حکمران عوام کو اتنابے وقوف سمجھتے ہیں کہ تیل کی قیمتوں میںکمی پر ان کو جشن منانے کا کہہ رہے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمت پچھلے چند ہفتوں میں115 ڈالرسے کم ہوکر 73 ڈالرفی بیرل ہوگئی ہے جس کے مقابلے میں یہاں کی گئی کمی خاصی ''کاسمیٹک‘‘ ہے۔ سرمایہ داروں نے تیل کی قیمتوںکو جواز بنا کر اپنے منافعوں میں جو بڑے اضافے ماضی میں کئے تھے وہ نئی قیمتوں کے بعد بھی کم نہیں ہوں گے۔
عمران خان کے جلسوں اور دھرنوں سے لے کر حکمرانوں کے بیرون ملک دوروں سمیت بہت سے نان ایشوز عوام کے شعور پر جبراًمسلط کرنے کی سر توڑ کوششوں کے باوجود زندگی کی تلخ حقیقتیں ہر روز محنت کش عوام کے صبر اور حوصلے کا امتحان لیتی ہیں۔ اخباروں کی سرخیاں اور ٹی وی کے نیوز بلیٹن حقیقی مسائل کو بھلے جگہ نہ دیں لیکن سلگتے ہوئے مسائل سماج کی تہوں میں نہ صرف موجود ہیں بلکے وقتاً فوقتاً چنگاریاں بن کر ابھرتے رہتے ہیں۔حکمران جتنا بھی جھوٹ بول لیں، عوام کو معاشی ترقی کے جتنے مرضی سپنے دکھا دیں، روزمرہ زندگی کے الم ناک مسائل ان کے خلاف نفرت میں تیزی سے اضافہ کر رہے ہیں۔وزیر اعظم کے حالیہ دورۂ چین کی ''کامیابی‘‘ اور آئی ایم ایف سے ''کامیاب‘‘ مذاکرات کے اعلان کے باوجود، حقیقت یہ ہے کہ ملک کی معیشت بدترین بحران کا شکار ہے جس کا سارا بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر ڈالا جارہا ہے۔
چین سے ہونے والے حالیہ معاہدوںکے تحت چینی کمپنیاں آئندہ چھ سال میں پاکستان میں 45.6ارب ڈالر کی سرمایہ کریں گی۔ 33.8ارب ڈالر توانائی کے شعبے جبکہ دیگر 11.8ارب ڈالر انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر خرچ کیے جائیں گے۔ یہ رقم چینی بینکوں کی جانب سے چینی کمپنیوں کو دی جائے گی۔ چین کی معیشت کے حجم کے اعتبار سے یہ اتنی بڑی رقم نہیں لیکن پاکستانی معیشت کو مدنظر رکھا جائے تو خاصی بڑی سرمایہ کاری ہے جس میں حصہ داری کے لئے حکمران طبقے کے مختلف دھڑے پہلے ہی دست و گریباں ہیں۔
اس سرمایہ کاری سے پاکستان کی معیشت کے مسائل حل ہو سکیں گے؟بیرونی سرمایہ کاری دنیا میں جہاں بھی گئی ہے وہاں غربت ، محرومی اور ذلت میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ اس سرمایہ کاری کا مقصد انفراسٹرکچر کی بہتری یا بیروزگاری میں کمی نہیں بلکہ منافع ہوتا ہے۔پاکستان میں ہونے والی سرمایہ کاری نے عوام اور انفراسٹرکچر کو برباد ہی کیا ہے۔ بجلی کے شعبے میں ہونے والی نجی اور بیرونی سرمایہ کاری واضح مثال ہے جس سے لوڈشیڈنگ میں اضافے کے ساتھ ساتھ صنعت، معیشت اور بجلی کا انفراسٹرکچر تباہ ہوا ہے۔نندی پور پاور پراجیکٹ میں اربوں روپے کی کرپشن ہمالیہ سے اونچی ''پاک چین دوستی‘‘ کی ''روشن مثال‘‘ ہے،پلانٹ ابھی تک بند پڑا ہے۔
حالیہ پاک چین معاہدوں کے تحت ہونے والی سرمایہ کاری کا 70فیصدمشینری اور پلانٹس کی خریدار ی کی مد میں واپس چین چلا جائے گا۔ اس رقم کا بڑا حصہ پاکستان کو قرضوں کی شکل میں ''دیا‘‘ جائے گا جس کا سود نسلیں اتارتی رہیں گی۔ سرمایہ کاری کے نتیجے میں اگر کوئی منصوبہ پایۂ تکمیل تک پہنچتا بھی ہے تو اس سے ہونے والا منافع پاکستان سے باہر جائے گا جس سے ملکی خسارہ تیزی سے بڑھے گا۔ابھی تک تو یہ خسارہ بیرونی ممالک سے محنت کشوں کی بھیجی ہوئی رقوم سے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن اتنی بڑی سرمایہ کاری سے پیدا ہونے والا خسارہ یہ نحیف معیشت پورا نہ کر پائے گی۔
ان تمام خدشات کے باوجود یہ مجوزہ سرمایہ کاری اتنی آسانی سے حقیقت کا روپ نہیں دھار پائے گی۔ ملک پہلے ہی سامراجی طاقتوں کا میدان جنگ بنا ہے جس میں حکمران طبقے کے مختلف حصے اپنی وفاداریوں کے تحت اپنا اپنا حصہ وصول کررہے ہیں۔ بلوچستان میں گوادر کی بندر گاہ سے لے کر معدنیات کی کان کنی تک، چین اور امریکہ سمیت دیگر علاقائی اور عالمی سامراجی قوتیں اپنے مفادات کے حصول کے لیے بر سر پیکار ہیں۔
آئی ایم ایف سے ''مذاکرات‘‘ کا نتیجہ بھی عوام پر مزید معاشی بوجھ کی صورت میں ہی نکلا ہے۔قرضے کی 1.1ارب ڈالر کی قسط کو دسمبر تک کی ''کارکردگی‘‘ سے مشروط کرنے کے ساتھ ہی آئی ایم ایف نے حکومت کو بجلی اور گیس کے نرخوں میں مزیداضافے کا حکم دیا ہے۔آئی ایم ایف نے حکومت کو یہ تنبیہہ بھی کی ہے کہ مصنوعی بنیادوں پر روپے کی قدر میں اضافہ نقصان دہ ہو گا،روپے کی قدر میں اضافے کے باعث برآمدات کم ہو رہی ہیںاور ٹیکسوں کی مد میں آمدنی بھی گر رہی ہے۔حکومت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق،(جودرست دکھائی نہیں دیتے) ، گزشتہ سال جولائی سے دسمبر تک برآمدات میں3.1فیصد کی شرح سے اضافہ ہوا تھاجبکہ اس سال جنوری سے مارچ کے دوران یہ اضافہ 1.4فیصد ہے اور اپریل سے جون تک منفی 1.7فیصد۔ آئی ایم ایف نے 577ارب روپے سے تجاوز کر جانے والے گردشی قرضے پر وزارت خزانہ کی سرزنش کی ہے۔گزشتہ سال 480ارب روپے کا گردشی قرضہ ادا کرنے کے باوجود لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہوئی۔ بجلی کی قیمت میں ہوشربااضافے کے باوجود گردشی قرضہ اپنی جگہ پر موجود ہے اور آئی ایم ایف اس کی جلد از جلد ادائیگی پر زور ڈال رہا ہے۔اسی طرح بجلی چوری کے خاتمے کا شور مچانے کے باوجود بلوں کی ریکوری کا تناسب 90فیصد ہے جو پچھلی حکومت کے دور میں 94فیصد تھا۔
آئی ایم ایف نے گیس انفراسٹرکچر ڈیویلپمنٹ محصول کے ذریعے پیسے اکٹھے کرنے پر زور دیا ہے جس کے نتیجے میں گیس کی قیمت میں 23فیصد اضافہ ہوسکتا ہے۔آئی ایم ایف کا دباؤ ہے کہ اس مد میں عوام سے 145ارب روپے اکٹھے کیے جائیں جبکہ ابھی تک صرف 7.5ارب روپے اکٹھے ہوئے ہیں۔یہ سب اقدامات ایسی صورتحال میں کئے جانے کا امکان ہے جب حکومت عالمی سطح پر تیل کی گرتی ہوئی قیمتوں سے مستفید ہو رہی ہے کیونکہ یہ گراوٹ صارف کو پوری طرح منتقل نہیں کی جا رہی۔ بجٹ خسارے اور جی ڈی پی کی شرح نمو کے متعلق حکومت کے اعداد و شمار مذاق بن چکے ہیں۔سنجیدہ معیشت دانوں کے مطابق حقیقی شرح نمو 2سے بھی کم ہے۔
حکمران نہ صرف بد عنوان ہیں بلکہ اپنے اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے امیر سے امیر تر ہوتے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب عالمی مالیاتی اداروں کے سود ادا کرنے والے محنت کش عوام غربت اور محرومی کی چکی میں پستے چلے جا رہے ہیں۔ تحریک انصاف موجودہ حکومت پر الزامات تو لگارہی ہے لیکن اس کے پاس بھی عالمی مالیاتی نظام کی غلامی کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیںہے۔ تحریک انصاف کا منشور ''بیرونی سرمایہ کاری‘‘ سے شروع ہو کر وہیں ختم ہوجاتا ہے۔عمران خان، اس کے حواری اور پشت پناہ، سرمایہ دارانہ استحصال اور سامراجی لوٹ مار میں اپنا حصہ بڑھانے کے علاوہ اور کیا کریں گے۔ دیگر سیاسی پارٹیوں کے استعمال اور بے نقاب ہوجانے کے بعد تحریک انصاف کوایک متبادل کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جو دیگر جماعتوں کی طرح ایک روایتی سیاست جماعت ہے۔
یہ نظام اپنی معیشت اور سیاست سمیت گل سڑ چکا ہے اور تعفن پورے سماج کو پراگندہ کر رہا ہے۔اس ناسور کو انقلابی جراحی سے کاٹ پھینکے بغیر دوسرا کوئی حل ممکن نہیں ہے۔یہ وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کے عالمی مالیاتی اداروں، سامراجی طاقتوں اور مقامی حکمران طبقے کے چنگل سے نکلا جاسکتا ہے اور یہاں پیدا ہونے والی تمام دولت کو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کر کے اس خطے کو جنت ارضی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔