تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     30-11-2014

آج کا سندھ

سندھ کی کل اور آج کی سیا ست کو اگر ایک ہی جملے میں بیان کرنا ہو تو وہ یہ ہو گا ''عرصے سے جاری قتل و غارت اور آپس کی دشمنیوں کی اصل وجہ گروہی بنیاد اور بل بوتے پر اقتدار اور وسائل پر قبضہ جماناہے‘‘۔ اس میں سیا سی جماعتوں‘ دہشت گردوں‘ کرائے کے قاتلوں‘ زیر زمین جرائم کی دنیا کے سرغنوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ ان سب کا مقصد ایک ہی ہے۔ وقفوں وقفوں سے ابھرنے والی چپقلش کاپس منظر اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ طاقت کے طالب اپنے علاوہ کسی دوسرے کو اقتدار کی مسند پر دیکھنے کے روا دار نہیں۔ وہ سندھیوں کی ایک بڑی آبادی کو اس کا بنیادی حق دینے کے عمل کی عددی طاقت کے بل پر نفی کرتے ہیں۔ اس کیلئے وہ عوام کے دلوں میں نفرت کو ابھارتے ہوئے بہت آگے نکل جاتے ہیں۔ 
پاکستان کے آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ وہ لوگ جن کے آبائو اجداد سندھ کے رہنے والے نہیں تھے اور جو آزاد وطن کی خاطر ہجرت کرتے ہوئے سکھر، کراچی اورحیدر آباد میں آباد ہو گئے تھے‘ وہ آئندہ بھی کئی نسلوں تک سندھ کی وزارت اعلیٰ کے حق دار نہیں۔ وہ بضد ہیں کہ یہ حق صرف سندھ میں نسل در نسل رہنے والوں کیلئے ہی مخصوص ہے۔ یہ کسی طور پر بھی منا سب نہیں اور اس سے یہی مطلب لیا جائے گا کہ آپ گزشتہ تین چار نسلوں سے سندھ میں رہنے والے پاکستانیوں کو سندھی تسلیم نہیں کرتے۔ کیا یہ دعویٰ مضحکہ خیز نہیں۔ اُن کے مہاجر کہلانے پر تنقید ہوتی ہے اور انہیں کہا جاتا ہے کہ وہ لفظ مہاجر کا استعمال ترک کردیں۔ اگر آپ انہیں یہ مشورہ دیتے ہیں تو پھر آپ کی طرف سے یہ تکرار بھی بند ہو جانی چاہئے کہ سندھ صرف جنم جنم سے یہاں رہنے والوں کا ہے‘ جبکہ تاریخ شاہد ہے کہ ایسا کوئی بھی سندھی نہیں‘ جو دو چار سو سال پہلے کہیں سے آ کر یہاں آباد نہیں ہوا۔ جنہیں اب جنم جنم کا سندھی ہونے کا دعویٰ ہے‘ وہ بھی ''مہاجروں‘‘ کی طرح ہندوستان‘ بلوچستان اور لسبیلہ سے1960ء میں یہاں آ کر آباد ہوئے تھے۔
اس نقطۂ نظر کو واضح کرنے کیلئے اگر دیکھا جائے تو پاکستان بننے کے بعد بھارت کے اتر پردیش، دہلی، آندھرا پردیش، گجرات،مہاراشٹر اور راجستھان سے آنے والوں کی سندھ سمیت پاکستان میں ہجرت اور پھر1971ء میں بنگلہ دیش کے وجود میں آنے کے بعد سابقہ مشرقی پاکستان کے ڈھاکہ، راج شری،رنگ پور، کھلنا اور چٹاگانگ ڈویژنوں سے بنگالیوں اور بہاریوں کی ہجرت اور پھر 1980ء سے اب تک روس کے بعد امریکہ کی افغانستان پر یلغار کے نتیجے میں افغانیوں کی لاکھوں کی تعداد میں سندھ میں مسلسل آمد، برما کی خانہ جنگی سے بھاگ کر آنے والے لوگ اور اس کے بعد پاکستان کے مختلف حصوں کے لوگوں کی کراچی سمیت سندھ کے اربن حصوں میں منتقلی کو سامنے رکھنا ہو گا ۔ ان حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے اگر درجہ بدرجہ ان کے بارے میں بے لاگ تجزیہ کیا جائے تو سندھ میں لسانی بنیادوں پر اس وقت دو گروپ ہیں۔ ان میں سے ایک اردو بولنے والے اور دوسرے وہ جن کی مادری زبان سندھی ہے۔ آخر الذکر میں مکران کے ساحلی علاقوں کے بلوچ اورجدگلی( سندھی) اس وقت زیادہ تر کراچی میں آباد ہیں اور ان میں تیسرے لوگ میمن اور کچھی برادری کے لوگ ہیں جو بھارتی گجرات کے کَچھ اور بھوج کے مختلف علا قوں سے آ کر سندھ پاکستان میں آباد ہوئے۔
1947ء میں ہندوستان سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچنے
والوں کو تین حوالوں کے ساتھ سامنے رکھیں تو سب سے پہلے وہ لوگ ہیں جن کے ہزاروں خاندانوں نے بھارت سے پاکستان ہجرت کی۔ اس وقت ان کی دوسری اور تیسری نسل سندھ میں آباد ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جو 1971ء میں بنگلہ دیش اور 1980ء کے بعد سے افغان جنگ اور پھربرما کی خانہ جنگی سے جان بچانے کیلئے پاکستان پہنچے اور پھر آزاد کشمیر،پنجاب اورکے پی کے سے روزگار کی تلاش میں آنے والے لوگ ہیں‘ جو اب مستقل طور پر کراچی میں آباد ہو چکے ہیں۔ ان میں پنجاب کے وہ آباد کار بھی شامل ہیں جنہیں 1950ء سے1970ء کے دوران سندھ میں نئے بیراجوں کی تعمیر کے بعد ویران اور بنجر زمینیں الاٹ کی گئیں جنہیں انہوں نے دن رات کی محنت سے سرسبزو شاداب کر دیا۔ یہ لوگ اندرون سندھ آباد ہوئے۔ 
سندھ میں اس وقت9 مختلف لسانی گروپ قیام پذیر ہیں‘ جن میں سماٹ اور بلوچ سندھی بولتے اور لکھتے ہیںپھرمکران کے ساحلی علاقوں کے رہنے والے بلوچی زبان بولتے ہیں لیکن چونکہ یہ عرصہ دراز سے کراچی میں رہ رہے ہیں ا سلئے یہ سندھی بھی روانی سے بولتے اور لکھتے ہیں۔ ان کے بعد لاسی اور گجراتی دو علیحدہ علیحدہ قومیتیں ہیں جو میمنی اور کچھی زبان سمیت سندھی زبان پر بھی مکمل عبور رکھتی ہیں۔ یہ بھارتی گجرات کے بھوج اور کچھ کے علا قوں سے 1947ء اور اس کے بعد کراچی آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔ پھر سندھی بولنے والے لاسی ہیں جو1960ء کی دہائی میں ون یونٹ بننے کی صورت میں بلوچستان کی ریاست لسبیلہ کی قانونی حیثیت ختم ہونے کے بعد وہاں سے ہجرت کرکے سندھ میں آباد ہو گئے۔
اس کے بعد راجستھان سے سندھ آنے والوں میں قائم خانی راجپوت، سلاوٹ،گزدار اور شیخ قومیت سے تعلق رکھنے والی قومیں ہیں جو راجستھانی زبان بولتی ہیں لیکن ساتھ ہی سندھی بھی روانی سے بولتے ہیں۔ ان میں سے سلاوٹ قوم1930ء میں پیر صاحب پگارو کی دعوت پر ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہوئی ، اور گزدار‘سلاوٹ قوم سے بہت پہلے سندھ پہنچی جن کا طرز تمدن پہلے بھی سندھی ثقافت کا مکمل آئینہ دارتھا۔ ان کے علاوہ ہندوستان کے صوبے کیرالہ میں جب برطانوی راج کے خلاف 1935ء میں موپلا تحریک شروع ہوئی تو انگریزی فوج نے ان کا قتل عام شروع کر دیا۔ انہوں نے سندھ میں پناہ لی۔ ملباری کہلوانے والے یہ لوگ سندھ کے مختلف حصوں میں آ کر آباد ہو تے گئے ۔۔۔۔۔کیا اس سے یہ واضح نہیں ہوتا کہ سندھ تو آغوشِ مادر کی طرح ہے جس نے ہر آنے والے کو اپنے اندر سمو لیا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved