے ۔ حاسد کئی مرتبہ محسود کے بارے میں الزام تراشی کا رویہ بھی اختیار کرتا ہے اور محسود پر کسی بھی طرح کے لگنے والے الزام کو نہ صرف یہ کہ بغیر تصدیق کے قبول کر لیتا ہے بلکہ اس بے بنیاد الزام کی ترویج میں بھی اپنا کردار ادا کرتا ہے ۔
حسد کی بنیاد نفرت اور انتقام کے وہ جذبات ہیں جو کسی بھی شخص کو اللہ طرف سے ملنے والی نعمتوں اور صلاحیتوں کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے حاسد کے دل میں پیدا ہو تے ہیں ۔ حسد کا انسان کے ظرف سے انتہائی گہرا تعلق ہے ۔اعلیٰ ظرف کے لوگ عام طور پر دوسرے انسانوں سے حسد نہیں کرتے بلکہ کسی بھی باصلاحیت شخص کو دیکھ کر خوشی اور راحت محسوس کرتے ہیں جبکہ کم ظرف لوگ کسی بھی کامیاب انسان کو دیکھ کر حسدکا شکار ہو جاتے ہیں ۔ حاسد کی بنیادی خواہش یہ ہوتی ہے کہ جو نعمت محسود کو حاصل ہے وہ جلد یا بدیر کسی طریقے سے اس نعمت سے محروم ہو جائے اور کئی مرتبہ وہ اس نعمت کو محسود سے چھیننے کے لیے خود بھی اپنا کردار ادا کرنے پر آمادہ و تیار ہو جاتے ہیں ۔ حسد کرنے والے عام طور پر اس منفی جذبے کی وجہ سے نفسیاتی جلن اور احساس ِ محرومی کا شکار رہتے ہیں اور محسود کی ہر کامیابی ان کے نفسیاتی عارضوں میں اضافے کا باعث بن جاتی ہے ۔
اسلام نے جذبہ حسد کی بہت زیادہ مذمت کی ہے اور قرآن مجید میں ابلیس کے زوال کی وجہ بھی یہی بیان کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو صفت علم سے بہرہ ور فرما کر ان کو فرشتوں پر فضیلت عطا فرما دی تھی ۔ جب فرشتے اَن دیکھی اشیاء کے نام بتانے سے قاصر ہوگئے اور حضرت آدم ؑ نے ان اشیاء کے نام بتلا دیئے تو اللہ تعالیٰ نے جمیع فرشتوں کو حضرت آدم ؑکے سامنے جھکنے کا حکم دیا ۔عزازیل نامی جن بھی کثرت عبادت کی وجہ سے فرشتوں کی جماعت میں شامل ہو چکا تھا۔ اس نے حسد اور تکبر کا راستہ اختیار کیا اور اپنے آپ کو حضرت آدم ؑسے افضل گرداننے لگا۔ اس کا استدلال یہ تھا کہ اس کو اللہ تعالیٰ نے آگ سے پیدا کیا جبکہ حضرت آدم ؑکو مٹی سے بنایا گیا تھا‘ اس کی دانست میں آگ مٹی سے افضل تھی۔ چنانچہ اس نے آدم ؑکے سامنے جھکنے سے انکار کردیا ۔نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے اس کو قیامت کی دیواروں تک کے لیے راندہ درگاہ بنایا دیا ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ مائدہ میں آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بیان فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بیٹے کی قربانی کو قبول فرمالیا جبکہ دوسرے بیٹے کی قربانی قبول نہ ہوسکی۔ جس کی قربانی قبول نہ ہوئی اس نے ا پنے دوسرے بھائی سے حسد کیا اور اس کو مخاطب ہو کر کہا میں تجھے قتل کروں گا۔ اس پر محسود نے حسد کرنے والے بھائی کو مخاطب ہو کر کہا تھا کہ تقویٰ کے راستے کو اختیار کر‘ بے شک اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کی قربانی کو قبول فرماتا ہے ۔چونکہ حاسد بھائی کے دل میں دوسرے بھائی کے لیے نفرت پیدا ہو چکی تھی چنانچہ اس نے اس کو قتل کرکے ہی دم لیا ۔ احادیث میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے کو قتل کرتا ہے تو جہاں وہ خود گناہگار ہو تا ہے‘ اس قتل کی ابتدا ء کرنے والے آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے کو بھی قاتل کے ساتھ ساتھ گناہ ملتا ہے ۔جذبہ حسد اور انتقام کی وجہ سے آدم علیہ السلام کا بیٹا اتنے بڑے گناہ کا مرتکب ٹھہرا کہ قیامت تک کے لیے وہ بھی ہر قاتل کے قتل میں حصہ دار بنتا رہے گا ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید ہی میں حضر ت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا ذکر کیا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت یوسف ؑ کے مابین محبت کی وجہ سے حضرت یوسفؑ کے بھائی حسد کا شکار ہو گئے اور انہوں نے اپنے بابا حضرت یعقوب ؑ کی نظروں سے ان کو دور کرنے کے لیے اندھیرے کنویں میں اتار دیا ۔ ایک مدت کے بعد جب وہ یوسف ؑ کے پاس اپنے بھائی حضرت بنیامین سمیت پہنچے تو جناب یوسف ؑ نے ایک تدبیر کے ذریعے حضرت بنیامین کو اپنے پاس روک لیا ۔ حضرت یوسف ؑنے اپنے پیالے کو حضرت بنیامین کے سامان میں ڈال کر اعلان کروادیا کہ جس کے سامان سے بھی ان کا پیالا بر آمد ہو گا‘ وہ اس کو اپنے پاس رکھنے کے مجاز ہوں گے ۔ اس موقع پر حضرت یوسف ؑکے بھائیوں نے حسد کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ حضرت بنیامین نے ہی چوری نہیں کی بلکہ معاذاللہ یہ کام تو ان کے بھائی حضرت یوسف ؑ نے بھی کیاتھا۔ جذبہ حسد نے حضرت یوسفؑ کے بھائیوں کو اتنا مغلوب کر دیا تھا کہ وہ جناب یوسف ؑپر جھوٹی تہمت لگانے پر تیار ہو گئے تھے ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ انفال میں ابو جہل کے حسد کا ذکر کیا ہے کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آکر دعا مانگی تھی کہ اے اللہ ! اگر حضرت رسول اللہ ﷺ پر اترنے والا کلام تیری طرف سے حق ہے توہمارے اوپر آسمان سے پتھروں کی بارش برسا یا ہمیں عذابِ علیم کا نشانہ بنا دے ۔ ابو جہل حسد کی آگ میں اس طرح جل رہا تھا کہ وہ قرآن مجید کی واضح آیات کو بھی حسد کی وجہ سے قبول کرنے پر آمادہ نہ ہوا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی سورہ زخرف میں روسائے عرب کے اس قول کو بھی نقل کیا ہے کہ اگر اس قرآن نے اترنا ہی تھا تو مکہ یا طائف کے کسی چوہدری پر اترتا گویا کہ انہیں حضرت رسول اللہ ﷺ کی دعوت پر اعتراض کے ساتھ ساتھ ان کے بخت کی بلندی پر بھی حسدتھا ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرہ میں علمائے یہود کا بھی ذکر کیا کہ جو نبی کریمﷺ کو اپنے بیٹوں کی طرح پہچانتے تھے لیکن صرف حسد کی وجہ سے آپ کی دعوت کو قبول کرنے پر تیار نہ ہوئے۔
اللہ تعالیٰ نے سورہ نساء میں حاسدوں کی مذمت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ''کیالوگ اللہ تعالیٰ کے فضل پر جو وہ کسی پر فرماتے ہیں حسد کرتے ہیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے فضل اور عطا پر حسد کرنے والے لوگ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور عطا کسی انسان کی مرضی کے تابع نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ جب چاہیں کسی کو عزت ،مال ، عہدہ اور عظمت عطا فرما سکتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں پر حسد کرنا بجائے خود ایک نا عاقبت اندیشی والا عمل ہے ۔
ہمارے معاشرے میں موجود سماجی ،گھریلو اور سیاسی جھگڑوں کا بڑا سبب بھی حسد ہے ۔ سوکناپے کا حسد تو ایک تاریخی اور اٹل حقیقت ہے لیکن ساس اور بہو کے درمیان اکثرو بیشتر حسد کے جذبات پائے جاتے ہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کئی مرتبہ خونی رشتے دار اور ایک ہی ماں کے بیٹے اور بیٹیوں میں بھی حسد کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے خون کے رشتے بھی بکھر کر رہ کر جاتے ہیں ۔
ہماری سیاست میں بھی حسد کا عنصرنمایاں طورپر نظر آتا ہے ۔ سیاست دان کئی مرتبہ اصولی مخالفت کی بجائے صرف حسد کی وجہ سے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے پر تیا ر نظر آتے ہیں اور اپنے عیوب اور خامیوں کو فراموش کر کے فریقِ مخالف پر جھوٹے سچے الزامات لگانا شروع ہو جاتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے اپنے امتیوں کو حسد سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے ارشادفرمایا کہ ''حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتاہے جس طرح آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے ۔‘‘ نبی کریم ﷺ نے جہاں حسد کی مذمت کی ہے‘ وہیں آپؐ نے جادو، ٹونے، وساوس اور حسد سے بچنے کے لیے معوذتین کا نسخہ بھی تجویز فرمایا ہے۔ سورہ فلق میں جن مہلک چیزوں سے صبح کے پروردگار کی پناہ کو طلب کیا گیا ان میں سے ایک حاسد بھی ہے‘ جب وہ حسد کرنے لگے۔ نبی کریم ﷺ نے جذبہ حسد سے نجات حاصل کرنے کے لیے قرآن مجید کے قاری اور اپنی دولت میں سے سخاوت کرنے والے پر رشک کے راستے کو تجویز فرمایا ہے کہ حسد کے بالمقابل جذبہ رشک انسان کو اچھے اعمال کرنے والے جیسابننے کی رغبت دلاتا ہے ۔ اگر ہم قرآن وسنت کی روشن تعلیمات سے رہنمائی حاصل کرنے والے بن جائیں توحسد کے معاشرتی نقصانات سے بچ کر معاشرے کو محبت اورامن و سکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔