جموں و کشمیر میں انتخابات کے پہلے مرحلے میں ووٹروں کی بھاری شمولیت نے متعدد تجزیہ کارو ں کو حیران کردیاہے، بھارت میں تو ٹی وی چینلوں نے چیخ چیخ کر فیصلہ بھی صادر کردیا کہ آزادی اور حق خود ارادیت کے خلاف کشمیری عوام نے فتویٰ دے دیا ہے۔گزشتہ ہفتہ راقم نے ''ڈوگرہ راج کی واپسی‘‘ کے عنوان سے جو کالم رقم کیا تھا اور بھارت میں حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے کشمیر کے بارے میں منصوبوں کی تفصیلات قارئین کے سامنے رکھنے کی کوشش کی تھی، اس بھاری ٹرن آئوٹ کو اس کے تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہندو انتہا پسندوں کے عزائم نے کشمیر کے گلی کوچوں میں تشویش کی لہر دوڑا دی ہے۔آزادی کی موومنٹ اپنی جگہ، فوری نظریۂ ضرورت کے تحت شناخت بچانے کا معاملہ کلیدی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔یہ بات تو طے ہے کہ نہ صرف ہندو انتہا پسند بلکہ بھارت کا نام نہاد سیکولر طبقہ بھی کشمیر کی مسلم شناخت کو ختم کرنے اور اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرانے کیلئے موقعہ کا انتظار کر رہا ہے۔ان کے مطابق جدوجہد آزادی کو سبوتاژ کرنے کا یہی ایک دیرپا حل ہے۔
حال ہی میں ایک ملاقات کے دوران کشمیر کے ایک مقتدر لیڈر نے راقم کو بتایا، کہ 80ء کی دہائی کے وسط میں جب وہ کانگریس کی ریاستی شاخ کے صدر تھے اور انہوں نے اس وقت وزیراعلیٰ جی ایم شاہ کی حکومت سے ہاتھ کھینچ کر اس کو گرایاتھا، بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی نے ان کو آ ئندہ کے لاـئحۂ عمل پر غوروخوض کرنے کے لیے دہلی بلایا۔یہ بات تقریباً طے تھی کہ کانگریس ان لیڈر موصوف کی قیادت میں اگلی حکومت بنائے گی۔میٹنگ میں راجیو گاندھی نے کانگریس کے ورکنگ صدر ارجن سنگھ سے پوچھا کہ سرینگر میں کانگریسی حکومت کے برسر اقتدار آنے کی صورت میں کیا ترجیحات ہونی چاہئیں۔سنگھ، جو بھارت میں انتہائی سیکولر اور مسلم دوست سیاستدان کے ناتے مشہور تھے ، نے بر جستہ کہا کہ آئین کی دفعہ 370کی تنسیخ اور کشمیر کو بھارت میں مکمل ضم کرنے کا ایجنڈا سر فہرست ہونا چاہیے ،اور راجیو گاندھی کو سمجھایا کہ اس سے وہ بھارت میں امر ہوجائیں گے، اور پورے ملک میں کانگریس کی دھاک بیٹھ جائے گی۔گو کہ بھارت نواز کانگریسی ہی سہی، اس مقتدر لیڈر کے بقول، اس منصوبہ سے وہ اس قدر پریشان ہوگئے کہ سرینگر پہنچ کر انہوں نے ایسے حالات پیدا کئے کہ کانگریس کیلئے حکومت بنانا مشکل ہوگیا اور ریاست میں گورنر راج نافذ ہوگیا۔اس کے بعد بھارت کی سیکولر لیڈرشپ پر سے ان کا اعتبار اٹھ گیا۔ اور ان کو یقین ہوگیا کہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس کا متبادل ایک مقامی قوم پرست پارٹی ہی ہوسکتی ہے اور صرف مقامی پارٹیاں ہی کشمیر کی خصوصی پوزیشن اور مسلم اکثریتی تشخص کی حفاظت کرسکتی ہیں۔
گو کہ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ کشمیر میں ،خصوصاً جموں کے مسلم خطوں میں عوام ووٹ ڈالنے نکلے ہوں، مگر اس بار بی جے پی کے ایجنڈے کے ڈر سے بھی لوگوں نے ٹھٹھرتی سردی میں پولنگ بوتھوں کے سامنے قطاریں کھڑی کیں۔پچھلے کئی انتخابات کے تجزیہ سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ عوام نے خاص طور پر دیہی علاقوں میں اس حقیقت سے سمجھوتہ کر لیا ہے کہ آزادی اور انتظامیہ دو الگ چیزیں ہیں۔حالیہ انتخابات میں بانڈی پورہ اور سوناواری میں پولنگ بوتھو ں کے باہر لوگوں کی بھاری تعداد نے رپورٹروں کو بتایا کہ ان کے نزدیک حریت ایک مقدس تحریک ہے اور سید علی گیلانی کو وہ قد آور لیڈر اور تحریک کا محافظ مانتے ہیں، مگر بہتر انتظامیہ اور ان کے ووٹ نہ ڈ النے کے مضمرات، جن میں کشمیری پنڈتوں کے قلیل ووٹوں کے بل پربی جے پی امیدوار کی کامیابی کا خدشہ ہے، ان کو پولنگ بوتھ تک کھنچ لائے ہیں۔
کشمیر کی دو نوںسیاسی جماعتیں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) بھارتی چینلوں سے نالاں ہیں کہ وہ اس ٹرن آئوٹ کو آزادی پسند سیاست کو رد کرنے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔پی ڈی پی کی لیڈر محبوبہ مفتی کا کہنا تھا کہ یہی لوگ جب آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ یا گمشدہ لوگوں کی بازیابی کا مطالبہ کرنے کے لیے سڑکوں پر آئیں گے تویہی بھارتی میڈیا ان کو ملک دشمن قرار دینے میں ایک منٹ بھی نہیں لگائے گا۔ یہ بات بھی
واضح ہے کہ اس بار آزادی پسند قیادت نے گوکہ بائیکاٹ کی اپیل کی تھی مگر کے لیے لئے کوئی باضابطہ مہم نہیں چلائی اور دوسری طرف عسکری مورچہ کی طرف سے بھی کوئی دبائو نہیں تھا۔بہرحال چنائو میں عوام کی شمولیت آزادی پسند قیادت کیلئے ایک چیلنج لے کر آیا ہے۔ وقت آگیا ہے کہ بدلتے سیاسی تقاضوں کا جائزہ لیا جائے اور جدوجہد کو ایک سمت دینے کے لئے کوئی نئی راہ اپنانے پر غور کیاجائے۔ماضی میں بھی انتخابات ہوتے رہے ، لوگ بھر پور طریقے پر شریک بھی ہوتے رہے، لیکن اس کے باوجود مسئلہ موجودکا موجود رہا۔ ایسے حالات میں بھارت اور پاکستان کی لیڈر شپ کو بھی فہم و شعور سے کام لے کر گتھیاں سلجھانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ بھلے ہی قائدین ایک دوسرے سے آنکھیںنہ ملائیں، لیکن حالات کا تقاضا ہے کہ دونوں ممالک اس صورتحال سے زیادہ دیر تک آنکھیں نہیں چرا سکتے۔ان کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ نہ صرف آزاد ی پسند قیادت بلکہ کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتیں اور سیاسی لیڈران ، خواہ ان کا تعلق کسی بھی آئیڈیالوجی سے ہو، مسئلہ کشمیر حل کرنے کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں ۔ بدقسمتی سے یہ ایک حقیقت ہے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے وقت گزاری کی پالیسی اپنا ئی گئی۔ نتیجے کے طور پر مسئلہ کشمیر جتنا زیادہ طول پکڑتا جارہا ہے ، نہ صرف ریاستی عوام کی مصیبتیں بڑھتی جارہی ہیں بلکہ اس پورے خطے پر خطرات کے بادل بھی گھنے ہوتے
جارہے ہیں۔ محض وقت گزاری کی اس پالیسی کی وجہ سے نہ صرف بھارت ۔ پاک مذاکرات کی کوششیں ناکام ثابت ہورہی ہیں، پُر امن ذرائع سے مسئلہ حل ہوجانے کی امیدیں بھی دم توڑ رہی ہیں ، جو کسی بھی صورت میں کوئی نیک شگون نہیں ہے۔حیر ت کی بات یہ ہے کہ مرکز میں قائم بی جے پی سرکار نے بر سرا قتدار آنے سے اب تک اس مسئلے کے حل کے تئیں مسلسل عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس سے قبل اسی پارٹی نے اٹل بہاری واجپائی کی وزرات عظمیٰ میں مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے میںکلیدی رول ادا کیا تھا۔
فی الوقت ریاست میں پانچ مرحلوں پر مشتمل انتخابی عمل میں شامل جماعتیں عوام سے مختلف عنوانات کے ساتھ عہد و پیماں باندھ رہی ہیں۔ بی جے پی بھی اس میں پیچھے نہیں ہے اوراس جماعت نے تو جموںوکشمیر میں تعمیر و ترقی اور روزگار کی فراہمی کو اپنے منشور کی بنیاد قراردیا ہے،لیکن ان کے لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ تعمیر و ترقی اور فراہمی روز گارکے مواقع کے فروغ کیلئے امن و امان بنیادی شرط کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کیا ایسے حالات میں ، جب بھارت اور پاکستان ایک دوسرے سے آنکھیں ملانے کے بھی روا دار نہیں ہیں، امن و امان کی اْمید کی جاسکتی ہے؟ انتخابات کا انعقاد ،اور ان میںلوگوں کی بھاری شرکت سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ اب کشمیری عوام آزادی اور حق خود ارادیت سے دستبردار ہوگئے ہیں ، دیوانے کا خواب ہے۔1947ء سے قبل دونوں کانگریس اور مسلم لیگ کیا صوبائی اور کونسل انتخابات میں حصہ نہیں لیتی تھیں؟ کیا اس عمل سے وہ بر طانوی اقتدار کو تسلیم کرتے تھے؟اگر جواب نہیں ہے تو اس کا اطلاق کشمیر پر کیوں نہیں ہوتا؟