تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     01-12-2014

دلیل کی موت

حکومت پر پل پڑنے والا اور دھرنے والوں کی بے طرح حمایت کرنے والا ٹی وی سکرین کاایک صحافی بھیگتی ہوئی رات میں کچھ بجھا بجھا تھا۔ لاہور کے ایک بڑے ہوٹل کے ایک ریسٹورنٹ میں ہمارا اتفاق سے آمنا سامنا ہوگیا تھا اور وہ اپنی کرسی گھسیٹ کر ہماری میز پر آبیٹھا تھا۔ بیٹھتے ہی بغیر کسی تمہید کے پہلے تو اس نے حکومت کے گرنے یا نہ گرنے پر فرداً فرداً ہماری رائے لی اور پھر خلافِ معمول شکستہ آواز میں بولنا شروع کردیا۔ اس کی طویل خود کلامی سے جو کچھ میں اخذ کرپایا وہ یہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے موجودہ حالات میں پاکستان میں حکومت کا گرنا لازمی ہے۔ اس دلیل کی مضحکہ خیزی اپنی جگہ لیکن اس کی سنجیدگی دیکھ کر ہنسی روکنا مشکل ہوگیا، عرض کیا : ''حضور آپ کی خواہشات اپنی جگہ لیکن حقائق کو اس بری طرح تو مسخ نہ کریں، اس طرح کے دلائل دینے سے بہتر یہ نہیں کہ آپ اپنی رائے پر نظر ثانی فرما لیں؟‘‘ ایک لمحہ خاموشی کے بعد بولا : '' یا ر ، مصیبت یہ ہے کہ میں چاہوں بھی تو اپنی رائے نہیں بدل سکتا کیونکہ حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ لوگ دلیل سننا ہی نہیں چاہتے۔اب میں ایک اینکر نہیں رہا بلکہ ایک پروڈکٹ (چیز) ہوں جس کے خریدار اس کے رنگ، شکل اور ذائقے سے مانوس ہوچکے ہیں۔ مجھے وہی منطق اختیار کرنی ہے جو دھرنے کو جائز ثابت کرتی ہے۔ جیسے ہی میری گفتگو سے میرے ناظرین نے میرے موقف میں تبدیلی محسوس کی وہ مجھے اپنی نظروں سے گرادیں گے اور میں کہیں کا نہیں رہوں گا‘‘۔ یہ کہہ کر وہ تیزی سے اٹھا اور ریستوران سے باہر نکل گیا۔ اس کے جانے کے بعد ہم کھانے میں مگن ہوگئے اور بات آئی گئی ہوگئی۔ اگلے دن یعنی جمعے کو یکے بعد دیگرے وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید ، پھر عمران خان اور آخر میں وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق کی پریس کانفرنسیں دیکھیں اورسنیں تو اس صحافی کی کہی ہوئی بات پوری معنویت کے ساتھ سمجھ میں آئی۔ یہ پریس کانفرنسیںجو کچھ بھی تھیں درحقیقت پاکستانی سیاست میں دلیل کی موت کا اعلان تھیں۔
پہلی پریس کانفرنس میں پرویز رشید نے عمران خان کو ان کے طرزِ زندگی کے طعنے دیے۔ ان کے اثاثوں پر مبنی فلم دکھاتے ہوئے وہ بھول گئے کہ اس ملک میں بہت سے لوگوں نے دیگر سیاستدانوں کا رہن سہن بھی دیکھ رکھا ہے جو خان صاحب کے مقابلے میں کہیں زیادہ شاہانہ اور مسرفانہ ہے۔ دوسری پریس کانفرنس خود عمران خان نے کی اور بلاثبوت الزام دہرایا کہ2013 ء میں پچپن لاکھ فالتو بیلٹ پیپرز چھاپ کر موجودہ حکومت کو وجود میں لانے کے لیے دھاندلی کا انتظام کیا گیا۔ خان صاحب اور ان کے حواریوں کی استقامت اپنی جگہ لیکن 14 اگست سے لے کر آج تک وہ ایک بھی ایسا ثبوت نہیں پیش کرسکے جس کی بنیاد پر موجودہ حکومت کو دھاندلی کی پیدا وار قرار دیا جاسکے۔ تحریک انصاف اپنے الزامات دہرا دہرا کر اگر یہ سمجھے کہ اس نے جرم ثابت کردیا تو اس پر سر پیٹ لینے کے سواکوئی کیا کرے۔ خان صاحب کے بعد خواجہ سعد رفیق میدان میں آئے اور انہوں نے تحریک انصاف کے چیئرمین کے لیے سخت ترین الفاظ
استعمال کیے۔ان تینوں پریس کانفرنسوں میں فرمائے گئے مواد کاصرف ایک ہی پیغام تھا اور وہ یہ کہ سیاست میں1990ء کی دہائی کی وہ نفرت بتمام وکمال واپس آچکی ہے جس کا شکار ہونے والے ، اختلاف کرنے والے کو غدار اور دم ہلانے والے کو وفادار سمجھتے ہیں۔ جہاں دلیل، بحث یا مکالمے کو جواب ،گالی اور بہتان سے دیا جاتا ہے۔ ماحول ایسا ہوچکا ہے کہ ہر شخص اپنے موقف کو الہامی اور دوسرے کی رائے کو شیطانی قرار دینے میں ایک لحظہ بھی تامل نہیں کرتا۔ ہر صاحب ِ رائے کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ متحارب گروہوں میں سے کسی ایک کے ساتھ مل جائے ورنہ بدنامی یا گمنامی کے لیے تیار رہے۔ 
اس اندازِ سیاست کے موجد تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم تھے لیکن عمران خان نے اسے جس نئی بلندی سے روشناس کرایا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔ بھٹو مرحوم کی باتیں اس لیے محدود ہیں کہ اس دور میں ٹیلی ویژن کی سکرین پر یہ سب کچھ نہیں دکھایا جاسکتا تھا لیکن آج کے دور میں خان صاحب کے فرمودات ادھر ان کے دہنِ مبارک سے اداہوتے ہیں اور اُدھر ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں اتر جاتے ہیں۔ جو الفاظ وہ اختلاف کرنے والے صحافیوں اور حکومت کے بارے میں فرماتے، ان کے پیروکار ہزار سے ضرب دے کر آگے بڑھا دیتے ہیں۔ بھٹو صاحب کے حامیوں کے پاس سوشل میڈیا بھی موجود نہیں تھا لیکن تحریک انصاف کے جیالوں کے پاس یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے کسی کی بھی عزت کا جنازہ بڑی دھوم سے نکالا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا تو مشکل ہے کہ بھٹو صاحب کی طرح خان صاحب بھی کبھی حکومت میں آسکیں گے یا نہیں لیکن یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ انہوں نے اپنے دھرنے سے اس معاشرے میں جو کچھ بویا ہے اسے کاٹنے کا وقت زیادہ دور نہیں۔ اس میں خود ان کا اپنادامن بھی تار تار ہونا ہے اور دوسروں کا بھی۔ خواجہ سعد رفیق کی پریس کانفرنس آنے والے وقت کا ایک ہلکا سا اشارہ ہے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ کسی بھی بڑی تبدیلی کی بنیاد میں نئے نظریات کے ساتھ ساتھ موجودہ نظام سے نفرت بھی ایک اہم کردار ادا کرتی ہے، اسی لیے علامہ اقبال نے جہاں محبت کو فاتح عالم قرار دیا وہاں کاخِ امراء کے درودیوار گرانے کی بھی بات کی۔ اگر خان صاحب یہ توازن برقرار رکھتے توکیا بات تھی لیکن کارناموں پر نظر ڈالیں توافسوس ہوتا ہے کہ اپنے نظریۂ تبدیلی کے نام پر وہ جو بات کررہے ہیں دراصل یہ ہے کہ ان کی قیادت میں یہ ملک زیادہ بہتر انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔ یہ سمجھنے سے انہیں انکار ہے کہ اس دعوے میں وہ تنہا نہیں بلکہ دنیا کی ہر سیاسی جماعت اسی دعوے پر الیکشن لڑکر آتی ہے کہ وہ ایک اچھی حکومت کا نمونہ پیش کرے گی اوراس مقصد کے لیے فطری معاشرتی تنظیم کو تباہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی البتہ الیکشن جیتنا ضروری ہوتا ہے۔ دنیا کے تمام جمہوری ملکوں میں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے حدود و قیودکا خیال رکھا جاتا ہے۔ اگر یہ خیال نہ رکھا جائے تو پھر معاشرے میں سوئی ہوئی متشدد قوتوں کو بروئے کار آنے کا موقع مل جاتا ہے اور ان کا پہلا شکار عام طور پر وہی لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے اس جن کو بیدار کیا ہوتا ہے۔ خوفِ دشنام نہ ہو تو ایسے کئی سیاستدانوں کے نام لیے جاسکتے ہیں جو اس راستے پر چلے لیکن سب کچھ کھو بیٹھے۔ عبرت کا نشان بن جانے والے یہ بھول گئے کہ نفرت جگانا کسی بھی سیاستدان کے لیے انتہائی آسان کام ہے لیکن اس کے ذریعے سیاسی تبدیلی برپاکرنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ سیاست میںمنفی رویوں کے زور پر جو کچھ ملے اسے خوش قسمتی توکہا جاسکتا ہے کامیابی نہیں۔ اس طرح کی ''کامیابی‘‘ دوسروں کو بھی اسی کاروبار کی طرف ابھارتی ہے اور آخرکار سب کچھ تباہ ہوجاتا ہے۔ ابن خلدون نے کہا تھا کہ سیاستدان کا کام تصادم سے بچ کر اقتدار کا راستہ تلاش کرنا ہے، جہاں نوبت جنگ و جدل تک پہنچ جائے وہاں سیاستدانوں کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved